جب کوئی معاشرہ انحطاط پذیر ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے کے عوامل میں کہیں نہ کہیں مائوں کی بچوں کی طرف سے لاتعلقی کار فرما ہوتی ہے۔ پے در پے ایسی خبریں آرہی ہیں جن میں مردوں کا عورت کے احترام سے کوئی واسطہ نظر نہیں آرہا ۔ عورت کا احترام تو دور کی بات وہ خود کو بہت نیچے جہاں نیچائی کی حد ختم ہو جاتی ہے وہاں گرا رہے ہیں۔
جب سارے نئے پرانے صحافی قصور والے واقعے کے عمران اور لاہور موٹروے کے عابد ملہی کے پیچھے تھے تو اس وقت دل چاہتا تھا کہ کوئی ان کی مائوں سےانٹرویو کرے کہ بچپن میں کبھی انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ، انسانوں سےمحبت ، صلہ رحمی اور بالخصوص ان کا عورتوں کے لئے احترام کا کوئی ایک واقعہ تو ان کم نصیبوں کو سنایا ہوگا ۔ خدانخواستہ ان بد نصیب مائوں پر تنقید مقصد نہیں ہے صرف تحقیق کے نکتہ نظر سے یہ جاننا اور کھوج لگانا بہت ضروری ہے کہ جسے بچپن میں ماں نے پیار سے چوما ہو ، نرمی سے گلے سے لگایا ہو ، کھانا کھاتے ہوئے کوئی اچھی بات اس کے کانوں میں ڈالی ہو ، وہ کیسے اس قدر بے حس ، خود غرض ،ظالم ہو سکتا ہے۔
ماں کی گود میں پلے ہوئے بچے نے کبھی نہ کبھی کوئی پر اثر واقعات ضرور سنے ہوتے ہیں جو اسے انسانیت کی سطح سے گرنے نہیں دیتے۔ لیکن جب مائیں اپنے بچوں کو اچھا بننے پر زور دینے کی بجائے اچھے نمبر لینے پر زور دیتی ہیں اور دوسروں کو ہر میدان میں پچھاڑنے کی تربیت کرتی ہیں یا گھروں میں گفتگو کا موضوع کسی کا اعلیٰ کردار نہیں بلکہ نئے ماڈل کی گاڑی اور بڑا گھر ہو تو ان کے اندر سے صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ صحیح کے ساتھ کھڑے ہونا اور نقصان سہ لینا انسانیت کی معراج ہے ۔ اس معراج کا حصول صرف فرائض کی ادائیگی سے ممکن ہے نا کہ حقوق کی شدید طلب میں مبتلا ہونے سے ۔ ہمارے ہاں عورت کی آزادی کی حامی خواتین کے لئے ایک چھوٹا سا واقعہ کچھ یوں ہے :
چند سال پہلے چھٹی کلاس کی پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں، بچے کی ٹیچر جو کیتھولک عقیدے کی تھی ، اس نے مجھے کہا کہ آج کل آپ کا بیٹا ” آسٹن ” نامی لڑکے کے ساتھ بیٹھتا ہے اس لڑکے کی زبان بہت ناشائستہ ہے ، آپ اپنے بچے کو اس کے ساتھ دوستی کرنے سے روکیں ۔ میں نے ٹیچر سے کہا کہ کیا ہم آسٹن کے لئے کچھ کر سکتے ہیں ؟ کیونکہ اس کا گھر تقریباً ہمارے ہمسائے میں تھا اور سب اس کی ماں کی آزاد زندگی اور شوہر سے لڑائی سے آگاہ تھے۔
مجھے اس بچے سے ہمدردی تھی۔ عام طور پر استاد کسی کی پرسنل اور پرائیویٹ زندگی کو ڈسکس کرنے کے مجاز نہیں ہوتے لیکن ہم دونوں خواتین نے ” آسٹن” نامی لڑکے کی زندگی میں بہتری لانے کے پوائنٹ پر کچھ گفتگو کی ۔ ٹیچر نے کہا کہ مجھے دکھ ہے کہ ” آسٹن ” ایک نارمل بچے سے برے انسان کی طرف سفر کرنے والا ہے اور اس کی وجہ اس کے گھر کا ما حول ہے۔
اس کی ماں کو صرف اپنی ذات کی فکر اور آزادی کی خواہش نے ایک بچے کی معصومیت چھین لی ہے ۔ بعد کے سالوں میں ، میں نے اپنی آنکھوں سے اسے برائی اورنشے کی دلدل میں دھنستے دیکھا۔ ایک عیسائی آزاد معاشرے کی عورت دوسری عورت کے لئے یہ کہہ رہی تھی کہ ” میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بچے کا مستقبل ماں کی آزادی کی خواہش نے نگل لیا "باہر کے معاشروں کی یہ دو مثالیں دینے کا صرف یہ مقصد تھا کہ معاشرہ خواہ کوئی بھی ہو ماں بچے کی تربیت کا اہم ستون ہے۔ جہاں یہ ستون کمزور پڑتا ہے وہاں پوری قوم کا مستقبل داو پر لگ جاتا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ بہت کم پڑھی لکھی یا بالکل ان پڑھ مائوں نے تربیت کے بل بوتے پر شاندار سپوت پیدا کیے جیسے کہ جوہر برادران کی اماں بی، علامہ اقبال کی والدہ ، قدرت اللہ شہاب کی ماں جی ، اس کے علاوہ ان گنت لوگوں نے اپنی سوانح عمریوں میں اپنی ماں کا ان پڑھ ہونا لکھا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان مائوں کی انسانیت ، درد دل ، اصول پسندی نے ان کے بچوں کو انسانیت کے اعلیٰ سبق سکھائے جو ہماری اکثر ایم ۔ اے اور بی ۔ اے پاس عورتیں نہیں سکھا پاتیں ۔
جیسے کہ حکیم محمد سعید ، عبدالستار ایدھی ، صدیق سالک نے اپنی مائوں کے ان پڑھ لیکن با شعور ہونے کا ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ ان گنت اچھے انسان ہیں ان میں سے ہر ایک کی ماں فرائض کی ادائیگی کے لئے فکر مند تھی نہ کہ حقوق کی تلفی کے غم میں غلطاں۔ فرق صرف یہ تھا کہ انہیں انسان بنانے کی فکر تھی ، انہیں اپنے حقوق پانے کی فکر نہیں تھی نہ انہیں دوسروں کو پچھاڑتے ہوئے آگے نکلنے والی انسان نما مشینیں تیار کرنا تھیں ۔
جب عورتیں اپنے حقوق سے اتنی آگاہ نہیں تھیں تو وہ بچوں کی تربیت کو اپنا اولین فرض سمجھ کر کرتی تھیں ۔ اب یہ سب سے اہم فریضہ ثانوی ہو گیا ہے ۔ حقوق کا شعور اور حصول بالکل جائز ہے اگر فرائض کی ادائیگی کی اہمیت کا احساس بھی ہو۔ ایک عام گھریلو عورت بھی اپنا فارغ وقت بچے کے ساتھ گزارنے کی بجائے فون ، یا ٹی وی ڈراموں کو دیکھتے ہوئے گزارتی ہے ، حالانکہ بچوں کی تربیت کے لئے ماں کا وقت بہت ضروری ہے ۔
معاشرے اور قومیں صرف بے غرض اعلیٰ کردار کی حامل مائوں کی گود میں پروان چڑھتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق سے کہیں زیادہ عورتوں کو اپنے فرائض پہچاننے کی ضرورت ہے تاکہ مینار پاکستان کے چار سو جیسے ہزاروں کی تربیت ہو سکے۔