کھجور کے جھنڈ اور صحرا

میں فقط خاک ہوں

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر شائستہ جبیں
[email protected]

اتنے دن گزر گئے، شہر کے لوگ شہر سے باہر نکل نکل کر آپ کی راہ تکتے ہیں، کتنے خوش نصیب ہیں جو ایک دوسرے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، ہر روز آپ کی امید کے روشن چراغ لے کر رستہ تکتے ہیں، باہم جوش و جذبے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن جب افق کی سفیدی، سیاہی میں بدلنا شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو اگلے دن کی خوش آئند آس دلاتے واپس لوٹتے ہیں۔

مجھے تو اللہ تعالیٰ نے انسان نہیں بنایا جو زبان سے اپنی تڑپ سے کسی کو آگاہ کر سکوں، بتا سکوں کہ کیسے آپ کی کچھ فاصلے پر موجودگی کی خبر نے مجھے بے کل کیا ہوا ہے اور میں اُڑ کر آپ کے نعلین مبارک کے ساتھ لپٹنے کے لیے بے قرار ہوں، کیسے اظہار کروں کہ اب انتظار کی تاب نہیں رہی، محبوب چند قدموں کے فاصلے پر موجود ہو تو محب کے دل پر جو گزرتی ہے، اسے الفاظ کا پیراہن پہنانا ناممکن ہے، کاش کہ مجھے پر لگ جائیں اور میں اُڑ کر آپ کے قدموں میں بِچھ بِچھ جاؤں، کیونکہ میں تو خاک ہوں اور میرا اعزاز آپ کے قدموں میں بچھنا ہی ہے۔

یہ جو بگولے اُڑتے نظر آ رہے ہیں، یہ میری تڑپ ہی تو ہے تو مجھے زمین پر ٹکنے نہیں دے رہی، یہ میرا عالمِ شوق ہی تو ہے جو مجھے ماہی بے آب کی مانند تڑپا رہا ہے۔ اے حبیب! آپ کب مدینہ کی خاک پر قدم رنجہ فرمائیں گے، کب مجھے معتبر کریں گے، میں جو سالوں سے آپ کی تشریف آوری کی بشارتیں سنتی آتشِ دید کے ہاتھوں جھلس رہی ہوں، کب آپ میرے سینے پر مقدس پاؤں رکھ کر اس دہکتی آگ پر حوضِ کوثر کے چھینٹے ڈالیں گے؟

میرے حبیب! یثرب جو آپ کی آمد سے مدینہ ہوا، طیب ہوا، اس کے باشندگان، ہوائیں، فضائیں، مجھ نمانی خاک سمیت قدم بوسی کی منتظر ہیں۔ جب سے قبا میں آپ کی تشریف آوری کی خبر ملی ہے، سالوں سے جاری دید کی تڑپ دوچند ہو گئی ہے۔ وہ کون سا دن ہو گا، جب مجھے روندتے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو آپ کی آمد کا مژدہ جانفزا سنائیں گے۔

اور کیا اس وقت خاک بنے رہنا میرے لیے ممکن ہوگا؟ میں کیسے سراپا اقدس کے بوسے لینے کو خود کو اچھلنے سے باز رکھوں گی؟ کیسے بے قابو دھڑکنوں کو قابو کر کے گستاخی سے باز رکھوں گی؟ یا حبیب اللہ! میں فقط خاک ہوں، مجھے قدموں سے لپٹنے کی اجازت عطا فرما دیجئے گا للہّ۔ میرا ذرہ ذرہ جو کان بنا آپ کی آمد کی خبر کا منتظر ہے، اے حبیب اللہ! میرے ہر اس ذرے کی قسمت میں قدم بوسی کا شرف لکھ دیجیے گا۔

آج بے چینی حد سے سوا ہے، بچیاں، خواتین چھتوں پر اور مرد حسبِ معمول شہر سے نکل کر دیدہ و دل فرش راہ کیے ہیں، اور مجھے لگ رہا ہے آج بھی تشریف آوری نہ ہوئی تو یہ خاک طوفان بن کر اڑتی کہیں پیاس بجھانے کو خود ہی نہ پہنچ جائے۔ رکو لوگو! سنو لوگو! میرا ذرہ ذرہ قرار پا گیا، وہ لمحہ آ گیا جو مجھ خاک کو ہمیشہ کے لئے معتبر کرنے والا ہے۔ وہ لمحہ کہ تاقیامت میرے خاک ہونے پر دنیا خاک ہونے کی آرزو کرے گی۔

آہ میرے حبیب! آپ تو ناقہ پر تشریف فرما ہیں، آہ میرے رسول! یہ خاک اڑنے کی گستاخی کرے بھی تو کیسے؟ اس نے تو مارے محبت و ادب کے سانس تک روک لیا ہے، آپ سے لپٹے بھی تو کیسے کہ نظر اٹھانے کی تاب تک نہیں، بس نگاہ نعلین مبارک کے بوسے لے لے کر خود کو سیراب کر رہی ہے۔ یہ ناقہ کہاں ٹھہرے گی یا حبیب اللہ! کہاں اس خاک کو معتبر ہونا نصیب ہو گا؟ میری دھڑکنیں قابو میں نہیں ہیں، آپ کی ناقہ کو ٹھہرتے اور آپ کے مبارک قدمین کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کے میں کیسے خود کو سنبھالوں؟

سبحان اللہ میری قسمت، میرا مقدر کہ بالآخر میں نے نعلین مبارک کو چھونے کا شرف پا لیا، دل کی بے قابو دھڑکنیں تھم گئیں، کائنات ساکن ہو گئی، سب کچھ معدوم ہو گیا، رہا تو صرف یہ احساس کہ میں خاک تھی، خاک ہو گئی، اپنے حبیب کے قدموں سے مقدس ہو گئی۔ سالوں سے فراق میں جلتی بلتی روح شانت ہو گئی۔ یقین آگیا کہ مجھے ہی یہ فخر عطا ہوا ہے کہ آپ کے چلنے کو فرش بنوں، جدھر جدھر کو آپ روانہ ہوں، راستے میں بچھ بچھ جاؤں۔

کسے معلوم تھا کہ یہ خاک بھی اس قدر خوش نصیب ہو گی کہ ہر وقت حبیب کے قدموں کے بوسے لے گی؟ کون جانتا تھا کہ اس خاک کی قسمت میں ازل سے یہ اعزاز لکھا گیا ہے کہ آپ کے قدموں کو لپٹنا ہے، اس کے ہر ذرے کو شفا بننا ہے، خام سے کندن ہونا ہے، کسے معلوم تھا کہ یہ خاک وہ فرش بنے گی، جس پر آقا کے مبارک قدم پڑ کر اسے سرمہ چشم بنا دیں گے،

کون جان سکتا تھا کہ اس خاک کو اوڑھ کر وجہ دوجہان تاقیامت اس خاک کو بھی امر کر دیں گے۔ وہ خاک جو صرف قدموں سے لپٹنے کو بے قرار تھی، اس کی بے قراری کا اتنا عظیم انعام عطا فرمائیں گے کہ دونوں زندگیوں میں اسے کائنات کا سب سے بلند نصیب حصہ بنا دیا جائے گا، آخر کو آپ کے رحمتہ اللعالمین ہونے کا یہی تقاضا تھا، مجھ خاک نے اپنی حیثیت کے مطابق درخواست کی اور آپ نے اپنی شان کریمی کے مطابق عطا فرمانا تھا۔

میرے حبیب! مجھے اپنے نصیب کی خوش بختی پر یقین آ گیا، جب میں نے قدم مبارک کو چھو لیا۔ مجھے اپنی بلند بختی پر ناز ہوا جب مجھے تمام حیات طیبہ اپنے قدموں کا فرش بننا مقدر ہوا۔ میرے آقا! کیا میرے لیے انعامات کی کوئی حد رہ گئی، خواہشات کا کوئی معاملہ باقی رہ گیا، جب آپ نے ابدی آرام کے لیے بھی میرا انتخاب کیا۔ میں اب سکون میں ہوں آقا، راحتوں اور سرفرازیت کے بلند درجات پر ہوں کہ آپ میرے پاس ہیں۔

آقا میں تو فقط خاک تھی، آپ نے مجھے عرش بنا دیا میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “میں فقط خاک ہوں” جوابات

  1. حفظہ علی Avatar
    حفظہ علی

    بہت ہی عمدہ تحریر ۔۔ لفظ ختم ہیں۔۔بس جذبات ہیں۔۔۔۔

    1. ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر (مقبوضہ کشمیر) Avatar
      ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر (مقبوضہ کشمیر)

      عمدہ عکاسی… اللہ کرے حسن قلم اور زیادہ

      1. ڈاکٹر شائستہ جبیں Avatar
        ڈاکٹر شائستہ جبیں

        بہت شکریہ سر ،مقبوضہ کشمیر اور اہلِ کشمیر سے ہمارا جو خلوص اور خیر خواہی کا رشتہ ہے،اس کے تناظر میں آپ کا تبصرہ میرے لیے بہت اعزاز کا باعث ہے۔ڈھیروں دعائیں اور نیک تمنائیں

  2. شیباء عرفان Avatar
    شیباء عرفان

    بہت عمدہ!جذبات کی عکاسی روح کو منور کرنے کا وسیلہ بن رہی ہے۔اے خاکِ مدینہ سلام ہو تیری سرفرازی پر۔