حضرت عثمان رضی اللہ عنہ

شہادتِ مظلوم مدینہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

18 ذوالحجہ اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے۔ اس دن انہیں نہایت دردناک طریقے سے شہید کیا گیا تھا۔ شہادتوں کے باب میں آپ کی شہادت نہایت تابناک اور نمایاں حثیت کی حامل ہے۔ آپ کی اعلیٰ سیرت و کردار، فضائل اور پھر مظلومانہ شہادت کے بارے میں جاننا مسلمانوں کے لیے (خصوصاً عصر حاضر میں) ضروری ہے۔


وہ ہمارے لیے کیسی روشن مثال اور رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی پاکیزہ بے داغ جوانی اور پھر بڑھاپا اسلام کی بھرپور خدمت کے لیے استعمال ہوا! جنہوں نے سعادت کی زندگی گزاری اور شہادت کی موت سے سرفراز ہوئے!


آپ کی شہادت کے بارے میں جان کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔نہایت عظیم الشان صحابی، کمال درجے کے اعلیٰ خلیفہ، اللہ کے دین کی خاطر دولت قربان کردینے والے، ہر موقع اور ہر جگہ پر اسلام کو قوت مہیا کرنے والے۔لیکن ان کی موت اتنی بےبسی والی!!!ان کی اتنی مظلومانہ شہادت!!!


صرف اللہ کی رضا کی خاطر، رسول کی زبان نبوت سے سنی گئی بشارت کی خاطر وہ شہید ہو گئے۔ آپ کی سیرت و کردار مسلمانوں کے لیے تا ابد مشعلِ راہ اور مینارہ نور ہے!!!


آپ کا مکمل نام ابو عبداللہ عثمان بن عفان ہے اور آپ اموی قریشی تھے۔ آپ کا عرصہ حیات 47 ق ھ- 35 ھ/576ء–656ء تھا۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ اور لقب "غنی” اور  "ذوالنورین” تھا۔ آپ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص اور والدہ کا نام اروی بنت کریز تھا۔ آپ کے والد ایک کامیاب تاجر تھے۔ 
حضرت عثمان نے بھی یہی پیشہ اختیار کیا اور اپنے والد کے انتقال کے بعد بین الاقوامی سطح پر بہترین تجارت کرتے رہے۔


آپ سابقون الاولون میں شمار ہوتے تھے اور اسلام قبول کرنے والے چوتھے خوش نصیب مسلمان تھے اور صحابہ کرام میں درخشاں ستارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ ان خوش قسمت لوگوں میں شمار ہوتے تھے جنہیں اپنی زندگی میں زبان نبوت سے عشرہ مبشرہ کی خوش خبری کے علاوہ شہادت کی موت کی بشارت بھی ملی تھی۔ 


حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے دوہرے داماد تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دو بیٹیوں کا یکے بعد دیگرے ان سے نکاح کیا تھا۔ پہلے اپنی بیٹی رقیہ کا نکاح آپ سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد نبی مہربان ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم ان کے نکاح میں دے دیں۔ اسی بنا پر آپ نے "ذوالنورین” (دو نوروں والے) کا لقب پایا۔


آپ نے اپنی زندگی میں دو ہجرتیں کیں۔ آپ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ بعد میں مدینہ منورہ کی طرف دوسری ہجرت بھی کی۔


آپ جودو سخا کے پیکر تھے لیکن دولت و ثروت سے اتنے بے رغبت تھے کہ آپ نے اپنے مال و دولت کا کثیر حصہ اسلام کے لیے وقف کردیا تھا۔ آپ راہ خدا میں خرچ کرتے تھے تو اتنی دریا دلی سے  خرچ کرتے تھے جیسے ان کو فقر و فاقہ کا ڈر ہی نہ ہوتا تھا۔ 


آپ نے تمام غزوات میں اسلامی لشکر کی تیاری کے لیے نبی کریم ﷺ کی ترغیب پر حسب توفیق زیادہ سے زیادہ مال و دولت خرچ کیا اور اپنی آخرت کے لیے زاد راہ تیار کیا۔ اسی وجہ سے آپ کو زبان نبوت سے "غنی” کا لقب عطا ہوا تھا۔


وہ شرم وحیاء کے پیکر اور غیرت و حمیت کے علمبردار تھے۔ ان کی حیا کا یہ عالم تھا کہ آسمان کے فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔


انہوں نے اپنے دور خلافت میں مسلمانوں کے مفاد عامہ کے لیے کئی نئی اقدامات کیے اور  اصطلاحات نافذ کیں۔1. آپ نے مسلمانوں کو ایک قرات پر اکٹھا کیا۔ اس لیے وہ "جامع القرآن” اور ناشر القرآن” بھی تھے۔2. آپ پہلے خلیفہ تھے جنہوں نے بحری جنگ کے لیے جنگی بیڑا تیار کیا۔3. آپ نے بیت المال کی تنظیم نو کی اور اس کا نظام بہتر کیا4. حجاز میں نہروں کا جال بچھا دیا جس سے پانی کی فراہمی میں آسانی ہوگئی۔5. سرکاری عمارتوں اور دفاتر کی تعمیر کے کام کا آغاز کیا۔6. نئے راستوں، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کروائی۔7. مدینہ منورہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک بند ( ڈیم ) کی تعمیر کروائی۔8. حسبِ ضرورت کنویں کھدوائے۔9. نئے سکوں کا اجرا کیا۔10.وقف عام کے قیام کی ابتدا کی۔
آپ نے خلافت کی ذمہ داریاں 644ء سے 656ء بارہ سال تک بہترین طریقے سے سر انجام دیں۔


آپ کی خلافت کے آخری حصے میں چند مسائل کی وجہ سے باغیوں نے سر اٹھایا اور مختلف شورشیں برپا کیں، مصائب و مشکلات کا طوفان کھڑا کیا جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس روز تک سخت تکالیف اور پریشانیاں اٹھانے کے بعد بالآخر آپ خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے۔


خلیفہ ثالث کو چالیس روز تک گھر میں بند کردیا گیا۔ آپ پر قید تنہائی مسلط کر دی گئی۔ صرف آپ کی ایک اہلیہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ موجود تھیں۔گھر میں کھانے پینے کا راشن ختم ہوگیا، وہ دانے دانے کے محتاج ہو گئے اور نوبت فاقوں تک آ گئی۔ پیاس کی شدت سے پانی کی ایک ایک بوند کو ترس گئے۔ 


حضرت عثمان غنی نے 18 ذی الحجہ 35ھ بروز جمعہ کو بیاسی سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں روزہ کی حالت میں مظلومانہ شہادت پائی جب باغیوں نے انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران شہید کردیا۔


باغیوں کے ظلم و تشدد کے دوران ان کی داڑھی کھینچی گئی، ہاتھ شہید کر دیا گیا، جسم اطہر پر برچھی مار کر آپ کو لہولہان کردیا گیا، سر مبارک پر لوہے کا آہنی ہتھیار مارا گیا، آپ زمین پر گر پڑے تو آپ کو ٹھوکریں ماری گئیں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ باغیوں نے انتہائی وحشیانہ طریقے سے بربریت کے ریکارڈ توڑتے ہوئے ظلم و تشدد کرکے آپ کو شہید کردیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔


عام طور پر آپ کی تاریخ شہادت 18 ذی الحجہ بیان کی جاتی ہے مگرثقہ تابعی ابو عثمان بن مل رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایام تشریق میں شہید کیا گیا۔(الطبقات الكبرى لابن سعد : 58/3 ، إسناده صحيح) 


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قریش کی انتہائی ہر دلعزیز شخصیت تھے، حتی کہ اگر کوئی خاتون اپنے خاوند سے محبت کا اظہار کرنا چاہتی تو کہتی: ”اللہ کی قسم! میں آپ سے اتنی محبت کرتی ہوں جتنی قریش کے لوگ عثمان سے کرتے ہیں!“(موسوعة التاريخ الإسلامي : 618/1)


جلیل القدر تابعی ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ نے ایک موقع پر اہلِ مدینہ کے وفد کے بارے میں کہا کہ :”یہ لوگ قوم ثمود سے بھی بدتر ہیں، انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں، مگر انہوں نے تو اپنے خلیفہ کو شہید کر ڈالا!“(تاريخ المدينة لابن شیبة : 1252/4 ، إسناده صحيح)


جب آپ کو شہید کیا گیا تو آپ کے خون کے چھینٹے قرآن مجید پر پڑے اور وہ بھی آپ کی شہادت کا گواہ بن گیا۔ آپ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ 

 راہ خدا میں مال و زر لٹوا دیا عثمان نے 

جودوسخا کیا چیز ہے، سمجھا دیا عثمان نے 

ہوئے غنی کیسے فدا ؟ پوچھا کسی نے جو کبھی 

محو تلاوت تھے غنی، بتلا دیا قرآن نے

(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں