پچھلے دنوں ایک خبر نظر سے گزری تو اس سے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا ۔ خبر کچھ یوں ہے :
ڈائریکٹر جنرل( ڈی جی) رینجرز سندھ میجر جنرل افتخار حسن چوہدری نے شرمین عبید چنائے کی فلم اور آسکر ایوارڈ پر تبصرہ کیا ہے” کہ ملک میں تیزاب پھینکنے کے 3 واقعات سامنے آئے تو اس پر شرمین عبید چنائے والی فلم بن گئی اور اسے آسکر بھی مل گیا۔” یہ بھی کہا کہ لندن میں 800 سے زیادہ تیزاب پھینکنے کے واقعات ہوئے کہیں کوئی فلم نہ بنی، میڈیا بھی غائب رہا۔
اس سے متعلق واقعہ یہ ہے کہ
مجھے ٹورا نٹو ڈسٹرکٹ بورڈ کا ایک ٹیچنگ کورس لینے کا اتفاق ہوا۔ 2012
تقریباً پچاس سٹوڈنٹس کی کلاس میں بہت سے ملکوں کے طلبا تھے ۔ دو تین ہندو بھی تھے۔ میں واحد پاکستانی اور مسلمان تھی۔ کلاس میں اکثر گفتگو یعنی کراس کلچرل ٹاک کے لیے موضوعات دئیے جاتے تاکہ بحیثیت استاد مختلف مذاہب ، ثقافت، اور نسل کے طلبا کے ذہنوں کو سمجھ کر پڑھایا جائے۔
میں نے محسوس کیا کہ ایک ہندو عورت بالخصوص مجھے ہدف بنا کر بحث یا تنقیدی سوالات کا رخ میری جانب موڑتی ہے مثلا عورتوں کا پردہ ، ارینج میرج یا سعودی عورت کے حقوق کی پامالی ( جس کی اہل یوروپ کو ہمیشہ سے بڑی فکر تھی ) اور اللہ کے فضل سے ہر معاملے میں اسے میرے مدلل جواب سے مایوسی ہوتی۔
ساری کلاس دوستانہ طریقے سے ٹیبل شیئر کرتی اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھتے لیکن میں نے کبھی اس کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کیا ۔ حالانکہ تعلیم اور شعور کے اس لیول پر نسلی تعصب تقریباً ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہاں ہندو مسلم سے زیادہ پاکستان اور انڈین کی خار تھی جسے میں نے محسوس کر لیا تھا ۔ ایک رسمی مسکراہٹ اور ہیلو ہائے تو ہوتی لیکن قربت اور گفتگو کا کوئی سلسلہ نہیں تھا ۔
ایک دن وہ بہت چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ بتیسی نکالے ہماری ٹیبل پر آئی اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگی ” مبارک ہو”
میں نے منہ کھول کر اسے دیکھا کہ کس بات کی مبارک ؟ اس نے ٹیبل پر بیٹھے سب لوگوں کی طرف منہ کرکے کہا کہ پاکستان کی ایک عورت نے ڈاکو مینٹری بنائی جسے رات آسکر دیا گیا ہے۔ سب نے بیک زبان پوچھا کہ کس موضوع پر ؟ تو اس نے بڑی خوشی سے ان کی معلومات میں اضافہ کیا کہ پاکستان میں مرد عورتوں کے چہرے تیزاب سے جلا دیتے ہیں تو یہ ان عورتوں کے بارے میں تھی۔
میں سمجھ گئی کہ یہ مبارک کے پردے میں میرے ملک کو اور مجھے ذلیل کرنے آئی ہے۔ جس طرح اس کی پر مسرت آنکھیں میرے چہرے کو پڑھ رہی تھیں وہ ناقابل فراموش ہے۔ اپنے ملک کی عزت اپنی عزت سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے ، اس کا احساس غیروں کے درمیان رہ کر ہوتا ہے۔
اگر شرمین چنائے کی جگہ عبدالستار ایدھی کو وہ ایوارڈ ملا ہوتا تو وہ کبھی بھی مجھے مبارک باد پیش نہ کرتی۔ اس سے پہلے میرے سمیت شاید ہی کوئی “شرمین” نام کی عورت کو جانتا ہو لیکن اس آسکر سے اس عورت کو پہچان مل گئی ۔ اگرچہ اس کی شہرت کی قیمت میرے ملک کا مسخ چہرہ لوگوں کو دکھانے پر ہے ۔
اس ہندو عورت کی خوشی اور میری شرمندگی سے آپ اس ایوارڈ کی حقیقی ویلیو کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں ملکی دفاع کے لئے دلائل دیتی ، ٹیبل پر بیٹھے لوگ دوسری فلموں پر تبصرہ کرنے لگے اور ایک گوری خاتون نے میرے سکارف اور اسلامی لباس کو دیکھ کر مجھے ایرانی فلم
A Separation
دیکھنے پر اصرار کیا جسے اسی رات آسکر ملا تھا اور جو ایران کے لوگوں کے لئے باعثِ خوشی ہوگا نا کہ وجہ شرمندگی۔
بہت عرصہ پہلے میری نظر سے ایک اخبار گزرا جس میں ٹورا نٹو رائٹرز کے لئے ایوارڈ کی کوئی تقریب کی خبر تھی۔ میری نظر ایک مسلم نام پر ٹھر گئی ۔ پتا چلا کہ اس نے ہم جنس پرستی پر ناول لکھا ہے اس لئے اسے ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اب تو یہ طے ہے کہ کوئی بھی اٹھ کر بغیر علم اور ادب کو سمجھے اسلام کے منافی موضوعات بالخصوص
LGBTQ
یا ہم جنس پرستی پر کچھ بھی لکھ دے اسے ایوارڈ مل جائے گا ۔ ایوارڈ نہیں تو شہرت ضرور ملے گی یوروپ ایسے مسلمانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے جو مذہب کا سودا کرنے اور اسلامی ملک میں مروجہ قوانین میں کیڑے نکالنے کو تیار ہوں۔ اس کے لئے آپ کا ضمیر فروش ہونا ضروری ہے ۔