ختم نبوت اور قرآن

سچے اور جھوٹے نبی کیسے ہوتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد / لاہور

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی نبوت کے کئی جھوٹے دعوے دار پیدا ہو گئے۔ ان میں سے ایک کاذب جس کا تعلق بنو یمامہ سے تھا۔ مسلمہ کذاب آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس شرط پر اسلام لانے کا اقرار کیا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسے اپنا خلیفہ بنا دیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
"اگر تم اسلام قبول کرنے کے عوض کھجور کی یا خشک ٹہنی بھی مجھ سے مانگو گے تو میں تمہیں کچھ نہ دوں گا”

اب یہ تقابل دیکھیں اصلی اور نقلی نبی میں ۔ جھوٹی نبوت کے دعوے دار کی سب سے پہلی طلب دنیاوی عہدہ و جاہ ۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کے سچے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو قریشِ مکّہ نے خوبصورت عورت، مال و دولت ، بادشاہت و عہدہ سب کچھ ایک تھال میں رکھ کر پیش کیا لیکن نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے مشن سے رتّی برابر بھی نہ پرے ہٹے اور ہر طرح کے دیے گئے لالچ کو ٹھوکر ماری۔

برصغیر کا جھوٹا نبی۔۔

اب آتے ہیں ایک ایسے ہی نقلی و جعلی نبی کے تذکرے کی طرف جو بر صغیر میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش سن 1839ء یا سن 1840ء بتائی جاتی ہے۔گورداسپور تحصیل بٹالہ، پنجاب( ہند ) کے قصبہ قادیان میں پیدا ہونے والے اس معلون نے اپنے نسب کے بارے میں مختلف دعوے کیے۔ اپنے آپ کو کبھی فارسی النسل اور کبھی چینی النسل کہا، کبھی یہودی النسل اور کبھی اسرائیلی کہا۔ کبھی مغل خاندان سے اور کبھی حضرت فاطمہ کی نسل سے نسبت کو قائم کیا۔

پچپن ، عادات و کردار ۔۔۔

یہ نبوت کا دعوے دار بچپن سے ہی انتہائی ضدی اور چوریاں کرتا تھا۔ ذرا بڑا ہونے پر فلمیں دیکھنی اور شراب پینی شروع کر دی ۔ افیون بھی استعمال کرتا تھا۔ جوانی میں خوب آوارگیاں کیں ۔ بعد میں چلّے کرنے شروع کر دیے ۔ بے ہدایتی کا حال یہ تھا کہ اس کا باپ بھی اسے آوارہ اور بد چلن قسم کا انسان تصور کرتا تھا ۔ اس جھوٹے نبی کے ” اخلاق ” کے بھی کیا کہنے ، گالی گلوچ سے بات شروع ہوکر گند بکنے پر ختم ہوتی ۔ کسی کو حرامی کہتا اور کسی کو کنجریوں کی اولاد۔ ، یقین نہیں تو کتاب روحانی خزائن پڑھ کر دیکھ لیں ۔ اس کے اندر بد اخلاقی انتہا درجے کی تھیں جس پر چاہتا لعنت کرتا۔ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیرو کاروں یعنی مسلمانوں کے بارے میں کہا کہ
"ان کے مرد جنگلوں کے خنزیر اور ان کی عورتیں کتیوں سے بھی بدتر ہیں۔”

مولویوں کو پلید ، خنزیر ، گندی روحیں اور اندھیروں کے کیڑے کہا۔ مرزا اپنے اخلاق کی طرح کردار کے لحاظ سے بھی بدکردار ہی تھا۔ شرابی ، زانی ، دھوکہ باز ، مکار ، عورتوں سے اختلاط رکھنے والا اور ان سے اپنی خدمت کروانے والا۔ عورتوں سے خدمت کروانے اور ٹانگیں دبوانے کا ذکر تو اس نے اپنی کتاب میں سیرت المہدی میں کیا ہے۔

مرزا کے دعوے ۔۔۔

مرزا کے اپنے بارے میں دعوؤں کو بھی تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ جو کہ تین کتابوں میں مذکور ہیں ۔ براہین احمدیہ، ملفوظات اور روحانی خزائن وغیرہ میں۔
1۔ سب سے پہلے مجدد اور مبلغ ہونے کا دعوہ کیا اور کہا کہ اللّہ تعالیٰ نے مجھے پیار سے یوسف ، یونس ، مزمل اور مدثر کہا ہے۔
2۔ دوسرے دور میں دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ وفات پا چکے ہیں انہیں یہودیوں نے دفن کر دیا۔ دفن ہونے کے چالیس دن بعد تک وہ اپنے شاگردوں کو نظر آتے رہے ہیں ۔ پھر ہجرت کر کے کشمیر آ گئے ۔ 87 سال زندہ رہے ، فوت ہونے کے بعد کشمیر میں ہی دفن ہوئے ۔ مرزا کے لمبے لمبے جھوٹ، کبھی حضرت عیسیٰ کو فلسطین میں دفن کیا اور کسی جگہ مدینہ منورہ میں۔
3۔ تیسرے دور میں ترقی کر کے اپنے آپ کو ہی آخری نبی بنا ڈالا۔ لعنت الله على الكاذبين.

الہام اور فرشتے ۔۔۔

مرزا کو الہام بھی کبھی عربی زبان میں ہوتے، کبھی اردو میں اور کبھی انگریزی زبان میں۔
پھر وحی لانے والے فرشتے بھی مرزا کی طرح ہی رنگیلے تھے اور ان کے نام بھی بڑے دلچسپ تھے۔ ٹیچی ٹیچی فرشتہ، ترشنی فرشتہ، مٹھن لال اور شیر علی تھا۔

مرزا کی گستاخیاں ۔۔۔۔

مرزا کے بولے جانے والے جھوٹ تو بے مثال تھے لیکن اس نے صحابہ کرام کی گستاخی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ نعوذباللہ حضرت ابو بکر صدیق کو کم عقل لکھا۔ صحابہ تو صحابہ یہ معلون تو اللّہ تعالیٰ اور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کرنے سے بھی باز نہ آیا۔

مرزا کی موت۔۔۔

مرزا غلام احمد قادیانی گندگی سے بھر پور زندگی گزار کر اور اللہ تعالیٰ کا خوب غیظ و غضب سمیٹ کر کئی موذی بیماریوں کا مجموعہ بن کر دستوں کی بیماری میں لیٹرین میں اپنے کیے پاخانہ پر ہی گر کر لاہور میں 26 مئی سن 1908ء کو جہنم واصل ہوا۔ اور یوں زمین ایک گندے وجود سے پاک ہوئی ۔

مرزا کی پیش گوئیاں۔۔۔

مرزا نے جتنی بھی پیش گوئیاں کیں سب جھوٹ ثابت ہوئیں۔ اللّہ تعالیٰ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بارے میں اس معلون نے ایسی باتیں کہیں جن کو لکھنے کی میرے قلم میں جسارت نہیں جو کہ مجموعہ اشتہارات اور تذکرہ ص میں موجود ہیں( استغفرُللہ علی کلَِ هٰذا)

قادیانیت پاکستان کے آئین کی نظر میں ۔۔۔

اب دوبارہ رئیس المنافقین مسلمہ کذاب کی طرف آتے ہیں۔ مسلمہ نے نہ تو اسلام قبول کیا اور نہ ہی اپنے نبوت کے دعوے سے پیچھے ہٹا۔ بلکہ اس جیسی ایک معلونہ عورت بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی ۔ اس جھوٹی نے بھی نبیہ ہونے کا دعویٰ کر دیا ۔ پھر ان دونوں شیطانوں نے میاں بیوی کا رشتہ بھی قائم کر لیا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے تین لشکر روانہ کیے ۔ مسلمانوں کا کافی نقصان ہوا لیکن آخر کار اللّہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی ۔ اس جنگ میں بارہ سو مسلمان حفاظ شہید ہوئے ۔ گزشتہ تمام غزوات و جنگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے۔

اب آتے ہیں قادیانیت کے خلاف پاکستان کے آئین کی طرف ۔ مرزا قادیانی ، جسے ایک انگریز نے نبوت اور مسیح ہونے کا دعویٰ کرنے پر تیار کیا۔ نہ صرف تیار کیا بلکہ انگریزوں نے ہر لحاظ سے مکمل پشت پناہی بھی کی۔

جب مسلمانوں کو مرزا کی اس حرکت کا علم ہوا تو تڑپ اٹھے ۔ مشکل یہ تھی کی برصغیر پر حکومت انگریزوں کی تھی اور وہی اس فتنہ کے سربراہ بھی۔
یہ وقت مسلمانوں کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا لیکن پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جانثار سپاہیوں نے وہ سب کچھ کیا جس کی وہ بساط رکھتے تھے۔

سن 1929ء میں فتنہ قادیانیت کے خلاف انفرادی جدو جہد اجتماعیت میں بدلی ۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ ، حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری ، حضرت مولانا ثنااللہ امرتسری اور علماء لدھیانہ نے علمی محاظ پر اپنی زبان و قلم سے فتنہ قادیانیت کو تار تار کیا۔

سن 1930 میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ کی دعوت پر لاہور میں انجمن حمایتِ اسلام کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے 500 سے زائد علماء اکرام شریک ہوئے ۔ استاذ المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے دورانِ خطاب عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ پر نہایت جامع اور مدلل بیان فرمایا اور تردیدِ قادیانیت کا محاذ اپنے ہونہار شاگرد سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے سپرد کیا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے بھی اپنے محترم استاد کی بھی خوب لاج رکھی اور عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دن رات ایک کر دیا۔

سن 1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو قادیانیت کا فتنہ بھی پاکستان میں آ پہنچا ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا محمود نے دریائے چناب کے کنارے چینیوٹ کے قریب ایک بڑا زمینی رقبہ کوڑیوں کے بھاؤ خرید لیا اور ربوہ کے نام پر اپنا مرکز و اڈا بنا لیا۔ سوئے اتفاق پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ظفر اللّہ خان قادیانی تھا۔ جس وجہ سے اس پر فتن تحریک کا کام اور آسان ہو گیا اور یہ اپنے جھوٹے نبی کے مشن کو ملک بھر میں پھیلانے لگے۔

سید عطاء اللہ شاہ کی جماعت مجلسِ عمل تحفظ ختمِ نبوت نے سن 1953ء میں فتنہ قادیانیت کے خلاف پورے ملک میں ایک زبردست تحریک چلائی ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت میں لوگ دیوانہ وار اس تحریک کا حصہ بنے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس دور میں اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی سرزمین کی حکومت بزدل اور انگریز نواز لوگوں کے ہاتھ میں تھی ۔ جس کا ثبوت مال روڈ لاہور پر جمع ہونے والے دس ہزار عاشقانِ رسول نوجوانوں کے خلاف حکومتی مزاحمت تھی۔

22 فروری 1974ء کو نشتر کالج کے طلباء کا ایک گروپ شمالی علاقہ جات کی سیر و تفریح کی غرض سے ٹرین میں جا رہا تھا۔ گاڑی ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو مرزائیوں نے گاڑی میں مرزا قادیانی کا کفر و الحاد پر مشتمل لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں طلباء اور قادیانیوں میں جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی ۔

29 مئی 1974ء کو یہی طلباء چناب ایکسپریس کے ذریعے واپس آ رہے تھے ۔ جب گاڑی ربوہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو قادیانیوں نے نہتے طلباء پر حملہ کیا اور اس قدر زیادہ تشدد کیا کہ وہ خون میں نہا گئے ۔ جب گاڑی فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو لوگ عاشقانِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایسی زخمی حالت برداشت نہ کر سکے اور پورے ملک میں قادیانیت کے خلاف تحریک بھڑک اٹھی ۔ ہر مسلمان ختمِ نبوت کا پاسدار بن گیا ۔ تمام مکتبہ فکر کے علماء کرام ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے ۔

سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللّٰہ کی قیادت میں چلنے والی تحریک میں مفتی محمود، مولانا محمد اجمل خان، مولانا عبیداللہ انور ، مولانا سید مودودی رحمتہ اللہ ، آغا شورش کاشمیری ، مولانا عبد الستار نیازی ، علامہ احسان الٰہی ظہیر کے علاوہ کئی اکابر علماء و رہنما شامل تھے۔ ان حضرات نے شب و روز خوب محنت کی اور تحفظ ختمِ نبوت کے پروانوں کی قربانیاں رنگ لائیں ، اور پھر 7 ستمبر 1974ء کا وہ مبارک دن آ پہنچا جب قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر دن کے 4 بج کر 35 منٹ پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ شق نمبر C/295,298 کے تحت قادیانیوں کو ہر طرح کے شعائرِ اسلام استعمال کرنے سے منع کر دیا۔

لیکن اس سب کے باوجود فتنہ قادیانیت آج بھی زور و شور سے جاری ہے ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے پاکستان کے تقریباً تمام شعبہ جات میں گھسے ہوئے ہیں خاص کر محکمہ تعلیم میں ۔ انہیں یہودی و عیسائی لابی کی پوری حمایت حاصل ہے اور اس وجہ سے کئی قادیانی حکومتی اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں ۔

پاکستان تو لااله الا الله کے نام پر حاصل کردہ سر زمین ہے اور پھر ہمارے لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہی نمونہ عمل ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مسلمہ کذاب کے لیے کہا کہ میں تمہیں کھجور کی ایک خشک ٹہنی تک نہ دینا گوارہ کروں ۔ کیا ہم پاکستان میں قادیانیوں کو ان کے فتنہ پرور مشن کے لیے زمین کا کوئی ٹکڑا دینا گوارہ کر سکتے ہیں؟ کیا ان پر فتن لوگوں کو اعلیٰ عہدے دے سکتے ہیں؟

یاد رکھیں جنگِ یمامہ میں کثیر مسلمانوں کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ تحفظ ختمِ نبوت مسلمانوں کی پہلی ذمہ داری ہے چاہے اس کے لیے ماؤں کو کتنے ہی جگر گوشے شہادت کے لیے پیش کیوں نہ کرنے پڑیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں