ڈاکٹر خولہ علوی
14 اگست 2021ء کو پاکستان کو معرض وجود میں آئے 74 سال گزر چکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی بچوں کو یوم آزادی کا بہت شوق تھا اور وہ بے چینی سے 14 اگست کی آمد کے منتظر تھے۔ "بچے اس سال چودہ اگست منانے کے حوالے سے خصوصی ڈسکشن کرنا چاہتے ہیں۔”امی جان نے ابو جان سے کہا جو خود بھی یہ بات محسوس کررہے تھے۔
چنانچہ ابو جان نے نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد ان کی پر رونق مجلس لگالی جس میں سارے اہل خانہ موجود تھے۔ "ماہ اگست کا آغاز ہو تے ہی ہر طرف سٹال لگے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔” ابو جان نے بات کا آغاز کیا وہ اس موقع پر بالکل سادگی کے قائل تھے لیکن بچوں کو واضح اور تفصیلی طور پر آزادی کی اہمیت و افادیت بتانا چاہتے تھے۔
"جی ہاں! ان سٹالوں پر پاکستانی پرچم، جھنڈیاں، "جشن آزادی مبارک” والے بیج سٹالوں کی رونق بڑھاتے نظر آتے ہیں جو مختلف سائزوں اور سال بہ سال نت نئے سٹائل میں ڈھلے نظر آتے ہیں۔” عابد نے مختلف نئے سٹالوں کے قیام پر تبصرہ کیا جن کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔
”دکانوں میں بھی موجود یہ اشیا ہرطرف اور ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ معمول کی طرح بڑوں سے زیادہ بچے پرجوش نظر آرہے ہیں اور ان سٹالوں اور دکانوں سے اپنی من پسند جھنڈیاں، پرچم اور بیج خرید کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اپنے گھروں کو جھنڈیوں سے سجانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔” خالد نے بھی بھرپور طریقے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
”سبز ہلالی پرچم گھروں کی چھتوں،گاڑیوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ پر پوری شان سے لہراتے نظر آتے ہیں۔ بچوں نے اپنے سینوں پرایک نہیں، دو دو تین تین بیج لگا رکھےہوتے ہیں۔” عابد بولا
”میں بھی 14 اگست مناؤں گا۔ ابو جان! ہم کل ہی آپ سے پیسے لے کر جھنڈیاں خرید لیں گے، ایک بہت بڑا جھنڈا گھر کی چھت پر لگائیں گے جو دور سے ہی لہراتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ ابوجان کی گاڑی پر، عابد بھائی کی موٹر سائیکل پر اور میری چھوٹی سائیکل پر بھی ہم جھنڈے لگائیں گے۔” چھوٹے ساجد نے بڑے جوش سے اپنا جھنڈے اور جھنڈیاں لگانے کا جذبہ آشکار کیا۔
”میں نے "جشن آزادی مبارک” والے تین بیج، سبز اور سفید رنگ کے نئے کپڑے، گھڑی، ہاتھ میں پہننے والے بینڈ اور یوم آزادی والی باقی چیزیں بھی خریدنی ہیں۔” ساجد نے اپنا فرمائشی پروگرام جاری رکھا۔
"بچے بڑے سبھی جشن آزادی کے لیے 14 اگست کے منتظر ہیں۔” ابوجان ساجد کے جوش وخروش پر مسکراتے ہوئے بولے۔
”لیکن ساجد بیٹے! اتنی جلدی ہم آپ کے نئے کپڑے کیسے خریدیں گے؟ میرے پاس تو مارکیٹ جانے کا وقت نہیں ہے۔”
"ابو جان! ان سٹالوں اور دکانوں پر جشن آزادی کی مناسبت سے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے سبز اور سفید رنگ کے تیار شدہ ملبوسات بھی بکنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ہم اپنی مارکیٹ سے ساجد کے لیے ریڈی میڈ کپڑے خرید لیں گے۔ اپ کو اس کے لیے خود بازار جانے کی تکلیف نہیں کرنی پڑے گی۔” عابد نے سمجھ داری سے کہا۔
”ابو جان! ہمیں بھی 14 اگست کے لیے کپڑے اور دوسری چیزیں خرید دیں۔ لڑکیوں اور خواتین کے لیے بھی سبز اور سفید رنگ کے بریسلیٹ، چوڑیاں، کڑے، کنگن، جیولری سیٹ، نیکلس، ہار، کانٹے، انگوٹھیاں اور بالوں میں لگانے کے لیے کیچر، ربن، پونیاں، پنیں سب بڑی آسانی سے مل جاتی ہیں۔” خنساء نے بھی فرمائش کی۔
"پھر سبز اور سفید رنگ کے کپڑے اور دوسری میچنگ چیزیں پہن اوڑھ کر آپ لوگ کیا کریں گے؟” ابو جان نے دلچسپی سے پوچھا۔
”پھر ہم گھر میں ٹی وی پر پریڈ اور دوسرے ملی پروگرام اور ڈرامے دیکھیں گے اور ملی ترانے سنیں گے۔” انیسہ جلدی سے بولی
”ابو جان! لڑکے اس دن موسیقی، میوزک، ناچ گانے، ڈھول باجے، میوزیکل کنسرٹ کے علاوہ ون ویلنگ کرتے ہیں اور موٹر سائیکلوں کے سائلینسر نکال کر بڑی خوفناک آواز کے ساتھ انہیں تیز رفتاری سے خوب بھگاتے ہیں اور آپس میں ریسیں لگاتے ہیں۔” خالد نے منہ سے خطرناک سی آواز نکال کر بتایا تو سب ہنس پڑے۔
"پیارے بچو! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سفید اور سبز رنگ کے ملبوسات پہن کر اور اپنے آپ کو ان میچنگ رنگوں سے سجا کر، ٹی وی پر پریڈ اور ملی ترانے دیکھ اور سن کر ہم نے یوم آزادی بہت اچھے طریقے سے گزارا ہے؟” ابو جان نے سوال کیا
”بالکل! ہم اچھے طریقے سے یوم آزادی گزارتے ہیں۔” بچوں نے اس سوال پر ایک دوسرے کو بغور دیکھ کر آنکھوں میں کچھ اشارے کر کے جواب دیا۔ "جی ابو جان!” خنساء بھی بولی
”یہ چیزیں اتنی اہم نہیں جتنا یوم آزادی کے مقاصد کے بارے میں معلوم ہونا ضروری ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ تو اسراف میں شامل ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کپڑوں اور ان چیزوں کو زیادہ تر اس دن یا اس مہینے میں پہنا جاتا ہے۔عموماً لوگ یوم آزادی کی مقصدیت سے غافل ہوتے ہیں۔” ابو جان نے بتایا
"وطن سے محبّت صرف جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے یا ملّی ترانے گانے کا نام نہیں، یہ تو محض کم عُمری کے جذبات کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ایک ذمّہ دار اور محب وطن مسلمان شہری ہونے کے ناتے وطن سے محبّت کے تقاضے تو کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ ” ابو جان نے مزید واضح کیا۔
”یہ سب رونقیں اپنی جگہ تاہم ماہ اگست کا تعلق صرف ان چیزوں کے ساتھ نہیں ہے۔ اس ماہ کا اصل تعلق نہ تو صرف جشن آزادی منانے کے ساتھ وابستہ ہے اور نہ ہی الیکشن وغیرہ جیسی کوئی اور چیز اس ماہ کے لیے اہم ہیں۔” امی جان بولیں
”پھر یوم آزادی کا تعلق کن چیزوں سے ہے؟” اب انیسہ نے سوال پوچھا”اس ماہ کا اصل تعلق تو آزادی کی قدر و قیمت کا احساس کرنے، قیام پاکستان کے وقت شہداء کی دی گئی قربانیوں کو یاد کرنے، آزادی کی اس عظیم الشان نعمت کے لیے اللہ تعالی کا شکر گزار ہونے کا ہے۔ اس کے علاوہ ملک و قوم کی خدمت کے لئے کچھ کر گزرنے کا احساس اور پھر اس پر عمل کرنے کے ارادے ہیں۔ ہمیں "لا الہ الااللہ” کی خاطر حاصل کیے گئے پاکستان کی خاطر جان ومال کی قربانی دینے کے عہد کی تجدید کرنی چاہیے۔” ابو جان نے واضح کیا۔”جی۔” بچے متاثر ہو کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔
”قیام پاکستان بہت عظیم واقعہ ہے۔ اور جس رات پاکستان حاصل ہوا، وہ بھی بہت عظیم رات ہے۔ ہم 14 اگست کی تاریخ یاد رکھتے ہیں اور شب قدر کو بھلا دیتے ہیں۔” ابو جان نے یوم آزادی کے حوالے سے شب قدر کا تذکرہ کیا۔
”شبِ قدر ہمارے لیے بہت اہمیت و فضیلت کی حامل رات ہے۔ جہاں یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے، وہیں اس میں قیام پاکستان جیسا عظیم الشان اور فقید المثال واقعہ پیش آیا۔ اس کے لیے ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شکر گزاری کے لیے جتنی بھی عبادت کریں، کم ہے۔” امی جان نے شب قدر اور پاکستان کے تعلق کو واضح کیا۔
”یعنی رمضان، قرآن اور پاکستان باہم لازم و ملزوم ہیں۔” ابو جان نے مزید کہا۔”رمضان میں قران مجید اور دیگر تمام آسمانی کتب نازل ہوئیں۔ اور اسی ماہ مقدس میں ہمیں قیام پاکستان جیسی عظیم نعمت حاصل ہوئی۔” امی جان نے قیمتی معلومات فراہم کیں۔
”سب سے بڑی آزادی اور کامل ترین حریت یہ ہے کہ آپ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوں، آپ کے دل میں کسی غیر اللہ کی بندگی کا شائبہ تک نہ ہو۔“ ابو جان نے عصر حاضر کے ایک معروف عرب عالم ڈاکٹر محمد بن غالب العمری کا خوبصورت قول دہرایا۔
"ملک و ملت سے محبت اور اس سے وفاداری ہمارے پیغمبر نبی اکرم ﷺ کاشیوہ ہے۔جب نبی اکرم ﷺ اپنے شہر مکّہ مکّرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ روانہ ہو رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’اے مکّہ! تُو کتنا پیارا شہر ہے!تُو مجھے کس قدر محبوب ہے!اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی، تو مَیں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔” (سنن ترمذی)امی جان نے ایک حدیث سنائی۔
”ابو جان! کیا ہم یومِ آزادی منا سکتے ہیں؟ بعض لوگ یوم آزادی منانے کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ یہ ہمارا اسلامی تہوار نہیں ہے۔” عابد نے سوال کیا۔
”یومِ آزادی اور اس طرح کے دیگر مواقع کو ہم دعوت وتبلیغ کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم اس کو اسلامی طریقے سے نہیں گزاریں گے تو مغربی افکار سے متاثرہ لابی اور سیکولر لوگ ان کو اپنے انداز سے جس طرح مناتے ہیں، اس سے دوسرے لوگ یعنی عوام الناس بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ان کے طرز عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور انہیں کے طریقے کے مطابق یہ دن مناتے ہیں۔
”قیام پاکستان اور نظریہ پاکستان کی مخالف ایک پوری لابی اور سیکولر (یعنی بے دین قسم کے) لوگوں کا ایک پورا گروپ موجود ہے جو اسلام کے نام پر بننے والے وطن پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں۔ پھر میڈیا میں اس کو عام مغربی انداز سے متاثرہ طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ اور اس کو اسلام سے ہٹ کر منانے کی روایت پیش کی جاتی ہے۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پرجتنے وسیع پیمانے پر اس کا پرچار اور تشہیر کی جاتی ہے اور اس کو ہلے گلے، ناچ گانے اور ڈھول تماشوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، اسی اعتبار سے اور اتنے بڑے پیمانے پر اس کا توڑ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یعنی اس دن کا اصل مقصد واضح کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔” ابو جان نے تفصیل سے بیان کیا۔
”ابوجان! یہاں دن منانے کا آپ کا کیا مطلب ہے؟” خالد نے پوچھا۔”دن منانے کا مطلب صرف یہی ہے کہ ہم اس دن کی اہمیت کو گفتگو، تقریروں، ڈسکشنز اور نظموں اور ملی ترانوں وغیرہ کے ذریعے اجاگر کرتے ہیں۔اور اس مقصد کے حصول کی مختلف طرح سے یاد دہانی کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔” ابو جان بولے۔
”یہ دن اس لیے بھی ہمارے ہاں زیادہ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے کہ اگلے دن یعنی 15 اگست کو انڈیا کا یومِ آزادی ہوتا ہے اور وہ اس کو بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔” امی جان نے بتایا۔
"یہ آزادی جس میں نہ تو ملک میں مکمل طور پر اسلام نافذ ہوا، نہ ہی ذہنی غلامی ختم ہوئی، تو پھر اس یوم آزادی کو کیوں اتنے بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے؟” عابد نے کچھ دیر سوچ سمجھ کر پھر پوچھا۔
”یہ دن نارمل طریقے سے منانا چاہیے۔ بس کوشش کرنی چاہیے کہ اسے منانے میں اچھے طریقے سے خیرو بہبود کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ اور بچوں، جوانوں اور بزرگوں تک آزادی کی نعمت اور اس کی قدرو قیمت کا احساس کرنے کا پیغام دوبارہ پہنچا سکیں۔” ابو جان نے جواب دیا۔
"اس دن آزادی کے لیے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکرانے کے نوافل پڑھیں اور حسب توفیق صدقہ وخیرات بھی کریں تو بہت بہتر ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی اور تعمیر وترقی کے لیے دعائیں مانگی جائیں۔ مظلوم کشمیری مسلمانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں خصوصی طور پر یاد رکھیں۔ اللہ کے دین کی خاطر ملک وملت کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے کو ازسرنو منظم کریں۔ دوسرے لوگوں تک بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر حتی المقدور اس پیغام کو پہنچانا چاہیے،جیسے بھی ممکن ہو۔ مثلاً گفتگو، ڈسکشن، پروگراموں وغیرہ کے ذریعے۔” ابو جان نے بتایا۔
”کیا ملی نغمے اور ترانے پڑھنے میں کوئی شرعی قباحت ہوتی ہے؟ ان کے ساتھ میوزک ضرور ہوتا ہے۔”امی جان نے بچوں کی ذہن سازی کے لیے ابو جان سے جان بوجھ کر یہ سوال پوچھا۔
”مسئلہ صرف ملی نغموں کے پڑھنے کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ لگائے گئے میوزک کا ہوتا ہے۔ اگر ملی نغمے میوزک کے بغیر ہوں اور ان کے الفاظ بھی مناسب ہوں تو انہیں ترنم سے یا ویسے ہی تحت اللفظ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ ہاں! اگر ملی نغموں کے ساتھ میوزک لگا ہو تو پھر ان کا سننا جائز نہیں ہے۔”
”کیا قرآن و سنت میں ملی نغموں اور شاعری وغیرہ کی کوئی مثال ملتی ہے؟””حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ خاتم النبیین ﷺ کے درباری شاعر اور شاعر اسلام تھے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ "تم شاعری کیوں کرتے ہو؟ شاعری نہ کیا کرو بلکہ صرف قرآن مجید پڑھا کرو۔” بلکہ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ "حسان! اٹھو اور دشمنوں کو میری ہجو (یعنی برائیوں) کا جواب دو۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بہت اچھی اسلامی شاعری کرتے تھے۔” ابو جان نے تسلی سے سمجھایا۔
"ہمارا پیارا وطن ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانے کے لیے نہیں بلکہ کلمہ توحید کی سربلندی کے لیے بنا تھا۔پاکستان کا مطلب کیا؟ لا إله إلا الله ۔صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔” امی جان نے مسکراتے ہوئے توجہ دلائی۔
"ملک و ملت سے محبّت کا مطلب ہے کہ ہم قانون اور عدلیہ کا احترام کریں، باہمی پیار و محبّت اور اخوت و مساوات کو فروغ دیں۔
وطن کو اپنی شناخت سمجھنے کے بجائے خود کو وطن کی شناخت کا باعث سمجھیں اور کبھی ایسا کوئی کام نہ کریں جس کی وجہ سے مُلک کی بدنامی ہو یا اس کی عزت پر کوئی حرف آئے۔” ابو جان نے سمجھایا۔
طلباء ہونے کی حیثیت سے ہم صحیح طریقے سے اپنی پڑھائی کریں، اپنے اندر مختلف ہنر اور مہارتیں (skills) پیدا کریں۔ اپنی سوچ و عمل مثبت رکھیں۔کیونکہ وطن سے محبّت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم سب اپنی اپنی ذمّے داریاں پوری ایمان داری سے نبھائیں۔ یہ نہ سوچیں کہ وطن نے ہمیں کیا دیا ہے؟بلکہ یہ سوچیں کہ ہم نے وطن کو کیا دیا ہے؟”امی جان نے بڑے جذبے سے کہا
"کیوں بچو! سب باتیں اچھی طرح سمجھ آگئی ہیں؟” امی جان نے پوچھا۔”جی ہاں۔” بچے اکٹھے بول پڑے۔ ساجد کی آواز سب سے اونچی تھی۔ ابو جان مسکرا دیے۔”ع یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے
ہم نے اس کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے اور اپنے وطن کو عظیم تر بنانا ہے۔””ان شاءاللہ۔” بچوں نے پھر باآواز بلند کہا۔
"اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ملک وملت کے لیے بہترین خدمات سر انجام دینے والا بنا دیں اور ہمیں وطن عزیز پاکستان کا نام روشن کرنے والوں میں شامل فرمالیں۔” ابو جان نے حسرت دل سے دعا کی۔”آمین ثم آمین یا رب العالمین!” سب کی آمین ان کے دل کا قرار بن گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔