پاکستان میں ڈرامہ انڈسٹری تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے مگر لوگ آج بھی پرانے دور کے ڈراموں اور پروگرامز کو یاد کرتے ہیں۔ بعض ناقدین دورِ حاضر کے ڈراموں اور پروگرامز کو ماضی کے مقابلے میں غیر معیاری بھی قرار دیتے ہیں۔
کیا واقعی آج کل معیاری ڈرامے نہیں بن رہے؟
جانتے ہیں گیتی آرا انیس کی رپورٹ میں ، جس میں انھوں نے مختلف ماہرین سے بات کی۔
ممتاز ماہر تعلیم عارفہ سیدہ زہرا کا کہنا ہے کہ
ایک زمانے میں ہم انتہائی معیاری پروگرام دیکھتے تھے، وہ چاہے تاریخ کے ہوں ، چاہے روز مرہ کے مسائل پر مذاکرے ہوں ، ڈرامے ہوں۔” ڈراموں کی کیا ہی بات تھی۔ موسیقی ہو اور ان معیاری پروگرامات کی بدولت صورت حال یہ تھی کہ شام کو خاندان مل کے بیٹھتا تھا۔
اور اب……… میں معافی کے ساتھ کہنا چاہتی ہوں کہ اب آپ کے ٹیلی ویژن پر جو لوگ دانش ور کہلاتے ہیں ، جو ان کا لہجہ ہے، جو ان کی زبان ہے ، جو ان کا خیال ہے ، خاص طور پر جس طرح سے وہ دوسروں کو دیکھتے ہیں، جو ان کے پیمانے ہیں لوگوں کو جانچنے کے ، وہ میرے جیسے لوگوں کے لئے شرمندگی کا سامان ہے۔”
آج کے ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ معیاری نہیں رہے، اس کی وجہ ٹیلنٹ کی کمی ہے یا کچھ اور؟
افتخار عارف، شاعر اور دانش ور نے اس سوال کا جواب یوں دیا
پہلے ڈرامے لکھتے تھے خواجہ معین الدین ، کمال احمد رضوی ، شعیب ہاشمی ، انور سجاد ، منو بھائی ، سلیم احمد ، انتظار حسین ،” احمد ندیم قاسمی ۔ اب جو خواتین اور مرد ڈرامہ نگاروں کی فوج ہے ، شاید ہی ان میں سے ایک آدھ آدمی ایسا ہو ، جسے آپ صحیح ڈرامہ نگار کہہ سکتے ہوں ۔
مرد اور عورت کا تعلق نہایت اہم ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ تھیم چلتے ہیں اور پوری انڈسٹری ، پورا وقت ، ہر چینل پر اس سے مختلف بات ہی نہیں ہورہی ہے۔ بچوں کے لئے کوئی مواد نہیں ہے، کسی تعلیم کے حوالے سے کوئی ٹریننگ نہیں ہے، تہذیب اور کلچر پر کبھی آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے کبھی کوئی ڈاکومنٹری دیکھی ہوگی ؟ سو چینل ہیں ، موہنجو ڈرو پر ، ٹیکسلا پر ، شاردہ یونیورسٹی پر ، مغل دور پر ، کلہوڑوں کے بارے میں آپ جانتے ہوں گے؟”
قرۃ العین رضوی، سابق ٹی وی اینکر کہتی ہیں
مواد کے ساتھ ساتھ جس چیز کی میں بہت زیادہ کمی محسوس کرتی ہوں ، وہ ایک لہجہ ہے، ایک انداز گفتگو ہے ، چیخنا ، چلانا ہی سننے ، دیکھنے کو ملتا ہے۔” میں پروگرام دیکھتی ہوں کہ میزبان نے جن مہمانوں کو بلایا، انھیں بولنے ہی نہیں دے رہا۔ خود ہی بول رہے ہیں۔ اور اس پر حاوی ہورہے ہیں، میزبان کا یہ کام تو نہیں ہے، گرومنگ نہیں ہے بالکل ۔ٹریننگ نہیں ہورہی ہے، سیکھ نہیں رہے ہیں ، سیکھنا نہیں چاہ رہے ہیں،”
افتخار عارف کا کہنا ہے کہ
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں ایجوکیشن کم ہے ، آپ پر لازم ہے کہ آپ پبلک سروس پروگرام کریں۔ آپ انھیں تعلیم دیں ، آپ انھیں بچوں کے استحصال کے بارے میں بتائیں ، آپ انھیں خواتین کے مسائل کے بارے میں بتائیں ، انھیں بتائیں کہ رواداری کیا ہوتی ہے، کیسے ہوتی ہے، آپ یہ سب کچھ انھیں بتا سکتے ہیں ٹی وی کے ذریعے ۔لیکن آپ نہیں کرتے۔
ناظرین کہتے ہیں کہ ان مسائل کا حل ٹی وی چینلز کی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے،
عارفہ سید زہرا کہتی ہیں کہ
آپ کے معاشرے میں جب تک ایک رائے کا معیار قائم نہیں ہوگا ، شاید کچھ نہیں ہوسکے گا، اگر ٹیلی ویژن والے تھوڑی دیر کا نقصان برداشت کرلیں ،آپ کے ذہن کا ماحول اور ان کا مزاج بدلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بہت سے سنجیدہ نوجوان جنھیں میں پڑھاتی ہوں ، ان میں سے بہت سے نالاں ہیں کہ ہمیں کیا دکھا رہے ہیں، کون سی رائے عامہ ہے جسے وہ ہموار کررہے ہیں، میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا۔
قرۃ العین رضوی کا کہنا ہے کہ
یہ معیار تو ٹی وی چینلز کے مالکان نے سیٹ کرنا ہے ، انھیں ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر وہ مکمل طور پر کمرشل رہیں گے تو یہ معاملہ مزید خراب ہوتا چلا جائے گا۔
( بشکریہ وائس آف امریکا )