نگہت سلطانہ
آنکھ کھلتے ہی اس نے پکارا "کہاں ہو ؟”
"تمہارے پاس ہوں” آنکھیں ملتے ہوئے وہ بولی۔
وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ خوش کیوں نہ ہوتا ،دشتِ تنہائی میں اس کی آواز کے ترنم نے اس کی سماعت کو زندگی کے ساز سے آشنا کردیا تھا۔
”سنو ۔۔۔”
”ہوں۔۔۔۔”
”مجھے چھوڑ کے کہیں چلے تو نہیں جاؤ گے نا؟”
”بھئی جیسے اس پرانی رہائش گاہ، اس شاندار محل میں ساتھ نبھایا، اسی طرح یہاں بھی نبھاؤں گا۔ اور پھر تمھارے بن میں ہوں بھی تو نامکمل۔۔۔۔مگر یہ تم کہاں چل دیں؟”
وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا، کیا دیکھتا ہے کہ وہ زمین سے کچھ اکھیڑنے کی کوشش کررہی ہے۔”ارے رے رے۔۔۔یہ کیا کررہی ہو؟”
”بھوک لگی ہے”
”میں ہوں نا میری جان! چھوڑو یہ کام میں کروں گا۔ دیکھو تو نازک سے ہاتھ زخمی ہوگئے ہیں۔”
”یہ گندم ہے نا، میں اس کی روٹی بناؤں گی۔”
”ہاں ٹھیک ہے مگر اس کی کاشت، اس کی کٹائی وغیرہ سب کام میں کروں گا۔دیکھو میرے ہاتھ بھی کتنے مضبوط ہیں نا۔”
”مجھے پیاس محسوس ہورہی ہے۔”
”میں پانی کی تلاش میں جاتا ہوں۔”
”میں اکیلی۔۔۔۔ڈر لگے گا۔ وہ دور جنگل سے بھیڑیوں کی آوازیں بھی آرہی ہیں مجھے، میں تمھارے ساتھ ہی چلتی ہوں۔”
”میں زیادہ دور نہیں جاؤں گا۔ تم یوں کرو یہ جو حصار میں نے کھینچ دیا ہے،اس سے باہر نہ آنا اور یہ ۔۔۔ یہ لو۔۔یہ لپیٹ لو خود کو، چھپا لو اس سے اور ۔۔۔اور پلکو کی جھالر گرائے رکھنا۔”
” یہ کیا ہے؟”
” یہ حجاب ہے ۔”
اور پھر جب وہ واپس آیا تو تھکن سے چور تھا۔ مگر جونہی اس پر نظر پڑی، ساری تھکن دور ہوگئی۔ اس نے پلکوں کی جھالر جو اٹھائی تو اس کی آنکھوں کی جھیل میں ڈوب جانے کو جی چاہا۔
”بیٹھونا۔۔۔۔۔ارے تمھارا بدن تو تپ رہا ہے۔”
”ہاں،تمھارے سراپے سے دور وہاں باہر دھوپ بڑی کڑی ہے۔”
وہ اس کے اور قریب ہوگیا۔
”جب بھی میرے قریب ہوتے ہو، ایک عجیب سا احساس بدن میں جھرجھری لیتا ہے۔ جانے اس احساس کا نام کیا ہے۔۔۔”
وہ اس سوال پر غور کر ہی رہا تھا کہ اوپر آسمان سے ایک آواز آئی۔۔
”سنو ! ادھر دیکھو۔ اپنے دائیں طرف نوشتہ پڑھو۔”
وہ دونوں بغور پڑھنے لگے۔
”۔۔۔۔۔ یہ جس انداز سے زندگی کا آغاز تم دونوں نے کیا ہے یہی عین فطرت ہے۔ سنو تم میں سے ایک مرد ذات ہے اور ایک عورت ۔۔فطرت پہ جب تک رہو گے خوش رہو گے۔ فتنوں سے محفوظ رہو گے۔اور ہاں اے عورت ذات! اس عجیب احساس کا نام ہے ”حیا” ، جو صنف مخالف کو دیکھتے ہی تمھارے بدن میں جاگ اٹھتا ہے۔ سنو! اس احساس کو مرنے نہ دینا ورنہ بے وقعت ہوکے رہ جاؤ گی۔
تم دونوں آگاہ رہو جس بدبخت نے تمھیں اس عالی شان محل سے نکلوایا تھا وہ تمھارا ازلی دشمن اپنے لاؤ لشکر سمیت تمھاری اس دنیا میں قدم رکھ چکا ہے۔ وہ تم دونوں کو اپنے اپنے مقام سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ حیا کے احساس کو زندہ درگور کرنے کے درپے ہوگا۔ اس مقصد کے لئے بڑے دلکش نعرے تمھیں سکھانے کی کوشش کرے گا۔ یاد رکھو اس کی پہلی ندا پر لبیک کہہ دیا تو گویا فتنوں کی دلدل میں قدم رکھ دو گے۔ اس لئے اس سے بچ کے رہنا۔۔۔۔”
وقت گزرتا گیا۔۔۔یہ دو وجود دو نہ رہے، آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔۔۔بہن بھائی کا رشتہ وجود میں آیا۔ نند بھاوج، دیور جیٹھ سبھی رشتے تخلیق ہوتے گئے۔ خاندان بنتے گئے سادگی قناعت اور جانفشانی کے ساتھ ۔
جب تک شرم و حیا کا چلن معاشرے میں رہا،زندگی پرسکون رہی، دن عید اور رات شبِ برات رہی۔۔۔۔
مگر وہ ازلی دشمن کب چین سے بیٹھنے والا تھا۔ وہ پاکیزہ اور سچی محبت کرنے والے دو دلوں کا دشمن خوب پلاننگ کے ساتھ میدان میں آیا۔
جب جب آیا ہم تم جانتے ہیں۔ ہاں آج کی بات تو یہ ہے کہ اس نے ابن آدم کے قلب کو جنسی بے راہ روی اور ہوس پرستی کے جذبات سے بھر دیا۔ بنت حوا کے چہرے سے حجاب کھینچ اتارا، حیا باختگی اور بد چلنی کے گھنگرو اس کے پاؤں میں پہنا دئیے اور اسے بیچ بازار ناچنے کا حکم دیا۔ مردوں کا ہجوم بڑھتا گیا وہ ناچتی رہی۔ ازلی دشمن کے ایک چیلے نے آگے بڑھ کر بنت حوا کے تن پر جو لباس نام کی چیز رہ گئی تھی وہ بھی تار تار کردی۔ قہقہے بلند سے بلند ہوتے گئے، بڑے سرمایہ دار کی تجوری بھرتی گئی۔
بہن، بھائی، ماں، بیٹی، میاں، بیوی سب رشتے ختم ہوگئے، بس تجارت کا رشتہ رہ گیا۔ عورت مال تجارت بن گئی۔ قریبی جنگل کے بھیڑئیے بھی انسانی لبادہ اوڑھ کر انسانوں کی بستی میں گھس آئے۔ انسانیت شرم سے پانی پانی تو ہوئی تھی،منہ سر لپیٹا اور انسانوں کی بستی سے دور کہیں انجانے دیس کی طرف روانہ ہوگئی۔
ان ظالموں نے یہاں تک بس نہیں کی بازار کا کھیل گھروں کے اندر لے آئے۔ زر پرستی اور ہوس پرستی کے کھیل کے گر یونیورسٹیوں میں سکھائے جانے لگے۔ شریف زادیوں کو گھروں سے کھینچ لایا گیا۔ لارڈ میکالے کی کی روح تو خوشی سے پھولے نہ سمائی، مگر اپنے شہر میں تو جیسے ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا۔
آج بنت حوا کا غم یہ نہیں کہ اس نے انسانیت کو منا کر اپنی بستی میں واپس لانا ہے ، اس نے ابن قاسم کو جنم دینا ہے، اس نے امام غزالی یا البیرونی یا ابن الہیثم کی ماں بننا ہے، آج اس کا واحد غم ہے جاب
فوٹو شوٹس
ٹائٹس، جینز
فیشن
گلیمر
آج بیٹی باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہتی ہے کہ میری رات کہاں گزری پوچھنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔۔۔
آہ۔۔۔
انسانیت اب کبھی پلٹ کر انسانی آبادی میں نہیں آئے گی؟
کبھی نہیں آئے گی؟
ارے۔ ۔ ۔ یہ کیا
مروہ الشربینی کو عدالت میں گولیوں سے بھون دیا گیا محض حجاب پہننے کے جرم میں
ایک اور باحجاب بیٹی کو سزا
پھر ایک اور۔۔۔۔
آج تیزاب پھینکا گیا ایک بیٹی کے چہرے پر۔۔۔
اور یہ دیکھو انسانیت پلٹ آئی۔ انسانیت کو پیار آگیا۔حوا کی ان قابل فخر بیٹیوں پر۔۔۔۔
سرمایہ دار پیچ و تاب کھاتا ہے تو کھاتا رہے۔ قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ وہ دیکھو حجاب کے پاسبان آدم کے بیٹے نعرہ تکبیر لگاتے آتے ہیں، سرمایہ دارانہ نظام پر لعنت بھیجتے میدان کارزار میں اتر رہے ہیں۔
اور ادھر دیکھو حوا کی بیٹیاں حجاب کو اپنا شعار بنانے کو بے تاب۔۔۔۔
انسانیت چار ستمبر یوم حجاب کو ایک روشن باب کے طور پر اپنی تاریخ میں لکھ دینا چاہتی ہے۔#