سمیرا غزل
آپ کون ہیں؟ ارے آپ کو نہیں پتا کہ آپ کون ہیں؟
آپ وہ خدائی فوجدار ہیں جس نے اپنا بت خود تراشا ہے اور خود کو خدا کہلوانے کی کوشش میں معصوم لوگوں کی گردن پر پنجے گاڑے ہیں۔
جی ہاں! جب آپ نے تبصرہ کیا کسی کی ذات پر۔
جب آپ نے خوفزدہ کیا لوگوں کو ان کے اس احوال سے جس سے وہ خود پوری طرح واقف نہ تھے۔
جب آپ نے کسی کو اپنی رائے میں بند کر کے اس کے جذبات اور احساسات کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔
جب آپ نے اپنے مفادات کی خاطر اپنے گھڑے ہوئے جوازوں میں معصوم جذبات کو قید کرنا چاہا اور اتنا قید کرلیا کہ پھر ان کو بھی وہی نظر آنے لگا جو آپ کہتے تھے۔حالانکہ وہ سچ نہ تھا ۔ مگر آپ اپنے جھوٹ سے ڈرتے تھے اس لیے اپنے زہریلے تیروں کی باڑ بنا کر سچ کو پیچھے دھکیلتے رہے۔
کتنا ظلم کیا اور کیسی آہ سمیٹی جب آپ نے کسی کی بیٹی کو کم شکل ، چھوٹی ، موٹی ، ٹھگنی اور کالی کہا ۔ اور معاشرے کا توازن بگاڑتے چلے گئے۔
کتنی ہی مائوں کا کلیجہ چھلنی ہوا ہوگا ۔ کتنے ہی باپوں کا سر جھکا ہوگا مگر آپ کو کیا آپ کو تو زمانے کے وہ سب چلن یاد تھے جس میں علم و ہنر سیرت سب بے معنی ہوجاتے تھے ہاں اگر کچھ باقی رہ جاتا تھا تو ظاہری خدوخال۔
اور اپنی اس زہریلی سوچ سے آپ نے خدائے واحد کے ساتھ شرک کی بڑی ہی غلیظ کوشش کی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔
جب آپ انسانوں کے بارے میں حتمی فیصلہ دینے لگیں تو کیا آپ شرک جیسے عظیم گناہ کے بوجھ تلے نہیں آجاتے؟کہ کل حقیقت صرف رب جانتا ہے۔
لیکن آپ کو کیا ؟؟ آپ اپنا احساس کمتری چھپانے کے لیے دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے رہیں۔
لیکن ہمارا یہ جاننا اور ماننا ہے کہ اس روئے زمین پر اب بھی وہ لوگ باقی ہیں جو کسی بھی لڑکی کا رشتہ دیتے ہوئے علم ، ہنر ، شرافت ، سیرت اور نفاست و نجابت دیکھتے ہیں۔ ہر شخص جھوٹی شان اور رنگ روپ کا دلدادہ نہیں ہوتا۔
ہاں مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ جو لڑکی کے ظاہری خدوخال یا خاندان کی ظاہری شان و شوکت پر مرتے ہیں ۔ لیکن انھیں پال پال کر موٹا کرنے والے بھی کون ہیں ؟وہی لوگ جو ایک لڑکی کا سارا سرمایہ یک لخت کشتی سے الٹ کر صرف اتنا بتاتے ہیں کہ یہ ایک عام واجبی اور ان پڑھ سے لڑکے کی ماں بھی اگر تمھیں پسند نہیں کرتی تو وجہ یہ ہے کہ تم خوبصورت نہیں ہو۔
اور ایسا کہنے والا لازمی نہیں کہ کوئی غیر ہی ہو ۔ کوئی بہت اپنا بھی ہوسکتا ہے ۔ عموما اپنا ہی ہوتا ہے جو اپنے کسی بھی مفاد کے لیے آپ کو جلد از جلد راہ سے ہٹانے کا خواہاں ہوسکتا ہے ۔ یا اسے اچھی تبدیلیاں یا آپ کا خود سے کسی بھی لحاظ سے اگے بڑھ جانا پسند ہی نہ ہو کہ اس طرح اس کی اپنی کمزوریاں چھپی رہیں گی۔
مگر اے پیاری لڑکیو ! ان حالات میں تمھارا کام کیا بنتا ہے؟
تمھارا کام یہ ہے کہ اپنی ذات کا شعور حاصل کرو ۔ اپنی خوبیوں کا ادراک رکھو ۔ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرو اور خدا کے لیے ناقدروں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لیے خود کو پیش نہ کرو ۔ عزت کا سودا کسی قیمت پر نہ کرو ۔ دیکھو تم خوبصورت ہو۔کوئی نہ کوئی خوبی تمھیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تم کمتر ہو ہی نہیں سکتیں۔کیوں کہ خالق کائنات نے تمھیں پیدا کیا ہے۔
اگر آج تم وسوسوں اور اندیشوں پر ایمان لے آئیں تو کل خدا کو کیا منہ دکھائو گی جس نے اپنی جان پر ظلم کرنے سے منع کیا تھا۔
اگر آج تم ان چرب زبان لوگوں پر ایمان لے آئیں تو اپنا کل برباد کردو گی۔تم ایک اچھی نسل پروان نہیں چڑھا سکو گی۔اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق خاندانی نظام کی تشکیل ادھوری رہے گی اور اس طرح تمھاری شادی تعمیر نہیں تخریب ہوگی۔
لہذا صبر سے انتظار کرلینا ۔مگر معاشرے کے مروجہ اصولوں پر کوئی قدم نہ اٹھانا ۔والدین کی نافرمانی نہ کرنا مگر اگر وہ اس بات کو نہ سمجھتے ہوں تو کوشش کرنا کہ سمجھ جائیں۔اپنے حق کی بات کرنا گناہ نہیں ہے۔اپنی ذات کے ساتھ انصاف ہے۔
اور اگر تم میں سے کوئی معاشرے کے جھوٹے خدائوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے تو دیکھ لینا سنبھال نہ سکو تو اپنی ذات کو جس پر صرف خدا کا حق ہے استحصالی نظام کے سپرد نہ کرنا۔
اور معاشرے کے تمام جھوٹے خدائوں سے اتنی گزارش ہے کہ جھوٹے معیارات قائم کرکے بیٹیوں کو خرافات میں نہ الجھائو ۔ کیوں کہ عائلی نظام گورے رنگ اور لمبے قد پر قائم نہیں رہتا۔ بلکہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون اور نیک عورت جیسی متاع سے چلتا ہے۔
اس وقت چمن میں جہاں جہاں آگ لگی ہے اس میں بڑا حصہ تم جیسے جھوٹے خدائوں کا بھی ہے۔جن کا کام دل سے گھر تک صرف تاراج کرنا ہے۔