سوشل میڈیا پر چھا جانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی بر سر زمین بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہو گا۔ ایسا ہوتا تو اس وقت افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا جھنڈا ہر طرف لہرا رہا ہوتا ، افغانستان کے طالبان کی دال کہیں نہ گل رہی ہوتی لیکن افغانستان کی صورت حال اس سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اس بات کا تناظر #WeStandWithAshrafGhani کے عنوان سے ٹرینڈ ہے جو اس وقت ٹاپ کے چند ٹرینڈز میں شامل ہے۔
اتوار کی صبح ، جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں ، افغانستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ طالبان نے کابل کے علاوہ پورے ملک کے تمام اہم شہروں پر اپنے پرچم لہرا دیے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی تیزی سے جاری ہے اور وہ ملک کے 34 میں سے 23 صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ طالبان نے بعض ان علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے جنھیں وہ انیس سو چھیانوے سے سن دوہزار ایک تک کے دور میں وہ فتح نہیں کرسکے تھے۔
ہرات جسے طالبان کبھی فتح نہ کرسکے تھے، طالبان کے قابو میں آگیا ہے۔ عبدالرشید دوستم جو ہمیشہ طالبان کے مقابل ناقابل شکست رہے، مزار شریف سے فرار ہوچکے ہیں، اب ان کا علاقہ طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ اسی طرح طالبان کے سب سے بڑے مخالف احمد شاہ مسعود کے بیٹے طالبان کے سامنے سر تسلیم خم کرچکے ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق طالبان نے کابل کی طرف پیش قدمی شروع کردی ہے۔
دوسری طرف افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلح جنگجوؤں کے ’دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے ہیں جنھوں نے ماضی میں دخل اندازوں کی مدد کی، یا اب وہ بدعنوان کابل انتظامیہ کی صف میں کھڑے ہیں۔’ہم پہلے ہی عام معافی ( ایمنسٹی ) کا اعلان کر چکے ہیں۔ ہم ایک بار پھر ان سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں، قوم اور ملک کی خدمت کریں۔‘
وائس آف جرمنی کا کہنا ہے کہ طالبان کی مسلح کارروائیوں نے ( کابل والوں کے لئے ) فرار ہونے کے تقریبا تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ اب صرف کابل کا ہوائی اڈہ ہی بچا ہے، جہاں سے ملک سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے امیر اور کاروباری حضرات جلد از جلد ملک چھوڑنا چاہتے ہیں جبکہ ٹکٹیں مشکل سے مل رہی ہیں۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور بعض نائب صدور بھی ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ تاہم ان خبروں کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق کابل کے شہریوں میں خوف و ہراس کی کیفیت پھیل چکی ہے اور زیادہ سے زیادہ سامان اٹھا کر ہوائی اڈے پر پہنچ رہے ہیں تا کہ اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ سامان لے جا سکیں۔ ان کے ساتھ سامان میں ٹیلی وژن اور یادگاری اشیاء بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ لوگوں کی قطاریں طویل ہیں اور کاؤنٹر پر ٹکٹ پراسسنگ کا عمل بہت ہی سست ہے۔
طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سات صوبائی دارالحکومت ان کے قبضے میں آچکے ہیں۔ افغانستان سے باہر آنے والی تمام تر خبریں طالبان ذرائع ہی سے آ رہی ہیں، افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کہاں ہیں؟ ان کے ساتھی حکومتی عہدے دار کہاں ہیں؟ افغان فوج ، جس پر امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کیے تھے، کہاں ہے؟ کسی کو کچھ علم نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ افواہیں جنم لے رہی اور پھیل رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ #WeStandWithAshrafGhani کا ٹرینڈ بھی پاکستان سے چلایا جارہا ہے اور اس کے پیچھے پاکستان میں موجود طالبان مخالف طبقہ ہے۔افغان صدر کا آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ دس اگست سے خاموش ہے۔
وائس آف امریکا کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے پر اسرار خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سخت پریشان ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اس وقت شدید دبائو کا شکار ہیں ، وہ شاید مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔