قدسیہ مدثر
آج جماعت اسلامی اکیاسویں ( 81 ) برس میں داخل ہوچکی ہے، اس موقع پر لکھنے کو تو بہت کچھ ہے ، الفاظ کم پڑ جائیں گے ۔ جس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے آپ کو جماعت اسلامی کے اندر پایا وہ بھلا آغاز کہاں سے کرے ۔ بزم گل سے اسلامی جمعیت طالبات تک اور اسلامی جمعیت طالبات سے جماعت اسلامی تک کا سفر بہت دل نشیں ہے۔ ایک محبت ہے ایک عشق ہے کہ اس کے بغیر زندگی ہی کیا ۔
بچپن میں کشمیر اور کشمیر والوں سے محبت جماعت اسلامی نے اس قدر بٹھا دی جو شاید تادم مرگ ساتھ رہے گی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنے ابو جاں اور بھائیوں کو کشمیر کے لئے بڑے بڑے پروگرامات کرتے اور ان پروگرامات میں کشمیر پر مظالم کی ویڈیوز دکھاتے دیکھا . پھر ہم سب بچے کشمیر کے لئے فنڈز جمع کرتے تھے ۔ افسوس کہ کشمیر کے لئے جماعت اسلامی کی بے انتہا کاوشوں کے باوجود ہماری حکومتوں کی ناقص حکمت عملی کشمیر کو آزاد تو نہیں کروا سکی لیکن ہمارے دلوں میں اب بھی کشمیر دھڑکتا ہے ۔
جماعت اسلامی سے محبت کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ میری شادی بھی جماعت اسلامی کے توسط سے اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رکن اور موجودہ رکن جماعت اسلامی سے ہوئی اور اس کے بعد تو محبت میں مزید اضافہ ہو گیا ۔
جماعت اسلامی میں آ کر سید ابوالاعلیٰ مودودی کا مزید لٹریچر پڑھا تو گویا دماغ کے بند دروازے بھی کھلتے چلے گئیے ۔ فکری اور نظریاتی ،تربیت گاہے بگاہے ہوتی رہی ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن ترجمہ اور اس قدر آسان فہم تفسیر سے قرآن کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہو گیا اور یوں مؤثر انداز میں زندگی کا لائحہ عمل ہاتھ لگا ۔
دینیات ” ، ” خطبات ” پڑھیں تو صحیح معنوں میں مسلمان ہونے کا مطلب معلوم ہوا دین کی اساس کو جانا ،” تحریک اور کارکن ” کتاب پڑھی تو اسلامی تحریک” ہونے کے ناتے کارکن کی اعلیٰ فکری اور اخلاقی تربیت اور مضبوط نظم اور ٹھوس منصوبہ بندی کے حوالے سے جانا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک اعلیٰ پائے کی کتاب ” قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ” پڑھی تو اللہ کو بہت قریب سے جانا. “الہ ” “رب” عبادت ” اور ” دین ” کے لغوی و اصطلاحی معنوں سے واقفیت ہوئی۔
اس کتاب کے دیباچے میں ایک بہت پیاری بات لکھی کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اسی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے جس نے اونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا اور اس کے زریعے فہم قرآن کی راہ کو آسان بنایا ۔ جماعت اسلامی میں کارکنوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں سے کس کس کا تذکرہ کروں ۔آپ پڑھیں گے تو آپ کے سامنے ایک نیا جہان روشن ہو جائے گا۔
تنقہات ” پڑھی تو لگا یہ تو میرا پسندیدہ موضوع ہے جس میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش پر فکر انگیز مقالات لکھے ، ان تحریروں میں سید مودودی ر ح مغرب کی بے خدا اور چکا چوند تہذیب سے مرعوب مسلمانوں کو اسلام کی فکری اور قابل فخر تہذیب کو اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ تصانیف پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اس تحریک کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ کس قدر علمی اور نظریاتی سوچ کے حامل تھے جنہوں نے اس تحریک کو بنا کر ہمیں ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کی ، ہمیں ایک درست سمت دکھائی ۔ فتنوں کے اس دور میں وقت کے فرعون کے سامنے ہمیں حق بات کہنے کے قابل بنایا ۔
آخر میں صرف اتنا کہوں گی کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ہم پر بہت احسان ہے جنہوں نے ہمیں جماعت اسلامی جیسی تحریک دی اور پھر اپنے والدین کا شکریہ ادا کروں گی جنہوں نے اس تحریک سے ساتھ جوڑے رکھا اور آخر میں اپنے شوہر کا شکریہ ادا کروں گی جنہوں نے بچوں کے ساتھ تحریک کا کام کرنے میں کبھی کو رکاوٹ نہیں آنے دی۔