ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
بظاہر کسی الف لیلوی داستان کی طرح افغان طالبان منزلوں پہ منزلیں مارتے افغان دارالحکومت کابل جا اترے ہیں۔ امریکا اور مغربی دنیا سمیت سبھی حیران ہیں کہ یہ سب اس قدر سرعت سے کیونکر ممکن ہو سکا۔ افغان فوج کہاں گئی اور کسی نے طالبان کی طوفانی پیش قدمی کو روکا کیوں نہیں ؟ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ہم اور آپ تو شاید سچ مچ حیران ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے، لیکن امریکا اور دیگر ممالک بشمول چین، روس ، پاکستان وغیرہ کے لیے حالیہ صورتحال میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ، کابل میں دوسرا دن کیسا رہا؟
افغانستان : طالبان کابل میں داخل ، صدارتی محل میں پرامن انتقال اقتدار کے لئے مذاکرات جاری
افغانستان سے امریکہ کا انخلاء کوئی اچانک یا ناگہانی معاملہ نہیں۔ اس کی تیاری پچھلے اڑھائی تین سال سے جاری تھی۔ امریکہ جس قدر چاہے مایوسی کا اظہار کرے لیکن طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کس نے کیے، کیوں کیے، اور اس سے ہر دو اطراف نے کیا یقین دہانیاں حاصل کیں ؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح طالبان کو legitimacy کس نے دی ؟ پاکستان، چین، روس، ترکی، امریکہ ۔۔۔ سب ہی اس عمل میں شامل رہے اور ان سب تیاریوں کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ 1988 کی طرح افغانستان میں مقتدرہ کا ایسا خلا پیدا نہ ہونے پائے کہ افغانستان ایک نئی خانہ جنگی میں ڈوب جائے۔
اسی لیے بین الافغان مکالمہ کا ڈول ڈالا گیا لیکن جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، بوجوہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ نتیجتاً، ایسا گمان ہے کہ افغان طالبان کو دانستہ یہ موقع دیا گیا کہ وہ سرعت کے ساتھ افغانستان کا نظم و نسق سنبھال لیں۔
طالبان کی کابل میں آمد کے بعد سے پاکستان میں حسبِ معمول بحث و تمحیص کا در کھل گیا ہے۔ کوئی اسے دینی قوتوں کی فتح سے تعبیر کر رہا ہے اور کوئی ان کے نام اور مبینہ کاروائیوں نیز پاکستان میں ان کی آمد کے امکانات دکھا کر شام غریباں بپا کیے ہوئے ہے۔ ان سب محترم ہم وطنوں سے التماس ہے کہ ان باتوں سے باہر آ کر Real Politik پر بھی غور کر لیا کریں۔ پاکستان کے لیے طالبان ایک فطری ترجیح ہیں کیونکہ وہ اس کے سب سے بڑے حریف، یعنی بھارت کے لیے ناپسندیدہ ہیں۔
ان کے پچھلے دور حکومت میں پاکستان کے لیے مغربی سرحد ایک طویل عرصہ بعد پر سکون ہوئی جو بعد والی حکومتوں کے ادوار میں ایک مرتبہ پھر سے بھارت کی ریشہ دوانیوں کا مرکز بن کر رہ گئی۔ پاکستان کے لیے کابل میں ایسا کوئی بھی فریق قابل قبول ہو گا جو اس کے حریف کا حریف ہو۔ قومی مفاد ایسے ہی چلتا ہے۔
کبھی آپ کے تعلقات ایک بڑے برادر اسلامی ملک سے بھی سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف غیر مذہب و تمدن والا چین آپ کا اسٹریٹجک پارٹنر ہوتا ہے۔ جو دوست کل تک اسٹریٹجک ڈیپتھ کے تصور میں ناکامی کے طعنے دیتے تھے وہ اب طالبان کی آمد پر "۔۔۔طالبانائزیشن ” کے ڈراوے دے رہے ہیں۔
بھائی آپ یہ تو دیکھیں کہ پاکستان کے پاس اور کیا آپشنز ہیں ۔۔۔ کیا کرے وہ ؟ ویسے اس نوع کے تمام حلقوں کی تالیف قلب کے لیے عرض ہے کہ اس مرتبہ طالبان علاقائی قوتوں کے تعاون اور ان کے ساتھ باہمی یقین دہانیوں کے ساتھ یہاں تک پہنچے ہیں۔ چین، روس، ایران ۔۔۔۔ سب آن بورڈ ہیں ۔۔۔۔ شمال میں واقع وسطی ایشیائی ریاستیں اور ان کے زیر اثر افغان علاقے بھی طالبان کی مزاحمت نہیں کر رہے۔ کابل تک پہنچنے اور کابل میں موجودگی کے ہنگام مغربی پریس اپنی جان توڑ کوشش کے باوجود ابھی تک ان کی "بربریت” کا کوئی ثبوت نہیں دے پایا۔
ویسے بھی اپنے تمام حلیفوں کے ساتھ طالبان کی انڈر سٹینڈنگ کا بنیادی نقطہ ہی یہ ہے کہ طالبان کے ذمہ افغانستان میں استحکام لانا ہے تاکہ اسے ایک بڑی اور محفوظ تجارتی راہداری بنایا جا سکے۔ اس قسم کی کسی بھی پیشرفت سے چین، روس، ایران، پاکستان اور کسی حد تک خود امریکہ کا بھی مفاد وابستہ ہے۔
طالبان جانتے ہیں کہ اس سے افغانستان کی معاشی حالت بھی بہتر ہو گی اور خود ان کی حکومت کو استحکام حاصل ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ اس جال میں پھنس جائیں گے جسے Counter Revolution کہا جاتا ہے۔ یعنی، خود ان کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھیں گے اور ان شعلوں کو ہوا دینے والوں کی کمی نہیں۔
ہم طالبان کے نظریات سے اختلاف کریں یا اتفاق، یہ سب کا بنیادی حق ہے۔ لیکن ہمارے لیے بحیثیت قوم ان سے سیکھنے کی دو باتیں ہیں۔
اول ثابت قدمی اور دوسری اپنی صفوں میں نظم و ضبط کی مکمل پابندی۔
انگریزی کہاوت ہے کہ آپ بالعموم اس بات سے فریب کھا جاتے ہیں کہ آپ دو سال میں سب کچھ کر سکتے ہیں ۔۔۔ لیکن اس اہم نکتہ سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں کہ آپ بیس سال میں کتنا کچھ کر سکتے ہیں۔ جو قوم مستقل مزاجی اور ڈسپلن پر جم جاتی ہے کامیابی اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ وہ ایک دن کامیاب ہو کر رہتی ہے۔
وہ جاپان و جرمنی کا تباہ حالی سے معاشی طاقت بننے کا سفر ہو یا پاکستان کا ایٹمی ہدف کا حصول اور یا پھر طالبان کا دوبارہ کابل میں بحیثیت حکمران داخلہ۔ کسی قوم کو ترقی اور تعمیر کی منزل سے گمراہ کرنا ہو تو اسے ہر دو تین سال بعد کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیں اور ان میں مایوسی و تفریق کے بیج بو دیں۔ وہ ہماری طرح ستر سال حسرت و ناکامی کے صحرا میں ہی بھٹکتی رہے گی۔
یہ درست ہے کہ طالبان کو بہت سے حلقوں سے مدد ملی ورنہ شاید وہ اتنا طویل عرصہ امریکہ کے خلاف مسلح جدو جہد نہ کر پاتے۔ البتہ یہ بھی اتنا ہی بڑا سچ ہے کہ شروع کے چند سال اگر وہ ہمت و بہادری سے اپنے مشن پر نہ ڈٹے رہتے تو ان کے لیے اعانت کا خزانہ ہمیشہ خالہ رہتا۔
افغانستان میں آئندہ سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے یہ فیصلہ وہاں کے عوام اور عمائدین نے کرنا ہے۔ ہمارے لیے یہ کام ہے کہ اپنے مفادات کے لیے یکسو رہیں اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں۔ نیز بالغ نظری سے حالات و واقعات کا تجزیہ کریں۔ آج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے تیار رہنا ضروری ہے کہ ایسا نہ ہونے دیا جائے اور مفاہمت کا تعلق مستقل و مستحکم رہے۔ اچھے ہمسایوں کی طرح اچھے حلیف بھی مشکل سے ملتے ہیں۔
ایک تبصرہ برائے “افغانستان پر طالبان کا کنٹرول : پاکستان کیا کرسکتا تھا؟”
بہت اعلیٰ تحریر ہے حقائق پر مبنی اور پر امید