عبیداللہ عابد ………..
گزشتہ دنوں ایک دوست نے واٹس ایپ پر، مجھے واٹس ایپ کے بانی کی کہانی بھیجی. میں ایسی بھیجی ہوئی چیز پر آنکھیں بند کرکے یقین نہیں کرتا، چنانچہ میں اس کہانی کے بارے میں ریسرچ کی تو یہ درست نکلی. ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض لوگوں نے پڑھی ہو، جنھوں نے نہیں پڑھی، انھیں عزم و ہمت اور کامیابی کی یہ داستان روشنی فراہم کرے گی بالخصوص ایسے لوگوں کو جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے کامیابی کا انتظار کرتے رہتے ہیں، آسمان سے روپوں پیسوں کی برسات کے خواب دیکھتے ہیں، یا پھر زیادہ سے زیادہ صرف شاندار منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن عمل کی دنیا میں قدم نہیں رکھتے. ایسے لوگوں کے لئے بہت سے اسباق ہیں اس کہانی میں:
“وہ یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا‘ خاندان عسرت میں زندگی گزار رہا تھا‘ گھر میں بجلی تھی‘ گیس تھی اور نہ ہی پانی تھا‘ گرمیاں خیریت سے گزر جاتی تھیں لیکن یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پرمجبور ہو جاتے تھے‘ اس غربت میں 1992ء میں زیادتی بھی شامل ہو گئی‘ یوکرائن میں یہودیوں پر ایک بار پھر ظلم شروع ہو گیا‘ والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما‘ اٹیچی کیس میں بیٹے کی کتابیں بھریں اور یہ دونوں امریکا آ گئے‘ کیلیفورنیا ان کا نیا دیس تھا‘ امریکا میں ان کے پاس مکان تھا‘ روزگار تھا اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان‘ یہ دونوں ماں بیٹا مکمل طور پر خیرات کے سہارے چل رہے تھے‘ امریکا میں ’’فوڈ سٹمپ‘‘ کے نام سے ایک فلاحی سلسلہ چل رہا ہے‘ حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لیے فوڈ سٹمپس دیتی ہے‘ یہ سٹمپس امریکی خیرات ہوتی ہیں‘ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ یہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔
جین کوم کے پاس پڑھائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘ یہ پڑھنے لگا‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی مہنگی ہونے لگی‘ فوڈ سٹمپس میں گزارہ مشکل ہو گیا‘ جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی‘ خوش قسمتی سے اسے ایک گروسری اسٹور میں سویپر کی ملازمت مل گئی‘ اسٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم اور دروازوں کھڑکیوں سے لے کر سڑک تک صفائی اس کی ذمے داری تھی‘ وہ برسوں یہ ذمے داری نبھاتا رہا‘ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا‘ یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی میں لے گیا‘ وہ 1997ء میں ’’یاہو‘‘ میں بھرتی ہوا اور اس نے نو سال تک سر نیچے کر کے یاہو میں گزار دیئے۔
2004ء میں فیس بک آئی‘ یہ آہستہ آہستہ مقبول ہو تی چلی گئی‘ یہ 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی‘ جین کوم نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا‘ وہ یہ نوکری حاصل نہ کر سکا‘ وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا‘ وہ آئی فون خریدنا چاہتا تھا لیکن حالات اجازت نہیں دے رہے تھے‘ اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے اور نیا آئی فون خرید لیا‘ یہ آئی فون آگے چل کر اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا۔
جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے سوچا‘ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو‘ جس کے ذریعے ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے‘ تصاویر بھی بھجوائی جا سکیں‘ ڈاکومنٹس بھی روانہ کیے جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے‘ یہ ایک انوکھا آئیڈیا تھا‘ اس نے یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست برائن ایکٹون کے ساتھ شیئر کیا‘ یہ دونوں اسی آئیڈیا پر جت گئے‘ یہ کام کرتے رہے‘ کام کرتے رہے یہاں تک کہ یہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدیں کراس کر گئی‘ یہ ایپ ٹیلی کمیونیکیشن میں انقلاب تھی‘ اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
یہ ایپلی کیشن واٹس ایپ کہلاتی ہے‘ دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں‘ یہ ایپ دنیا کا تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ ہے‘ آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی آپ کسی موبائل کمپنی کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے‘ آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کے لیے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
فروری 2014ء میں فیس بک بھی ’’واٹس ایپ‘‘ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی‘ فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی‘ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے اس ہنسی کے دوران ’’فیس بک‘‘ کو ہاں کر دی‘ 19 بلین ڈالر میں سودا ہو گیا‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر سے لگا لیجیے‘ پاکستان کا فارن ایکسچینج اس وقت 22 ارب ڈالر ہے اور پاکستان 70 برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا جب کہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں فروخت کی۔
جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی’’میں فوڈ سٹمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر دستخط کروں گا‘‘ فیس بک کے لیے یہ شرط عجیب تھی‘ یہ لوگ یہ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ڈٹ گیا یہاں تک کہ فیس بک اس کی ضد کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی‘ ایک تاریخ طے ہوئی‘ فیس بک کے لوگ فلاحی سینٹر پہنچے‘ وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا‘ وہ کیوں نہ روتا‘ یہ وہ سینٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔
یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے‘ ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی‘ وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی‘ طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی’’تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے‘ تم کام کیوں نہیں کرتے‘‘ یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی‘ ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے‘ وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے 19 بلین ڈالر کی ڈیل پر ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کیے‘ چیک لیا اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا‘ فوڈ سٹمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی‘ جین نے 19بلین ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا ’’آئی گاٹ اے جاب‘‘ اور سینٹر سے باہر نکل گیا۔
یہ ایک غریب امریکی کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے‘ یہ داستان ثابت کرتی ہے آپ اگر ڈٹے رہیں‘ محنت کرتے رہیں اور ہمت قائم رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کامیابی کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے‘ ”
آپ اپنے جاننے والوں میں کسی ایسے فرد بالخصوص نوجوان کو اس کہانی کا ضرورت مند محسوس کریں، تو اسے ضرور مطالعہ کروائیں، اپنے سوشل میڈیا پیجز پر شئیر کریں تاکہ پاکستانی قوم میں بھی ایسی شاندار مثالیں قائم ہوسکیں.