ملا عبد الغنی برادر ، طالبان رہنما ، افغانستان

کیا خوف اسلام کا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عفت بتول

میرے استاد ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کہا کرتے تھے کہ لکھنے کے لئے پڑھنا پڑتا ہے۔ میرے والد نے بھی میرے لکھنے کے شوق کو دیکھ یہی تاکید کی کہ لکھنے کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ واقعی لکھنے کے لئے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ پڑھانے کے لئے بھی پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوسکتے لیکن ایک میدان ایسا ہے جس میں تمام پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگ برابر مقابلہ کرتے ہیں، اور وہ میدان ہے سوشل میڈیا۔

اس پر موجود افراد کے ہاتھ میں آج کل اسلام اور طالبان آگئے ہیں۔ ہر کوئی کسی تاریخی واقعے، کسی سیاسی پس منظر اور کسی دینی فریضے اور تقاضے سے نابلد ہوتے ہوئے بھی طالبان اور اسلام پر اپنی رائے دینے کو فرض عین سمجھ رہا ہے۔ دوسری طرف وہ اپنے فرائض انجام دینا بھی ضروری خیال نہیں کرتا۔

طالبان اسلام کا نام لیتے ہیں اور ہم انھیں مسلمان بھی مانتے ہیں لیکن سرحد پار ان کے غالب آنے سے اس قدر خوف زدہ ہورہے ہیں کہ وہ اسلام پھیلائیں گے۔ قبضہ کابل پر ہوا ہے، اور حالت ہماری قابل رحم ہے۔ کیونکہ ہم اس قدر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ حق کے آنے سے ڈرتے ہیں۔ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ دین پر چلنا پڑے گا اور سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ وہ عورتوں کو برقعہ میں چھپا دیں گے اور انسانی حقوق کی پامالی کریں گے۔

اس بات کا خوف بھی مغربیت پسند طبقے کو زیادہ ہے جس کو برقعے والی عورت محفوظ لگنے کے بجائے مظلوم لگتی ہے۔ اور اس عورت کی حالت پر ترس نہیں آتا جسے یورین بیگ کے اشتہار میں بھی نیم برہنہ کر کے دکھایا جاتا ہے۔ کیا یہ عورت کا حق اور فرض ہے کہ ایک ایسی شئے جس کا اشتہار مرد اور عورت دونوں کے بغیر بھی ممکن ہے، اس میں عورت کو ننگا کردیا جائے۔ ایسے”حقوق کی ادائیگی“ کو اگر طالبان ختم کریں گے تو سر تسلیم خم۔

طالبان کے ساتھ اتنے خدشات، اتنے خوف ، اتنے سوالات ہیں کہ نوجوان نسل گھبرا کر رہ گئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ امریکی جال ہے یا میڈیا سٹنٹ لیکن ایک برطانوی رپورٹر کا واقعہ ضرور یہاں لکھنا چاہوں گی، وہ باپردہ رہ کر طالبان کی رپورٹنگ کرتی رہی۔ ایک روز کسی طرح اس کا نقاب اتر گیا تو اس کا پول کھل گیا۔

جب افغان مجاہدین نے اسے گھیرے میں لے لیا تو اسے خوف لاحق ہوا کہ وہ اس کے ساتھ نہ جانے کیا کریں گے۔ کئی گھنٹوں تک وہ اپنی عزت اور زندگی کو خطرے میں محسوس کرتی رہی لیکن طالبان نے ایک خاتون کو بلا کر اس کی تلاشی لی۔ وہ سمجھی کہ طالبان کو شک ہے کہ اس کے پاس اسلحہ ہے۔ اس نے انھیں بتانے کے لئے کہ وہ نہتی ہے، اپنا برقعہ جسم سے اوپر اٹھا دیا۔ وہاں کھڑے تمام افراد نے منہ پھیر لیا، گویا ان پر بم گرا دیا گیا ہے۔

اس خاتون نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجھ پر تعینات لوگوں نے مجھے یوں قید کر رکھا تھا کہ جس کمرے میں ، میں قید تھی ، اس کی چابی میرے پاس تھی۔ اور جو شخص میرا نگران تھا اس کی رنگت ایسی تھی جیسے اس نے میک اپ کر رکھا ہو، اس کی بھوری داڑھی اور خوبصورت شخصیت تھی۔ اس کے چہرے پر ایک چمک تھی جسے نور کہتے ہیں۔اس کی آنکھیں جھکی رہتی تھیں، ایسی بھوری چمک دار آنکھیں میں نے کبھی نہیں دیکھیں، ان میں چمک حیا کی تھی۔

ہم طالبان کو اجڈ، جاہل اور خوف ناک سمجھ رہے ہیں لیکن اس برطانوی رپورٹر کے مطابق ان کے اندر اس قدر نرمی اور برداشت ہے کہ وہ میرے انتہائی بے وقوفانہ جوابات اور سوالوں پر بھی سر جھکائے رہتے۔ اس سے ایک مجاہد نے پوچھا
آپ اسلام قبول کریں گی؟
اس نے قدرے تنک کر جواب دیا:
اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ

پہلے اسلام کو پڑھوں گی۔

یونی ریڈلے نامی اس خاتون صحافی نے افغان مجاہدین کے رویے سے متاثر ہوکر اسلام کے بارے میں پڑھا اور اسلام قبول کرلیا، وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے متعلق بتاتی ہے : میرا خدشہ تھا کہ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات اس لئے نہیں کرتے کہ وہ مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ اور اس لئے نادم ہیں . وہ میرے رو برو تے تو نظریں کبھی زمین میں گاڑ لیتے تو کبھی چھت کو گھورتے رہتے۔

بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ میرا احترام کرتے تھے۔ میں کبھی کبھار غصے میں چیزیں اٹھا کر پھینکتی لیکن وہ کبھی سخت ردعمل ظاہر نہ کرتے بلکہ کمرے سے باہر چلے جاتے۔ میں جب تک ان کی قید میں رہی، مہمان بن کر رہی۔

طالبان نے اپنے ساتھ وابستہ ہر خوف اور خدشے کی نفی کی ہے، ان کی تمام پالیسیاں شدت پسندی سے ہٹ کر ہیں۔ اس کا عملی ثبوت تو آنے والا وقت دے گا۔ فی الحال تو مغرب و مشرق، دونوں طرف ان کی کارروائی کو پذیرائی مل رہی ہے۔ چودہ اگست کے فوراً بعد اور یوم عاشور سے ایک دو روز قبل یہ واقعہ رونما ہوا۔ بار بار وہ مصرعہ یاد آرہا ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ہمارے سوشل میڈیا سٹارز کو محض اس بات کی فکر ہے کہ نہ جانے افغان طالبان عورتوں کے ساتھ کیا کریں گے تو اس کا جواب برطانوی رپورٹر کی اس گفتگو میں مل جائے گا اور رہی بات ہمارے لائحہ عمل کی تو ہمیں سرحد پار ان کے ملک کے معاملات مداخلت کرمنے کے بجائے اپنی حالت سنوارنی چاہیے۔

یہاں ڈاکٹر اسرار احمد کا ایک بیان تحریر کروں گی جس میں وہ بتاتے ہیں : اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے اندر ایک خوبی ، ایک صلاحیت پیدا کردے گا ”فرقان“ جو صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے والا دل ہوگا لیکن وہ کون سا دل ہوگا جس کے اندر تقویٰ ہے جس کے اندر حقیقی ایمان ہے۔“

صلاح الدین ایوبی کا بیٹا یا غالباً نور الدین زندگی کا بیٹا شدید بیمار ہوگیا۔ طبیبوں نے کہا ”اس کا علاج شراب سے ممکن ہے۔“ انھوں نے کہا کہ یہ تو حرام ہے۔ چاروں مفتیوں کے فتوے لائے گئے، حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی۔ تمام مفتیوں کے فتوے لا کر رکھ دئیے گئے کہ جان بچانے کے لئے اس کا پینا جائز ہے۔ انھوں نے تمام مفتیوں کو بلایا اور پوچھا: کیا اللہ بغیر شراب کے مجھے صحت یاب کرنے پر قادر نہیں ہے؟ اور اگر اللہ نہ چاہے تو مجھے شراب سے شفا ہوجائے گی؟

مفتیوں نے جواب دیا: نہیں۔ وہ غصے سے بولے: اٹھاؤ اپنے فتوے اور دفع ہوجاؤ۔ اس اللہ کے بندے نے جان دیدی لیکن شراب نہیں پی۔ یہاں جان کے لالے پڑنے پر بھی حرام پر پابندی رہی اور ہمارا حال ہے کہ ذرا ذراسے معاملات میں عذر پیش کر تے ہیں کہ یوں کٹ کر دنیا سے تو نہیں رہا جاتا نا!

اپنے دل کو اللہ کے خوف اور تقویٰ سے بھرلیں تو خود دل ہی گواہی دے گا کہ طالبان اسلام کے شعائر لانے والے ہیں یا دہشت گرد۔ اپنا عمل درست کرنا مقصود ہے نہ کہ آخرت کے بجائے دنیا کے خوف میں مبتلا ہونے کی فکر۔ ایک حدیث میں ہے کہ خراسان سے ایک فوج خطہ عرب کی طرف روانہ ہوگی اور وہاں امام مہدی کی حکومت قائم کرے گی۔خراسان سے مراد موجودہ افغانستان، ہندوستان اور پاکستان ہیں۔

اللہ بہتر جانتا ہے کہ ابھی حالات کس طرف جا رہے ہیں لیکن اگر ہم اس حقیقت کی طرف جا رہے ہیں تو ہمیں بھی نہ جاننے والے کے بجائے جاننے والا بننا ہوگا۔ دین کو جاننا ہوگا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ ہر طرف پھیلی بے چینی اور انتشار بھی ہمیں بار بار اسی طرف راغب کرتا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے والے ہی سب سے بہتر ہوں گے۔

ہمیں اس بات پر اختلاف یا اتفاق کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ دینی ہے کہ ہمارے اپنے اعمال کیا ہیں؟ کیا ہم مسلمان ہونے کے محض دعوے دار تو نہیں! ایمان تو ایک طاقت ہے، پھر ہم اس قدر کمزور کیوں ہیں کہ غلط کو غلط کہنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتے، بلکہ ہاں میں ہاں ملانے کے فارمولے پر کاربند ہیں تاکہ کسی کی تنقید کا سامنا نہ کریں،

جن باتوں پر نادم ہونا چاہئے ان پر فخر کرتے ہیں۔ اور جو ہمارا فخر ہیں ان پر ہم نادم ہیں۔ ایسی صورت حال میں دل میں تقویٰ کیسے پیدا ہوگا اور تقویٰ والا دل حق اور باطل میں فرق کرسکتا ہے۔ عطا اللہ شاہ بخاری فرماتے ہیں
حق ہمیشہ اقلیت میں ہوتا ہے
اللہ ہمارے دلوں پر اور دنیا پر اسلام کو غالب کردے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “کیا خوف اسلام کا ہے؟” جوابات

  1. Aamina Janeen Avatar
    Aamina Janeen

    یہ تحریر پڑھ کر مسلمان ہونے پر فخر ہوتا ہے کہ ہمارا شمار بھی مذہبی لحاظ سے ان بہادروں میں ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایمان کے ساتھ اسکی طاقت عطا فرمائے۔آمین ۔

  2. Naureen Avatar
    Naureen

    Noor ud din Zangi name correct kr lain