ڈاکٹر خولہ علوی
پہلے یہ پڑھیے
وقوف عرفہ (حج 2014ء کی یادداشتیں – پہلا حصہ )
ہماری بس حدود عرفات میں کافی دیر سے داخل ہو چکی تھی لیکن ہمارا مکتب اور خیمہ ابھی نہیں ملا تھا۔ بس سفر کرتی رہی، کرتی رہی اور مسافر منزل پر پہنچنے کے منتظر رہے۔
“میں نے خیمہ دیکھ لیا ہے۔”اچانک معلم کا نمائندہ پکار اٹھا۔
“منزل قریب آ گئی ہے۔”سب کے ساتھ میں نے بھی دلی خوشی محسوس کی۔ بس میں تلبیہ پڑھنے کی لہر تیز ہو گئی۔
لیکن شدید بھیڑ کی وجہ سے ٹریفک پولیس نے آج سب راستے “ون وے” کیے ہوئے تھے۔ “ہماری بس کو آگے سے ٹرن لے کر واپس آنا پڑے گا۔” ڈرائیور نے با آواز بلند بتایا۔
ہماری بس میدان عرفات کے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی اور ہم وادی عرفات کے دلفریب مناظر کو نگاہوں اور دلوں میں بسائے لبوں پر تلبیہ جاری کیے بڑے شوق سے سب کچھ دیکھتے اپنی منزل مقصود کے منتظر تھے۔ وادی عرفات خیموں اور کیمپوں کی وادی لگ رہی تھی۔
گرمی بے تحاشا تھی اور ایئر کنڈیشنڈ بس میں بھی ( کیونکہ اے سی کی کولنگ کم تھی ) پسینہ آرہا تھا۔ سر پر چمکتے دمکتے سورج کی تپش کی وجہ سے گرمی محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔
“بڑی پیاس لگ رہی ہے۔ پانی کی بوتل میرے پاس موجود ہے لیکن اس میں پانی گرم ہو چکا ہے ٹھنڈا پانی پینے کے لیے دل کر رہا ہے۔”مسز ثناء نے مجھ سے کہا۔
“مجھے بھی کافی پیاس محسوس ہو رہی ہے۔”میں نے کہا۔
ایک جگہ ایک پک اپ گاڑی ضیوف الرحمان ( حاجیوں ) میں پانی کی چھوٹی بوتلیں تقسیم کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے ۔ آمین۔ ہماری بس میں بھی سب حاجیوں کو پانی کی بوتلیں تقسیم کی گئی تھیں۔ ٹھنڈا پانی پی کر بے ساختہ اس عظیم نعمت کے لیے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا اور دینے والوں کے لیے دعا کی۔
آج اسلام کے حلقہ بگوش وادی عرفات کی طرف رواں دواں تھے۔ کوئی پیدل ، کوئی بسوں میں سوار ، کوئی ٹرین کے ذریعے تو کوئی موٹر سائیکل پر سوار، جب اپنی منزل کی طرف خراماں خراماں چلے جا رہے تھے۔
آج ہم مسلمان اس طرح کے نہیں ہیں جیسے چودہ صدیاں پیشتر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں تھے۔ لیکن مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ ان کی لگن، ان کی محبت اور ان کا عشق ہمیشہ اپنے عروج پر رہا ہے اور تاقیامت ان شاءاللہ رہے گا۔ بیت اللہ کی جاذبیت اور اس کی زیارت کا شوق ہر سچے مسلمان کے دل میں ہمیشہ موجزن رہتا ہے اور رہے گا۔ ان شاءاللہ۔
کبھی حاجی جانوروں پر سفر کرکے سال بھر میں حجاز پہنچتے تھے، پھر بحری جہازوں پر چھ سات ماہ سفر کرکے حجاز جاتے تھے، پھر یہ سفر ہفتہ دس دن تک مختصر ہو گیا۔
آج پانچ چھ گھنٹوں میں ہوائی جہاز کا سفر کرکے حاجی بیت اللہ پہنچتے ہیں اور اپنے سود و زیاں کی پرواہ کیے بغیر صرف رضائے الٰہی کے طالب ہوتے ہیں۔
غرض حج و عمرہ کے لیے آنے والے شیدائیوں کا سلسلہ نہ کبھی رکا ہے اور نہ ہی تا ابد تھمے گا۔ ان شاءاللہ۔
ہم میدان عرفات کے ساتھ ساتھ بس میں سفر کرتے یہاں تک کہ میدان کے اندر داخل ہو گئے۔ کچھ دیر تک رکنے اور پھر چلنے کے بعد ڈرائیور نے مناسب جگہ دیکھ کر بس روک دی اور سب لوگ نیچے اتر آئے۔
اب میدان کے اندر بڑے خیموں اور کیمپوں کی بستی میں ہمیں اپنے کیمپ اور اس کے اندر اپنے خیمے کی تلاش تھی جس کے باہر “العقیق ٹریولز اینڈ ٹورز” کا بینر لگا ہوا تھا۔ مرد آگے آگے آگے اپنا خیمہ ڈھونڈ رہے تھے اور خواتین قدم بقدم ان کے پیچھے پیچھے تھیں۔ عرفات کے کیمپ اور خیمے منی کے خیموں اور کیمپوں سے مختلف تھے۔ بس ترتیب سے بڑے بڑے ٹینٹ دونوں طرف لگائے ہوئے تھے اور درمیان میں چلنے کا راستہ چھوڑا ہوا تھا۔ کہنے کو یہ میدان تھا لیکن میدان کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔ یہ کھلے کھلے کیمپوں بلکہ قناتوں کی بستی تھی۔
ہم مردوں کی پیروی میں خیمہ بہ خیمہ اور کیمپ بہ کیمپ جھانکتے رہے لیکن اپنا خیمہ ہمیں نہ ملنا تھا، نہ ملا۔ ہمارے عارضی راہبر کارواں یعنی معلم کے نمائندے کبھی دوسروں سے پوچھتے رہے، کبھی خود خیموں میں جھانک کر دیکھتے رہے، کبھی موبائل پر امیر قافلہ حافظ عتیق صاحب سے رابطہ کرکے پتہ چلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ سعی لاحاصل رہی
سب کیمپ ایک جیسے دکھائی دے رہے تھے لیکن ان کے باہر مختلف بینرز لگے ہوئے تھے۔ طواف ٹریولز، طوبیٰ ٹریولز، خدام الحرمین، اسطوانہ ٹریولز، کاروان حرمین ، مکہ ٹریولز وغیرہ کے نام بینروں پر لکھے دکھائی دے رہے تھے اور ہم لوگ ان میں اپنے خیمے کا نام “العتیق ٹریولز” ڈھونڈنے میں سرگرداں پھر رہے تھے۔ لبوں پر تلبیہ جاری تھا لیکن گرمی اور پسینے سے برا حال ہوگیا تھا۔ تمازت آفتاب لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔
مرد حضرات نے خواتین کو ایک جگہ کھڑا کیا اور خود خیمہ ڈھونڈنے چلے گئے۔ خواتین نے کچھ دیر کھڑے کھڑے انتظار کیا، پھر تھک ہار کر نیم کے درختوں کے سائے تلے زمین پر جہاں جگہ ملی، اپنے گاؤن سمیٹ کر بیٹھ گئیں۔ سب اپنے خیمے میں پہنچنے کی شدت سے منتظر تھیں۔ وقتاً فوقتاً تلبیہ پڑھنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ سب جانتی تھیں کہ یہ عظیم اور برکتوں والا دن بڑا قیمتی ہے۔ اور کیا معلوم کہ کبھی زندگی میں یہ دن ہمیں دوبارہ نصیب ہو یا نہ ہو۔
قدم قدم پر مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ مردوں کے شانہ بشانہ سارے مناسکِ حج ادا کرتی خواتین کے لئے یہ جہاد ہے۔ نبی آخر الزماں ﷺ نے آخر انہی وجوہات اور مشکلات کی وجہ سے عورتوں کے حج کو “جہاد” قرار دیا ہے۔ گھروں میں رہنے والی اور گھریلو ذمہ داریوں میں مشغول خواتین کے لیے حج “جہاد” کا ہی دوسرا نام ہے۔
ہر شخص کے قلب و نظر میں یہی تصور پختہ ہوتا ہے کہ اس مقدس سفر میں جتنی مشکلات اور تکلیفیں پیش آئیں، اور ان کو صبر و تحمل سے برداشت کیا تو اتنا ہی ثواب زیادہ ہوگا بہت سے سچے مسلمان تو سفر حج میں کسی تکلیف کا تذکرہ کرنا بھی گناہ تصور کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا جوش ایمانی ہے کہ وہ تکالیف کے ہجوم میں بھی ان مسائل کو اجر و ثواب کے حصول کا باعث سمجھتے ہیں۔تو ہمارا گروپ اپنے خیمے کی تلاش میں سرگرداں تھا لیکن پریشان یا بے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ الحمد للّٰہ۔ اللہ تعالی شاید ہمیں آزما رہے تھے کہ میرے بندے اب کیا کرتے ہیں؟
لیکن ہمارے ساتھ دو بے حد ضعیف خواتین بھی تھیں جو مستقل وہیل چیئر استعمال کرتے تھیں۔ ان دونوں بزرگ خواتین کی بہوؤیں بھی ان کے ساتھ موجود تھیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ آج کی شدید گرمی برداشت کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا ہے، کل حشر کی گرمی کا کیا حال ہوگا؟
اللہ تعالی روز حشر اپنے عرش کا سایہ نصیب کر دے تو پھر ہی بیڑا پار ہو گا۔ ان شاءاللہ۔
مرد کافی دیر کے بعد ناکام واپس پلٹ آئے۔ دھوپ کی شدت ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔ مردوں نے ایک قریبی خیمے کا جائزہ لیا اور خواتین سے کہا کہ “وہ اس کے اندر چلی جائیں۔ جب امیر قافلہ حافظ عتیق صاحب آجائیں گے تو ہم اپنا خیمہ ڈھونڈ کر اس میں چلے جائیں گے۔”
چنانچہ ہم سب خواتین خیمے کے اندر داخل ہو گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیع و عریض خیمے کے اندر کچی زمین پر سرخ قالین بچھے ہوئے تھے۔ زمین ناہموار تھی اور کہیں سے اونچی اور کہیں سے نیچے تھی۔ درمیان میں کہیں کہیں نیم کے تناور درخت اپنی گھنی چھاؤں پھیلا رہے تھے۔
میں نے خیمے کا جائزہ لیا۔ آج نیچے فرش پر قالین بچھے ہوئے ہیں، شامیانوں کی چار دیواری بھی ہے۔ اور قناتوں کی چھت بھی جو ہمیں سورج کی گرمی سے بچا رہی تھی ۔خیمے میں کئی جگہ ایئر کولر لگے ہوئے تھے جو گرمی کی شدت کو کم کر رہے تھے۔ الحمدللہ
میرا ذہن مجھے کلک کر رہا تھا کہ نبی اکرم ﷺ کے حجتہ الوداع کے موقع پر عرفات میں جو خیمےلگے تھے، بلاشبہ وہ ہمارے آج کے خیموں اور کیمپوں کی طرح نہیں تھے۔
لیکن ان کی سادگی پر آج کی ساری شان و شوکت قربان!
میری والدہ محترمہ نے 1982 میں اپنا پہلا حج اپنے والد محترم مفسر قرآن مولانا عبدالرحمان کیلانی (مرحوم ) کے ہمراہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنے حج کے تذکرے میں یہ بات ہمیں بتائی تھی کہ
“اس وقت جنرل ضیاء الحق نے پاکستان سے نیم کے چھوٹے چھوٹے پودے بھجوائے تھے۔”
یہ نیم کے پودے اب (2014ء میں ) اپنے جوبن پر تھے۔ ہم بذات خود ان کی گھنی چھاؤں تلے تھوڑی دیر پہلے بیٹھے رہے تھے۔ والدہ محترمہ نے دوسرا حج میرے والد محترم عبدالوکیل علوی (مرحوم ) کے ساتھ 1996 میں کیا تھا۔
“پہلے عرفات میں کتنی مشکل ہوتی تھی۔ سائے کا بندوبست نہیں ہوتا تھا۔ اپنا کھانا خود خریدنا پڑتا تھا اور وہ بھی طویل قطاروں میں لگ کر۔
پینے والے پانی کا بھی مسئلہ ہوتا تھا۔ واش رومز کامسئلہ حد سے زیادہ ہوتا تھا۔ ہر باتھ روم کے سامنے لمبی قطار موجود ہوتی تھی اور قسم قسم کی مشکلات کے ساتھ حج کی ادائیگی ہوتی تھی۔”والدہ محترمہ نے یہ ساری باتیں بھی بتائی تھیں۔
نہ صرف والدہ محترمہ بلکہ سابقہ تمام تمام حاجی اسی قسم کی مشکلات کا تذکرہ کرتے تھے۔ ڈاکٹر محسن صاحب نے بھی اسی طرح کے مسائل کے بارے میں بتا کر میرا ذہن تیار کیا تھا. انہوں نے اپنا پہلا حج 2006ء میں اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ کیا تھا۔
لیکن سننے اور خود ہر بیتنے میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔
“بہر حال حج ہر دور میں مشکل رہا ہے اور حج نام ہی مشقت کا ہے اور عورتوں کا جہاد ہے۔ ” میں نے خود کلامی کرتے ہوئے دل سے محسوس کیا۔
کچھ دیر بعد پہنچنے والی بس میں امیر قافلہ حافظ عتیق صاحب گروپ کے باقی ماندہ افراد کے ساتھ آئے تو سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ان کی رہنمائی میں ہم اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ جو قریب ہی موجود تھا۔
“بڑا تعجب ہے کہ کیمپ تو اتنا قریب تھا۔ پھر بھی ہمیں یہاں پہنچتے میں ناواقفیت کی بناء پر اتنا پریشان ہونا پڑا ۔” میں بے ساختہ بولی۔
“اللہ تعالی بھی انسان سے بے حد قریب ہیں۔ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ، لیکن انسان صراط مستقیم سے بھٹک کر غلط راستے پر چلتے ہوئے کن کن پریشانیوں کا سامنا نہیں کرتا ؟؟” دل نے رہنمائی کی۔
ہمارا کیمپ کافی بڑا تھا۔ ایک طرف مرد بیٹھ گئے اور دوسری طرف خواتین نے اپنی جگہیں سنبھال لیں۔ یہ دراصل مکتب ستاون کا کیمپ تھا جس میں دیگر کئی گروپوں کے لوگ بھی موجود تھے ۔
ہمارے بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد سب کو ایک ایک گفٹ پیک دیا گیا جس میں پانی کی چھوٹی بوتل، کھجوریں اور بسکٹ وغیرہ موجود تھے۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا کیونکہ ہم صبح سے تقریباً خالی پیٹ تھے۔ سخت گرمی میں چل چل کر بھوک اور پیاس لگ رہی تھی۔ خیمے میں کئی جگہ ائیر کولر چل رہے تھے اور سب لوگوں کی خواہش تھی کہ انہیں کسی ائیر کولر کے قریب جگہ ملے۔
اچانک وہ”گمشدہ “خاتون، جس نے ہمیں بس میں پریشان کیے رکھا تھا، ہمارے سامنے والے گروپ میں مجھے دیگر خواتین کے ساتھ بیٹھی ہوئی نظر آئیں۔
میں نے اسے دیکھا اور پھر مسز ثناءالطاف کو متوجہ کیا کہ “دیکھیں بس والی وہ گمشدہ “خاتون ہمارے سامنے بیٹھی ہیں۔
وہ پہلے ہی اسے دیکھ چکی تھی۔
مسز صالحہ عقیل فیروز نے بھی جب اس خاتون کو دیکھا تو مسز ثناء سے پوچھا کہ “کیا وہ اس خاتون کو پہچانتی ہیں؟” وہ جواب میں صرف ہنس پڑیں اور خاموشی پر اکتفا کیا۔
وہ خاتون ہمیں دیکھ کر بھی اجنبی بنی اپنے گروپ کی خواتین کے ہمراہ مصروف رہی اور پھر ہم سے بات تک نہ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اردگرد موجود خواتین مختلف سرگرمیوں میں مصروف تھیں۔
کوئی خاتون تلبیہ ہڑھ رہی تھی، کوئی قرآن مجید کھول کر تلاوت کر رہی تھی۔ کوئی تسبیح پڑھ رہی تھی۔ کسی نے نفل شروع کر رکھے تھے۔ ایک جگہ پر خواتین اجتماعی نماز تسبیح کے لیے دوسری خواتین کو تیار کر رہی تھیں۔ ایک طرف ایک خاتون آج کے دن پڑھنے کے لیے دعائیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی دعاؤں کی فوٹو سٹیٹ کروائی ہوئی کاپیاں تقسیم کر رہی تھیں ۔ کچھ خواتین باتوں میں مصروف تھیں۔ کچھ گفٹ پیک کھول کر کھا پی رہی تھیں ، کچھ لیٹی ہوئی تھیں، کچھ آپس میں بحث و مباحثہ میں مصروف تھیں۔
کیمپ میں ہر طرح کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ کیمپ کا ایک حصہ مسجد دکھائی دے رہا تھا۔ اور دوسرا حصہ میلہ نظر آرہا تھا۔ ایک حصہ ڈائننگ ہال دکھائی دے رہا تھا اور دوسرا حصہ گھر لگ رہا تھا جہاں کھانا پینا، بیٹھنا، لیٹنا، سونا، جاگنا سب کچھ ہوتا نظر آرہا تھا۔
کیمپ بہ یک وقت مسجد، میلہ، کانفرس روم، عوامی جلسہ، ڈائننگ ہال اور گھر کا عمومی نقشہ پیش کرہا تھا۔ تنہائی اور یکسوئی کہیں میسر نہ تھی اور اللہ تعالی کے اس سالانہ انٹرنیشنل جلسے میں کہیں میسر ہو بھی نہیں سکتی تھی۔
حج کا اصل رکن “وقوف عرفہ”دراصل میدان حشر کی مانند ہے۔
آ ج یہاں پینتس لاکھ حاجی جمع ہیں تو روز قیامت دنیا کے اگلے پچھلے سب لوگ موجود ہوں گے۔
آج تو شامیانے لگے ہوئے ہیں، سر پر چھت موجود ہے اور اردگرد قناتوں کی چار دیوادی بھی ہے۔ ائیر کولر بھی گرمی کم کرنے اور ہوا پہچانے کے لیے موجود ہیں۔ لیکن روز محشر تو سورج سوا نیزے پر ہوگا۔ اس وقت چھت ہوگی، نہ چار دیواری، نہ ہی پاؤں کے نیچے قالین بچھے ہوں گے۔
اس دن تو ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں تر بتر ہوگا۔ صرف ایمان اور اعمال صالحہ کی پونجی رکھنے والے قلیل لوگ عرش کے ساۓ تلے ہر قسم کے مصائب سے محفوظ و مامون ہوں گے۔
آج گروپوں کی پہچان کے لیے بینز لگے ہوئے ہیں، راہروان قافلہ موجود ہیں لیکن کل پہچان کے لیے کوئی علامت نہیں ہوگی۔ کوئی راہنما راہنمائی کے لیے موجود نہیں ہوگا ( کیونکہ راہنمائی کا وقت تو صرف دنیا میں تھا )۔
آج پانی، جوس، بسکٹ، کھجوریں وغیرہ جسم کو توانائی فراہم کر چکے ہیں لیکن کل انسان بھوکا پیاسا ہوگا۔
آج ایک دوسرے کے ساتھ گروپ کی شکل میں موجود ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں لیکن کل پہچان کر بھی نہیں پہچانیں گے اور ایک دوسرے سے نظریں چراتے پھریں گے ۔
میرے دل میں اسی طرح کے خیالات آرہے تھے کہ ہمارے گروپ کی خاتون نے مجھے مخاطب کیا کہ “باجی! یہ خواتین پوچھ رہی ہیں کہ کیا آپ انہیں صلاۃ تسبیح پڑھا دیں گی؟”
“پیاری بہنو! صلاۃ تسبیح باجماعت پڑھنا ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی سنت نہیں ہے۔ یہ انفرادی نماز ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں میدان عرفات میں اللہ تعالی نے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع اور قصر مقرر کرکے دعاؤں کے لیے ہمیں وقت دیا ہے۔ اس لیے صلاۃ تسبیح پڑھنے کی بجائے یہاں دعائیں مانگنا پیارے نبی اکرم ﷺ کی سنت اور طریقہ ہے اور ہمارے لیے بھی یہی مناسب ہے۔”میں نے انہیں نرمی سے بتایا۔
خواتین کے چہرے کے تاثرات سے پتہ چل گیا کہ وہ متفق نہیں ہوئیں لیکن میرے انکار کے بعد وہ اٹھ کر چلی گئیں۔ شاید وہ کسی اور کو صلاۃ تسبیح پڑھانے کے لیے آمادہ کر سکیں۔ میں نے اپنے اردگرد نگاہ ڈالی۔
ہنوز کچھ خواتین بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں تو کچھ کھانے پینے میں، جبکہ کچھ لیٹی ہوئی تھیں۔
اکثر خواتین کی کوشش تھی کہ انہیں ائیر کولر کے سامنے جگہ ملے اور اس وجہ سے کہیں کہیں لڑائی یا بحث والے مناظر بھی نظر آرہے تھے۔
آج کے دن کا سب سے افضل ذکر تلبییہ ہے اور خصوصی دعا یہ ہے جو نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو سکھائی ہے۔
لاالہ الا اللہ وحدہ لہ شریک لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئی قدیر۔
لمحے وقت کے تھال میں سے گر رہے تھے۔ اورخطبہ حج کا وقت قریب آرہا تھا۔
آج جمعہ المبارک تھا۔ اکثر لوگ بے حد خوش تھے کہ ہمیں آج “حج اکبر “نصیب ہوا ہے. لیکن نبی آخر الزماں ﷺ کے فرمان کے مطابق ہرحج ہی “حج اکبر” ہوتا ہے اور یہ جمعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے عمرہ کو “حج اصغر” قرار دیا ہے اور اس کے مقابلے میں حج کو “حج اکبر” کہا ہے۔
عمرہ کرنے والے بھی تو اپنا سرمایہ لگا کر، اپنا گھر بار چھوڑ کر، اپنا قیمتی وقت لگا کر زیارت بیت اللہ کے لیے آتے ہیں تو اللہ تعالی نے ان کی محنت کی قدر کرتے ہوئے عمرہ کو “حج اصغر” قرار دیا ہے۔
ارض حجاز میں رہنے والے پاکستانی لوگ بھی “حج اصغر” اور “حج اکبر” کے فرق کو بہت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ پھر یہ بات تاریخی لحاظ سے بھی ثابت شدہ ہے کہ سورۃ التوبہ میں اللہ تعالی نے “حج اکبر” کا لفظ حج کے لیے استعمال کیا تو اس دن یعنی 9ھ میں 9 ذی الحجہ کو جمعہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر محسن صاحب نے بتایا کہ 2006ء میں جب میں نے پہلا حج کیا تھا تو اس دن بھی جمعہ تھا۔ “
یعنی یہ صرف دل کو خوش کرنے والی بات ہوتی ہے کہ آج ہمیں جمعہ کو “حج اکبر” نصیب ہوا ہے. ورنہ ہر حج ہی حج اکبر ہوتا ہے، خواہ یہ جمعہ کو ہو یا ہفتے کے کسی اور دن ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب حاجیوں نے جمعہ کا مبارک دن ہوتے ہوئے بھی میدان عرفات میں جمعہ کی نماز نہیں بلکہ ظہر و عصر کی نماز جمع اور قصر ادا کرنی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ان کا خطبہ جمعہ نہیں بلکہ خطبہ حج ہوتا ہے جو امام صاحب مسجد نمرہ میں دیتے ہیں اور یہ پوری دنیا میں لائیو دکھایا جاتا ہے۔
ہمارا کیمپ مسجد نمرہ سے کافی دور واقع تھا اور خطبہ حج کی آواز یہاں نہیں آ سکتی تھی۔ موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہونے کے باوجود میری بڑی خواہش تھی کہ ہم مسجد نمرہ میں نہیں جا سکتے تو کم از کم یہاں اپنے کیمپ میں خطبہ حج کی آواز سن سکیں۔ اس طرح براہ راست امام صاحب کی آواز دلوں پر بے حد اثرانداز ہوتی ہے لیکن ہر کیمپ کے اندر اس طرح کا انتظام شاید ممکن نہ ہو۔
نجانے اس طرح کے کتنے کیمپ سر زمین عرفات پر لگے ہوئے ہیں۔ میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف کیمپوں کی بہاریں اور قطاریں تھیں۔ اس انتظام پر نہ جانے کتنے اربوں کا سرمایہ لگتا ہو!
اگر سعودی وزارت حج کے لیے اس طرح کا انتظام کرنا ناممکن ہے تو ہر ملک کی وزارت حج اپنے ملک کے حجاج کرام کے لئے ان کے کیمپوں کے اندر لاؤڈ سپیکر اور دیگر متعلقہ انتظام کا بندوبست اگر چاہے تو کروا سکتی ہے۔ اس کے اخراجات تو حاجیوں سے ہی وصول ہوں گے۔ اس طرح کی سوچیں میرے ذہن میں آرہی تھیں۔ ارد گرد کی خواتین سے اس موضوع پر بات ہوئی تو وہ اس کی تائید کرنے لگیں۔
ہمارے کیمپ میں ضیوف الرحمن کے لیے مختلف چیزیں ساتھ ساتھ تقسیم ہوتی رہیں۔ کبھی جوس، کبھی ٹھنڈے پانی کی بوتلیں، کبھی لسی، کبھی بسکٹ وغیرہ ۔دوپہرکے کھانے کے بعد آئس کریم اور چائے یعنی ٹھنڈا اور گرم سے بھی کیمپ میں مقیم لوگوں نے استفادہ کیا۔
“انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس مسئلہ کا بہت آسان اور سستا حل موجود ہے۔ یعنی انٹرنیٹ پر براہ راست سنا جا سکتا ہے اور اس کا اردو ترجمہ لائیو نشر کیا جاتا ہے۔” ڈاکٹر محسن صاحب نے مجھے بتایا۔
“اس کے علاوہ دیگر زبانوں کے لیے بھی مختلف دیگر چینلز موجود ہیں۔ کیمپوں کے باہر بھی کئی جگہ بڑے چارٹ اور فلیکس وغیرہ لگے ہوئے ہیں جن پر معلومات درج ہیں کہ کس طرح ریڈیو کی فریکوئنسی سیٹ کر کے کون کون سی زبان میں خطبہ حج براہ راست سنا جا سکتا ہے!” انہوں نے مختلف فلیکسز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا۔
“بلاشبہ آج تو ہم لوگوں کے ہاتھوں میں ایسے موبائل موجود ہوتے ہیں جن پر ٹی وی، ریڈیو ، انٹرنیٹ غرض ہر سہولت موجود ہوتی ہے۔” میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
امیر قافلہ نے ہمارے کیمپ کے اندر ریڈیو پر خطبہ حج سننے کا انتظام کر رکھا تھا لیکن ریڈیو پر عربی میں خطبہ سننے کا وہ مزہ نہیں آیا جو براہ راست لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے سننے میں آتا ہے ۔بہرحال خطبہ حج سننا ممکن تو ہوا ۔الحمدللہ
خطبہ کے بعد ظہر کی نماز کے لئے اقامت کہی گئی۔ امیر قافلہ نے ڈاکٹر محسن صاحب کو امامت کے لئے کہا لیکن انہوں نے گروپ کے ایک عمر رسیدہ فرد شاہ صاحب کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے انہیں امامت کے لیے آگے کردیا ۔ شاہ صاحب نے ظہر کی نماز قصر پڑھائی، پھر عصر کی اقامت کہی گئی اور شاہ صاحب نے عصر کی نماز قصر پڑھائی۔ عرفات کے دن ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر پڑھنا ہی نبی معظم ﷺ کی سنت مطہرہ ہے۔
نماز کے بعد ڈاکٹر محسن صاحب نے خطبہ حج کا بڑا خوبصورت رواں اردو ترجمہ پیش کیا اور اس خطبے کی روشنی میں حالات حاضرہ پر بڑی بھرپور روشنی ڈالی جس میں خواتین کے حقوق و فرائض کا بھی جامع تذکرہ تھا۔
پھر انہوں نے اجتماعی دعا کروائی ۔ میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور دل میں سوز و گداز تھا۔ میرا دل اپنی خطاؤں پر پشیمان تھا، تو اللہ سے رحمت کا طلبگار بھی تھا۔ ڈاکٹر محسن صاحب اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ پھیلائے اس سے رحمت و برکت، عافیت ، صحت و تندرستی، گناہوں کی مغفرت ،جنت کے حصول ،جہنم اور عذاب قبر سے بچاؤ کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔ وہ خود بھی رو رہے تھے اور دوسروں کو بھی رلا رہے تھے۔ بے حد عاجزی و انکساری سے رب تعالی سے رو روکر مناجات کر رہے تھے اور سب آمین آمین کہہ رہے تھے ۔
میرے دل میں خیال آرہا تھا کہ “یا اللہ مجھ پر بھی نظر کرم فرمانا اور مجھے آج ان خوش نصیبوں میں شامل فرمانا جن کے بارے میں آپ فرشتوں کو گواہ بنا کر فرماتے ہیں:
“اے میرے فرشتو! گواہ ہوجاؤ۔ میں نے اپنے بندوں کو معاف کردیا ہے۔”
انہوں نے پھر مسلمانوں کے اتفاق واتحاد، مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ، ان کی عزت و برتری کے لئے مظلوم مسلمانوں خصوصا فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کے لئے اور تمام مسلمانوں کی آزادی کے لئے بڑی پرتاثیر دعائیں مانگیں۔ دل چاہتا تھا کہ دعا ختم نہ ہو اور جتنی لمبی ہو سکتی ہے، ہوتی رہے۔
میرا دل پگھل کر آنکھوں کے رستے باہر آ رہا تھا۔ رو رو کر ہچکی بندھ گئی تھیں۔ میرے دل میں بس یہی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ آج مجھے گناہوں سے ایسے پاک صاف کردیں جیسے میں آج ماں کے رحم سے معصوم پیدا ہوئی ہوں۔ مجھے ان خوش نصیبوں میں شامل فرما لیں جن پر آپ کی نظر کرم ہو گئی ہے۔
اردگرد کی سب خواتین کا بھی رو رو کر برا حال تھا ۔ہر طرف آمین کی پکار تھی ۔
ڈاکٹر محسن صاحب نے دعا ختم کروائی تو میں اور دیگر خواتین دیر تک اپنے آنسو پونچھتی رہیں۔ پھر میں نے انفرادی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ دل چاہتا تھا کہ آج اللہ تعالی سے سب کچھ مانگ لوں،کوئی کمی نہ چھوڑوں ۔
میں دیر تک اپنے ہاتھوں کو بلند کیے اللہ تعالی سے دعائیں اور مناجات کرتی رہی کہ:
“یا رب تعالیٰ! میں یہاں موجود ہوں تو یہ صرف آپ کا کرم ہے۔ میں تو کسی قابل نہیں۔یارب! مجھے یہاں بلا لیا ہے تو میری دعائیں بھی قبول فرمالے!
آج کا دن دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے۔ آپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور آپ کو راضی کرنے کا دن ہے ۔ یہ بڑا قیمتی دن ہے جو میری زندگی میں بار بار نہیں آئے گا۔ اے اللہ! مجھے آج کے دن کی برکتوں اور رحمتوں سے محروم نہ کرنا۔ ان سعادت مند لوگوں میں شامل فرما لینا جن پر آپ کی نظر کرم ہو گٸں۔ آمین یا رب العالمین “
نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد وقوف کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ وقوف میں رسول معظم نے دونوں نمازوں کے بعد کھڑے ہوکر اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعائیں مانگی ہیں ۔لیکن وقوف کا مطلب صرف کھڑے ہوکر دعائیں مانگنا نہیں ہے بلکہ بیٹھ کر بھی دعائیں مانگی جا سکتی ہیں، قرآن کی تلاوت کی جا سکتی ہے یا دیگر عبادات کی جا سکتی ہیں۔
دعا کے بعد ہم خواتین اٹھ کر اپنی مخصوص جگہ پر آگئیں جہاں ہمارے گروپ کا سامان موجود تھا ۔ سارے گروپ کی خواتین ایک جگہ اکٹھی موجود تھیں۔ کچھ دیر بعد حسب سابق بڑے بڑے واٹر کولروں میں چکن پلاؤ آگیا۔ مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی ۔
کھانا کھا کر میں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں ہر جگہ اپنی نعمتیں عطا فرمائی اور ہمارے لئے آسانیاں پیدا کیں۔
اس کے بعد مجھے چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن چائے ہمارے کیمپ میں موجود نہ تھی ۔ مجھے نیند کے جھونکے آنا شروع ہو گئے تھے ،کچھ کھانے کی وجہ سے، کچھ تھکن اور کچھ پچھلی رات کی سوتی جاگتی کیفیت کی وجہ سے۔ دیگر خواتین و حضرات بھی چائے کا پوچھتے پھر رہے تھے ۔
ڈاکٹر محسن صاحب نے مجھے بتایا کہ 2006ء میں ہم نے طویل لائنوں میں لگ کر دس ریال کی چائے فی کپ خریدی تھیں ۔یہاں مجھے لگ رہا تھا کہ شاید آج ہمیں بھی لائنوں میں لگ کر چائے خریدنی پڑے گی ۔ ڈاکٹر محسن صاحب کو میں نے دیکھا کہ وہ تو مجھے کہیں نظر نہ آئے۔ شاید وہ کیمپ کے اگلے حصے میں تھے ۔
مجھے اپنی سوتی جاگتی کیفیت کی بڑی پریشانی تھی۔ لیکن یہ میرے بس میں نہیں تھا ۔ میں نے یکسوئی کی بڑی کوشش کی لیکن اس وقت مجھے چائے ناگزیر لگ رہی تھی۔ خاکی انسان کہیں بھی کھانے پینے سے بے نیاز نہیں رہ سکتا اور چائے کے عادی انسان عرفات میں بھی چائے کے طلب گار ہوتے ہیں۔
لہٰذا میں نے اللہ تعالی سے “چائے” کے لیے دعا کی لیکن چائے فوری نہ مل سکی البتہ کچھ دیر کے بعد مل گئی۔ تھکن اور نیند کی وجہ سے اب میری عبادت میں خلل پڑ رہا تھا ۔ کچھ دیر کے لیے میں اپنے اوپر گاؤن اچھی طرح سیٹ کرکے لیٹ گئی۔ لیکن مجھے نہ تو صحیح طرح نیند آرہی تھی اور نہ ہی اٹھ کر اچھے طریقے سے عبادت کی جا رہی تھی۔ لہذا میں کچھ دیر اسی طرح لیٹی رہی۔
پھر میں اٹھی، باجی رفعت سے کہا کہ “میں نے ہاتھ منہ بھی دھونا ہے اور مجھے چائے کی بھی شدید طلب ہے، ہم کیمپ سے باہر چلتی ہیں، شاید باہر کہیں سے چائے مل جائے یا ہم خود کہیں سے خرید لیں۔”
باجی رفعت کا بھی میرے جیسا حال تھا۔ بلکہ خواتین کی اکثریت چائے کی طالب تھی۔ لہٰذا وہ فوراً تیار ہو گئیں۔ ہم دونوں کیمپ سے باہر نکلیں۔ باہر رکھے واٹر کولر سے تھوڑا سا پانی لے کر میں نے ہاتھ منہ دھویا، اچھی طرح کلی کی، سر پر کچھ پانی ڈالا اور پھر ہم دونوں نے کھڑے ہو کر پہلے تو اپنے کیمپ اور اس کی نشانیاں اچھی طرح ذہن نشین کیں، پھر ایک دوسرے سے ڈسکس کیں تاکہ ہمیں اچھی طرح یاد رہیں۔ اور پھر ہم چائے کی تلاش کی “مہم” پر نکل کھڑی ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک امیر حاجی کی انفرادیت کا واقعہ
ڈاکٹر محسن صاحب نے مجھے میدان عرفات کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا جو انہیں امیر قافلہ نے سنایا تھا کہ
“انڈیا کا ایک بےحد امیر کبیر آدمی جب حج کے لیے مکہ پہنچا تو اس نے اپنے لیے ہر جگہ بہترین اور انفرادی انتظامات کروائے۔ اس وجہ سے اس کا حج پیکیج بہت مہنگا تھا۔ اور کئی برس پہلے اس کی قیمت پینتیس لاکھ روپے تھی۔ (جب پاکستان میں حج پیکیج تقریباً اڑھائی لاکھ تھا )
جی ہاں۔ پینتیس لاکھ روپے۔ ( اسی لیے حج امیروں کی تفریح اور غریبوں کی حسرتوں کا سامان بن چکا ہے۔ )
اس نے منی میں اپنے لیے ہر طرح کی سہولیات سے مزین الگ تھلگ خیمہ لگوایا۔ جس میں ہر طرح کی آسائش موجود تھی۔ حتیٰ کہ الگ کچن اور اٹیچ باتھ روم بھی موجود تھا۔
عرفات میں بھی اس نے اپنے لیے الگ خیمے کا بندوست کروایا ہوا تھا جو ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ و پیراستہ فائیو سٹار ہوٹل کا منظر پیش کرتا تھا۔ کچن اور اٹیچ باتھ روم یہاں بھی موجود تھا۔ وہ اپنے خیمے میں عبادت میں مصروف تھا کہ اس کے “پرسنل” خیمے کے قریب باہر سڑک پر اچانک گٹر ابل پڑا۔ گندے پانی اور اس کی بو نے اس کے خیمے کا احاطہ بھی کرلیا اور بو اس کے دماغ کو چڑھ گئی تو وہ وہاں سے نکل بھاگا۔ اللہ تعالیٰ نے شاید یہاں اس کی “انفرادیت” کا معاملہ پسند نہیں فرمایا تھا۔ سچ ہے کہ کیا انسان اور کیا اس کی اوقات!
فاعتبروا یاولی الابصار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تبصرہ برائے “وقوف عرفہ (حج 2014ء کی یادداشتیں – حصہ دوم )”
بہت پر تاثیر تحریر ہے، ماشاءاللہ