عاصمہ شیرازی………
مملکت خداداد کا دستور نرالا ہے۔
یہاں اقتدار اُسے ملتا ہے جو اختیار کی ضد نہ کرے، طاقت اُسے دی جاتی ہے جسے اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہ ہو، انتظام اُس کے ہاتھ جو نظام سے بے خبر۔۔۔ اور انصرام وہ چلائے جس کا دایاں ہاتھ کام ہی نہ کرے۔ مملکت خداداد کا یہ اصول ہی اب کارگر ہے۔
لنگڑی لولی حکومتیں جب اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے لگتی ہیں تو اُن کے پاؤں کاٹ دیے جاتے ہیں۔ مردہ نظام کو مصنوعی تنفس سے چلانے کی کوشش میں رہی سہی سانسیں بھی اُکھڑ جاتی ہیں۔
وقت نہیں بدلا، حالات نہیں بدلے، واقعات نہیں بدلے۔ بدلا ہے تو صرف انداز بدلا ہے، چہرے بدلے ہیں۔۔۔ ہم گھوم پھر کر پھر صفر کے نقطے پرآ کھڑے ہوئے ہیں۔
جنرل مشرف کی منتخب کردہ انجنیئرڈ اور نقلی جمہوریت میں بھی کچھ آزادی کا احساس تھا۔ گو اُس وقت بھی اقتدار اُن ہاتھوں میں تھا جن میں جان ہی نہ تھی۔ ملکی قیادت ملک بدر تھی اور یہاں وہاں سے اکٹھے کئے ہوئے چہروں پر مشتمل حکومت کو نام نہاد عوام کی منتخب حکومت قرار دے دیا گیا تھا۔ قیادت واپس آئی تو ایک راہنما کو بیچ چوراہے قتل کر دیا گیا۔
ایک صاحب تھے شوکت عزیز، جنہیں مشرف حکومت سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ وزیر خزانہ ہوئے، ایسی ایسی معاشی گگلیاں کرائیں کہ معیشت کا جی ڈی پی سات اعشاریہ چھ سے کسی صورت نیچے ہی نہ آیا۔
پھر اچانک اُنھیں وزیراعظم بنا دیا گیا!
جب وہ ملک چھوڑ کر گئے تو اسٹیل ملز خسارے کی بلند ترین سطح پر تھی، بے انتہا لوڈشیڈنگ اور آٹے چینی کا بحران جنم لے چکا تھا۔ یہاں تک کہ آج بھی چوہدری شجاعت حسین یا پرویز الہی صاحب سے 2008 کے عام انتخابات میں ق لیگ کی شکست کی وجہ پوچھیں تو وہ الزام پرویز مشرف اور شوکت عزیز کی معیشت کُش پالیسیوں پر ہی دھرتے ہیں۔
کیا کریں، ہمارے عوام کی یادداشت ہی بے حد کمزور ہے۔ مشرف کے اقتدار کے دس سالوں میں بجلی، پانی اور دیگر مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی، جس کا شاخسانہ یہ نکلا کہ پیپلز پارٹی اور بعد میں ن لیگ کے دس سال بھی گزشتہ دس سالوں کا خسارہ نہ دے سکے۔
مشرف اقتدار بھی رکھتے تھے اور اختیار بھی، مگر اُن کا وزیراعظم ایک ربڑ اسٹیمپ تھا۔ تاثر یہی دیا گیا کہ معیشت صرف ’ہم‘ ہی ٹھیک کر سکتے ہیں۔ سوال کون کرے اور احتساب کا تو جواز ہی نہیں۔۔۔ بھلا کس کی مجال کہ اُس دور کے احتساب کا نام بھی لے جب ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل سمیت کئی اہم ادارے تباہ ہوگئے۔
تحریک انصاف کے سو دن کی تقریب میں پی ٹی آئی حکومت کے اوپنگ بیٹسمین اسد عمر کا ذومعنی جملہ کہ ’جب پچ اور موسم دونوں ناسازگار ہیں، مجھے بیٹنگ کے لئے بھیج دیا گیا ہے‘ بہت سوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ اب ناکامی ہو یا کامیابی، دونوں کا سہرا اسد عمر کو ہی جائے گا۔
حد تو یہ ہے کہ ڈالر اُوپر اور حکومت کا گراف نیچے جا رہا ہے۔ صرف تین ماہ کی حکومت کے وزیر خزانہ کے استعفوں کی افواہیں حکومت کے اندر بحران کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
ٹھپ کاروبار، احتساب کے نام پر غریبوں کے گھروں اور پتھاروں پر یلغار، ڈالر کی آسمان کو پرواز اور وہ بھی ایسی کہ وزیراعظم نے بھی بے خبری کا اعلان کر دیا!
مہنگائی میں روز بہ روز ہوتا اضافہ عوام کا نئی حکومت سے رومانس نہ صرف ختم کر سکتا ہی بلکہ اس غم اور غصے کا محور صرف حکومت نہیں بلکہ "بااختیار” بھی ہو سکتے ہیں۔
انصافی حکومت سے انصاف کا تقاضا ہے۔
مصنوعی اور بے معنی اقدامات کے بجائے پالیسیوں کا اجرا اور عملدرآمد ہی مزید سو دن کی بقاء بن سکتا ہے۔ ’پہلے مرغی آئی یا انڈہ‘ کی بحث سے نکل کر دیوالیہ ہوتی معیشت پر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔
کٹے کی سبسڈی سے نکل کر کسانوں کے مسائل حل کرنا پڑیں گے۔
اہم عمارتوں کی دیواریں گرانے سے خستہ مکان میں ہجوم کے مزید رستے نکلیں گے جو در و دیوار ہلا سکتے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے کے متذبذب اور خیبر پختونخواہ، جہاں ایک لاوا پھٹنے کو تیار ہے، کے بے خبر وزرائے اعلی کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
سو دن گزر گئے، کوئی بات نہیں۔ مگر مزید سو دن بے حد اہم ہوں گے۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت اُس کے لئے تیار ہے؟