عبیداللہ عابد……..
گزشتہ دنوں وفاقی وزیرصحت جناب عامر محمود کیانی نے انکشاف کیا کہ ملک بھر میں ایڈز کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد مریض زیرعلاج ہیں۔ تاہم ان میں سے محض 25000 مریض ملک بھر میں موجود ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سنٹرز میں رجسٹرڈ ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں ایڈز میں مبتلا افراد کی تعداد 4266 ہے جبکہ صوبہ بلوچستان میں یہ تعداد 5 ہزار سے زائد ہے، صوبہ سندھ میں 56 ہزار سے زائد مریض موجود ہیں۔ تاہم پنجاب کے اعدادوشمار کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔بہرحال سرکار یہ اعتراف کرتی ہے کہ سن 2010ء کے بعد پاکستان میں ایڈز کے مریضوں میں 45فیصد اضافہ ہواہے۔
دوسری طرف ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایڈز کے سالانہ تقریباً 20ہزار مریض رجسٹرڈ ہورہے ہیں۔اس طرح پاکستان خطے میں دیگرممالک سے کہیں آگے ہے البتہ مرض کی تشخیص اور علاج کرانے کے شعبے میں دوسرے ممالک سے پیچھے ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کی مجموعی تعداد تین کروڑ69 لاکھ ہے۔ ان میں سے دو کروڑ 17لاکھ مریضوں کو اینٹی ریٹرووائرل تھراپی کی سہولت حاصل ہے۔ سن 2017ء میں دنیا میں 18لاکھ افراد ایڈز کے مریض بنے جبکہ اس سال کے دوران میں نو لاکھ 40 ہزارمریض دم توڑگئے۔
یادرہے کہ 2004ء میں مرنے والوں کی تعداد 19لاکھ تھی اور 2010ء میں 14لاکھ۔ 2010ء سے 2017ء تک ، بچوں میں ایڈزکے مرض کو کنٹرول میں 35فیصد کامیابی ملی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ دنیا میں اس مرض کے خلاف لڑائی میں انسان فتح یاب ہورہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اب تک دنیا میں سات کروڑ73لاکھ افراد ایڈز میں مبتلا ہوئے جن میں تین کروڑ54لاکھ افراد موت کے گھات اترے۔ گزشتہ برس ایڈز میں مبتلا ہونے والوں کی 95فیصد تعداد کا تعلق مشرقی یورپ، وسطی ایشیا،مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے ہے۔16فیصد نئے مریض جنوبی اورمشرقی افریقہ سے ہیں۔ ہرہفتے 15سے 24سال کی 7000خواتین ایڈز میں مبتلا ہوتی ہیں۔ افریقی صحرا میں رہنے والی خواتین مردوں کی نسبت دوگنا زیادہ اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔
ان اعدادوشمار کے مطالعہ قاری ایڈز کے خلاف شعور حاصل کرنے میں زیادہ بہتراور موثر کوشش کرسکتاہے۔ وہ معلوم کرسکتاہے کہ جن معاشروں میں ایڈز کے زیادہ مریض ہیں، وہاں ان کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں؟ کس عمر اور کس جنس کے لوگوں کو اس کے خطرات زیادہ تر لاحق ہوتے ہیں۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایڈز میں مبتلا ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ (27گنازیادہ ) اُن مردوں کو ہوتاہے جن کے تعلقات مردوں سے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ اس خطرے کے قریب ہوتے ہیں جو انجیکشنز کے ذریعے منشیات استعمال کرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر جسم فروش عورتیں اور چوتھے نمبر پر ہیجڑے اس مرض کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بات بھی اقوام متحدہ ہی کی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ایڈز کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح پاکستان میں بھی بلند ہے، حالانکہ یہاں پر زندگی بچانے والی اینٹی ریٹرووائرل تھراپی کی سہولت بھی موجود ہے۔سوال ہے کہ جب زندگی بچانے کے ذرائع موجود ہیں تو پھر شرح اموات میں اضافہ کیوں ہورہاہے؟ حکومتی اداروں کو اس سوال پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ایڈز سے متاثرہ افراد میں سے صرف 16فیصد ٹیسٹ کراتے ہیں جبکہ محض نو فیصد اینٹی ریٹرووائرل تھراپی کی سہولت حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ باقی ایک لاکھ 35ہزار مریض اس وائرس کو لے کر معاشرے میں گھوم پھر رہے ہیں،ہمارے ہاں حکومتیں سال میں ایک دن ایڈز کے خلاف شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر باقی 364دن کے لئے خواب غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے بارے میں کوئی حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو ایڈز کا وائرس لئے ہوئے معاشرے کے دیگر افراد کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ پاکستان میں ایڈز کی وبا کا سبب وہ لوگ ہیں جو منشیات کے انجیکشن لگاتے ہیں، وہ ایک ہی سرنج بار بار استعمال کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہیجڑے، جسم فروش خواتین اور ان سے تعلق رکھنے والے اور وہ مرد جو دوسرے مردوں سے تعلقات رکھتے ہیں، بھی ایڈز پھیلانے میں اہم ترین کردار کرتے ہیں۔
اب آئیے! جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سنگین موذی مرض ہے کیا؟
ایڈز کا مرض ایک وائرس ایچ ائی وی کے ذریعے پھیلتا ہے جوانسانی جسم کے اس نظام کو ناکارہ بناتا ہے جو بیماریوں سے محفوظ رکھتاہے یا پھر ان کے خلاف مزاحمت کرتاہے۔ درحقیقت ایڈز ایچ آئی وی وائرس کی آخری سٹیج کو کہا جاتا ہے، اگر ایچ آئی وی کا علاج نہ کرایا جائے تو مدافعتی نظام تباہ ہوکر ایڈز کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ تب بہت سی عام اور قابل علاج بیماریاں بھی انسان کو موت کے گھاٹ اترنے کے لئے مجبور کردیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد جب ٹی بی میں مبتلا ہوتی ہیں تو وہ جلد ہی موت کے گھاٹ اترجاتے ہیں۔ اس وقت ایڈز کے 49فیصد مریض ٹی بی میں بھی مبتلا ہیں۔
ایڈز کی علامات کیا ہیں؟
مرض کی ابتداء میں معمولی زکام ہوسکتاہے ، ظاہر ہے کہ عمومی طور پر اسے زیادہ بڑا مسئلہ نہیں سمجھاجاتا، چنانچہ اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ ایڈز کا مریض مہینوں یا برسوں تک صحت مند بھی نظر آتا ہے یعنی وہ بتدریج ایڈز کا مریض بنتا ہے۔ دیگر بڑی علامات میں بہت کم وقت میں جسمانی وزن دس فیصد سے کم ہوجاتاہے، اسہال کا مرض انسان کو قابوکرلیتاہے، اگر اسہال کا سلسلہ ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک چلے تو اسے ایک سرخ سگنل سمجھنا چاہئے ، اسی طرح بخار بھی ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک رہ جائے تو انسان کو الرٹ ہوجاناچاہئے اور فوراً اچھی اور قابل اعتماد لیبارٹریز سے اپنے مکمل ٹیسٹ کرانے چاہئیں۔
ایڈز کا علاج کیسے ہوسکتاہے؟
اگر ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص کے بعد علاج نہ کرایا جائے تو اس سے دیگر امراض جیسے تپ دق، بیکٹریل انفیکشن، کینسر اور سرسام کا خطرہ بڑھتا ہے، ایچ آئی وی لاعلاج مرض ہے مگر علاج سے اس وائرس کو کنٹرول کرکے مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔ پاکستان بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے لیے 33 مراکز موجود ہیں جہاں مفت ٹیسٹ اور ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ وفاقی وزیرصحت کے مطابق ملک میں موجود مراکز میں مزید سہولیات فراہم کرنا عمران خان حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اسی طرح ملک میں مزید 12سنٹرز بھی قائم کئے جارہے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ انسان اس بیماری سے دور بلکہ بہت دور رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اپنے/ اپنی شریک حیات تک محدود رہیں اور جنسی بے راہ روی سے بچیں۔ کسی بھی مسئلے میں انجیکشن لگوانا ہوتو ہمیشہ نئی سرنج استعمال کریں۔ خون کی منتقلی اسی صورت میں کرائیں جب ضروری ہو جبکہ اس بات کو یقنی بنائیں کہ خون ایڈز کے وائرس سے پاک ہو۔ اس لئے مجموعی طور پر کوشش ہونی چاہئے کہ کسی بھی قسم کے بیمار مریض سے خون نہ لیاجائے۔
اسی طرح ایڈزوائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چبھنے، جیسے ناک، کام چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والا آلات، حجام کے آلات اور سرجری کے لیے دوران استعمال ہونے والے آلات سے کسی فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایڈز کسی مریض کے ساتھ گھومنے، ہاتھ ملانے یا کھانا کھانے سے نہیں پھیلتا، لہذا مریض سے دور بھاگنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر لوگ بے جا خوف کا شکار ہوتے ہیں وہ ایڈز کے مریضوں سے بہت دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اسے اچھوت سمجھتے ہیں۔ ہاں! اس مرض کے اسباب سے خود کو ہمیشہ دور رکھنا چاہئے ۔
پاکستان میں ایچ آئی وی کے ٹیسٹ اور علاج معالجہ مفت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علامات ظاہر ہونے کے فوراً بعد ٹیسٹ کرائے جائیں، خدانخواستہ ٹیسٹ میں ایچ آئی وی موجود ہوتو بغیر جھجھک کے علاج کی طرف سرگرم ہوناچاہئے۔ معاشرے کے دیگرافراد سے ڈرنے سے بہتر ہے کہ اپنا صحیح علاج کرالیاجائے اور زندگی بچالی جائے۔