ڈاکٹر خولہ علوی
غض بصر یعنی نظر جھکا کر رکھنا اسلام کا ایک نہایت اہم حکم ، مسلمان مردوں کی پہچان اور شناخت ہے۔اور خواتین کے لیے غض بصر کے ساتھ ساتھ پردہ و حجاب اسلامی شعار اور عورت کا وقار ہے۔
غیور مرد اپنی خواتین کا بے پردہ اور بے حیا ہونا کبھی برداشت نہیں کرتے۔ یہ ان کی غیرت کا سوال اور سودا ہوتا ہے۔
سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب میں اللہ ربّ العزت نے احکام ستر و حجاب واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہونے میں دین ودنیا کی کامیابی ہے۔ قرآن وحدیث کی رو سے مسلمان مردوں کے لیے غض بصر اور عزت و عصمت کی حفاظت کا اہتمام کرنا ایسے ہی فرض ہے، جیسے دیگر عبادات۔
اللہ رب العزت نے پہلے مردوں کو غض بصر یعنی نظر جھکا کر رکھنے کا حکم دیا۔ پھر خواتین کو بھی غض بصر کا حکم دیا، پھر تفصیلی طور پر احکام ستر و حجاب بیان کیے۔
اسلامی معاشرے میں مخلوط مجلسوں اور مرد و زن کے آزادانہ میل جول، مخلوط محفلوں (جن میں مخلوط تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں) پر مکمل پابندی ہے ۔
قرآن مجید میں سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے محرم رشتہ دار خواتین کی لسٹ بیان کر دی ہے کہ یہ تمہاری محرم عورتیں ہیں، ان سے تمہارا نکاح نہیں ہو سکتا۔ اور یہ خواتین تم محرم رشتہ داروں کے سامنے بغیر پردے کے آسکتی ہیں اور اپنی آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگھار بھی کسی حد تک ظاہر کر سکتی ہیں۔ یہ خواتین مندرجہ ذیل ہیں:
مائیں، بہنیں ، بیٹیاں ، خالائیں ، پھوپھیاں ، بھانجیاں، بھتیجیاں، ساس، سوتیلی بیٹی، بہوؤیں، سالیاں، (ایک وقت میں دو بہنوں کو نکاح میں اکٹھا نہیں کیا جا سکتا)
ان کے علاوہ مردوں کے لیے باقی خواتین رشتہ دار غیر محرم ہیں جن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ دیگر غیر رشتہ دار لڑکیوں اور خواتین سے بھی نکاح ہو سکتا ہے۔
غض بصر مسلمان کا خاصہ اور اس کی پہچان ہے۔ جس نے اپنی نگاہ کی حفاظت کرلی، اس نے اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرلی۔ اور پھر اس نے باذن اللہ اپنے دین کی بھی حفاظت کرلی۔
حیا ایمان کا تقاضا اور لازمی حصہ ہے۔ شرعی احکامات کے مطابق مرد میں بھی شرم و حیا اتنی ہی ضروری ہے جتنی عورت میں۔ ہر مذہب میں انبیائے کرام نے ہمیشہ شرم و حیا کی تعلیم کو عام کیا ہے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہو کر دکھایا ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ”نبی کریم ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے، کسی چیز کو ناپسند فرمالیتے تو اس کے آثار ہم چہرۂ انور پر محسوس کرتے تھے۔” ( صحیح مسلم)
قرآن مجید میں بیان کردہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ "احسن القصص” یعنی بہترین قصہ قرار دیا گیا ہے۔ جس سے یہ باتیں نمایاں طور پر واضح ہوتی ہیں کہ مردوں میں بھی شرم و حیا، عفت و پاک دامنی اور عزت و عصمت کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔
ماؤں کو اپنے بیٹوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ بیٹے حضرت یوسف علیہ الصلاۃ و السلام کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور ان کی طرح بننے کے خواہش مند ہوں۔ اور وہ آرزو رکھتے ہوں کہ جیسے انہوں نے اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کی تھی، اسی طرح کا ہمارا بھی کردار ہو، اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنے والے اور شرم و حیا کا پیکر بنا دے۔
حضرت یوسف علیہ الصلاۃ و السلام نے تو عزت و عصمت کی خاطر بہت پریشانیاں اور تکلیفیں برداشت کی تھیں، جوانی کے کئی قیمتی برس پس زنداں بسر کیے تھے، قید خانے کی مشقتیں برداشت کی تھیں لیکن اپنے دامن عصمت پر کوئی داغ نہیں لگنے دیا تھا۔
خلیفہ سوم اور داماد رسول ﷺ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شرم وحیاء کے پیکر، غیرت و حمیت کے علمبردار اور عزت و عصمت کی حفاظت کرنے والے تھے۔ ان کی حیا کا یہ عالم تھا کہ آسمان کے فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: "اے علی (رضی اللہ عنہ)! (اگر کسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو) دوبارہ نظر نہ ڈالو، تمہارے لیے (بلا ارادہ) پہلی نظر تو جائز ہے مگر دوسری نظر جائز نہیں۔”
دجالی تہذیب اور سوشل میڈیا کے دور میں حیا کو متاثر کرنے والے بے شمار عوامل (factors) اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔گلی کوچوں، دکانوں بازاروں میں عورتوں کو تانک جھانک کرنے والے اور ان کو گھور گھور کر دیکھنے والے مرد سب شیطان کے چیلے چانٹے اور دوست ہیں۔ شیطان کے ورغلانے سے یہ بے غیرت مرد عورتوں کو چھیڑ چھاڑ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
خود بے پردہ عورت بھی کبھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں عزت اور تقویٰ کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ اور پھر ایک اہم شرعی حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے خود لڑکی یا عورت کے لیے بھی بہت سے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ معاشره پر بھی اس کے بہت منفی اور غیر مناسب اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسا معاشره روبہ زوال ہوتا جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین ﷺ نے فرمایا:”آنکھوں کا زنا نامحرم عورت کی طرف دیکھنا ہے،کانوں کا زنا حرام آواز کاسننا ہے، زبان کا زنا ناجائز کلام کرنا ہے ، ہاتھ کا زنا ناجائز پکڑنا ہے اور پیر کا زنا حرام کی طرف چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتاہے اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے۔”
جب کوئی لڑکا یا مرد تربیت کی کمی کے باعث اپنی نظروں کی حفاظت نہ کرے اور لڑکیوں کو تانکتا جھانکتا رہے یا ان کو تنگ اور پریشان کرے، اور الٹا اپنی بد نظری اور گناہوں کا قصوروار صرف عورت کے لباس یا اس کے طور اطوار کو قرار دے تو یہ بات غلط اور قابل تنقید ہوتی ہے۔ خصوصاً مغربی ذہنیت کی عکاس بے پردہ عورتیں اپنے معاملات نہیں دیکھتیں اور مردوں پر اعتراضات اور طنز و تشنیع کرتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عورتوں کا پردہ معاشرے میں باپ، بھائیوں اور شوہر کا اعتماد اور فخر و مان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مردوں کی شرم و حیا، نظریں جھکا کر رکھنا اور عزت و عصمت کی حفاظت معاشرے کے اخلاقی عروج کا باعث بن جاتی ہے۔
قرآن پاک نے ان احکامات سے انسانیت کو پاکدامنی کا راستہ دکھا دیا ہے اور اپنے دلوں کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان کردیا ہے۔
اگر دنیا کی سب عورتیں پردہ کرلیں پھر بھی مردوں کے لیے غض بصر کے حکم پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی نظروں کا حساب دینا ہوگا۔
مسلمان مردوں کے لیے غض بصر کے جامع اور خوبصورت حکم میں بہت سے فوائد اور مصلحتیں ہیں۔ اس کی وجہ سے مرد گناہوں سے بچ جاتے ہیں، اور شرم و حیا اور پاک دامنی اختیار کرتے ہیں۔ اجر و ثواب کے مستحق ہوتے ہیں، بے داغ پاکیزہ جوانیوں کی وجہ سے ان کی گھریلو شادی شدہ زندگی بھی کامیاب ہوتی ہے اور ان کی بیویاں بھی ان پر اعتماد کرتی ہیں۔ ان کے بچے پر اعتماد اور اپنے والدین کو "رول ماڈل” سمجھنے والے ہوتے ہیں. ان کے گھرانے دنیا میں "جنت ارضی” قرار دیے جا سکتے ہیں۔
ایسے باحیا اور کامیاب گھرانوں کی وجہ سے معاشره بھی باحیا اور اطمینان و سکون والا ہوتا ہے۔ اور ترقی کی راہوں پر گامزن رہتا ہے۔
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی نظروں اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ کسی سے کسی اور کے غض بصر یا پردے کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ اس لیے اس تہذیبی کشمکش میں ہم سب کو اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
بے حیائی و فحاشی کی اشاعت و ترویج دجالی تہذیب اور سوشل میڈیا کا مقصد، ٹارگٹ اور وژن (vision) ہے۔ اس پر فتن دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے صحیح عقیدہ کے ساتھ ساتھ غض بصر اور احکام ستر و حجاب پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے۔ تاکہ امت مسلمہ کے جوان صالح اور متقی طرز کی معاشرت کو دوبارہ دنیا کے سامنے زندہ کر سکیں۔ اور ان فوائد و ثمرات کا مشاہدہ کرکے اہل مغرب بھی ان سے فیض یاب ہونے کے آرزو مند ہوں۔
؎ حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے کہ جوانی تری ریے بے داغ