عصمت اسامہ
دادا جی ،دیکھیں میرا نیا کھلونا آیا ہے !
منا ،دادا جی کا بازو ہلا کے انھیں متوجہ کر رہا تھا ۔ دادا اور پوتے کی پکی دوستی تھی ۔۔
دکھاؤ ، ارے واہ ، رنگ بڑا تیز ہے اس کا لیکن پلاسٹک کا ہے ۔تمہارے پاس جو پہلا کھلونا تھا ،اس کا کیا کیا ؟ دادا جی نے پوچھا ۔
"وہ بھی رکھا ہوا ہے ،آپ نے جو دیا تھا ،بہت مضبوط ہے ،آپ کی طرح !” منے نے اتنے پیار سے کہا کہ دادا جی خوش ہوگئے ۔
ہاں بھئی ،بہت مضبوط ہے ۔پتہ ہے کہ وہ ہمارا خاندانی کھلونا ہے۔ میں نے اسے لکڑی کاٹ کے بنایا تھا ۔اس سے تمہارے ابو کھیلتے تھے جب وہ چھوٹے تھے ، پھر چاچو نے کھیلا ،پھر تمہاری باری آئی ۔ابھی تک ٹوٹا نہیں نا ؟ دادا جی نے اپنی تسلی کرنا چاہی۔
بالکل نہیں ٹوٹا ،مجھے بھی وہ کھلونا بہت پسند ہے بس تھوڑا کلر اتر گیا ہے۔منے نے کہا اور دادا جی کے بیڈ پر ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
دادا جی موبائل آن کر کے خبریں سننے لگے اور منا بھی۔ تھوڑی دیر بعد بریکنگ نیوز آنے لگی۔ اسمبلی ہال کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔پورا اسمبلی ہال مچھلی منڈی بنا ہوا تھا۔ حکومتی وزراء اور اپوزیشن ارکان ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کر رہے تھے ۔ایک دوسرے کو کاغذات مار رہے تھے ۔کچھ ڈیسکوں پہ چڑھ کے ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے ،دھمکیاں لگا رہے تھے۔کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پورے ہال پہ کسی نے جادو کردیا ہو ! مذہبی جماعتوں کے نمائندے ایک طرف حیران و پریشان کھڑے تھے۔ سیکیورٹی پر مامور افراد بھی وردیوں میں کھڑے بے بس سے نظر آرہے تھے۔ بدتمیزی کا سونامی دیکھتے دیکھتے دادا جی اپنا چشمہ اتار کے صاف کرنے لگے ۔منے نے دیکھا تو ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ۔ چہرہ فرط جذبات سے لال تھا ۔ پھر وہ موبائل رکھ کے رب العالمین سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے۔ منا چپ چاپ انھیں گڑ گڑاتے ہوۓ دیکھ رہا تھا۔
میرے لئے بھی دعا کردیں ابا جان ! منے کے ابو پھلوں کا شاپر پکڑے کمرے میں داخل ہوئے تو منا دوڑ کے ابو سے لپٹ گیا۔
ابا جان ،کس کے لئے دعا کر رہے ہیں ؟ منے کے ابو نے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
کیسے ہو بیٹا ؟ میں پاکستان کے لئے دعا کر رہا ہوں ۔دادا جی نے کہا۔
اچھا ؟ کیا ہوا پاکستان کو ؟ چل تو رہا ہے ۔بیٹے نے مسکرا کے پوچھا۔
الحمدللہ، اللہ کے فضل سے چل رہا ہے لیکن حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ پاکستان کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے ۔ دادا جی ایک ٹھنڈی آہ بھر کے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ،پھر بولے :
بیٹا ! تمہیں معلوم ہے کہ 1965 ءکی جنگ میں میرے بابا جان شہید ہوگئے تھے۔ میں اس وقت سکول میں پڑھتا تھا اور سب لوگ مجھے پہلے فوجی کا بیٹا اور بعد میں شہید کا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے۔ میں نے یتیمی کی زندگی بڑی مشکل سے کاٹی ہے لیکن زندگی بھر میرا ایک ہی فخر رہا کہ میں فوجی کا بیٹا ہوں ،
میرے باپ نے اس دھرتی کی حفاظت کی خاطر اپنا خون دیا ہے۔ جب میں پڑھ لکھ کے سرکاری نوکری پہ لگا تو بیٹا مجھے کئی بار رشوت کی پیشکش کی گئی ۔فائلیں آگے پیچھے کرنے اور ریکارڈ غائب کرنے کے لئے بنگلہ اور ویزہ بھی آفر کیا گیا لیکن بیٹا میری آنکھوں کے سامنے میرے شہید باپ کا چہرہ آجاتا تھا۔ میرا ضمیر مجھے کہتا تھا کہ میرا سودا نہ کرنا ۔
باپ نے تو اس دھرتی پہ اپنی جان نچھاور کردی اور میں اسی کا بیٹا ہوں ۔ کیا میں اتنا کمزور ہوسکتا ہوں کہ ان لالچ دینے والے دشمنوں کی باتوں میں آجاؤں گا؟ میں نے ساری زندگی حق حلال کا کھایا ، تھوڑے میں گزارا کیا۔ لیکن اصولوں کا سودا نہیں کیا۔ کئی بار مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ، کئی بار افسران نے میرے تبادلے کئے ۔ میں ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجا جاتا رہا۔ میں نے خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزاری لیکن وطن کی مٹی سے غداری نہیں کی کیونکہ مجھے معلوم تھا بیٹا کہ اسی مٹی میں تو جانا ہے ۔اسی مٹی میں ”وہ آنسو صاف کرنے لگے ۔
یہ مٹی ہمیں مفت میں نہیں ملی تھی۔ ہمارے بزرگوں نے لاکھوں جانیں قربان کر کے حاصل کی تھی۔ قائد اعظم کیسے لیڈر تھے ، معلوم ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میری بہن فاطمہ نے اجلاس میں بیٹھنے کے لئے کرسی منگوائی ہے تو اس کرسی کی قیمت وہ خود ادا کرے گی ، سرکاری خزانے سے قیمت ادا نہیں کی جائے گی ! ایسے بنا تھا پاکستان ۔
اور آج جو لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں ان کی حالت دیکھو کہ ان ڈیسکوں پہ قدم رکھ کے گالی گلوچ کر رہے ہیں جو ڈیسک عوام کے پیسے سے خرید کے یہاں رکھے گئے ہیں ۔اتنے غیر مہذب گستاخ لوگ ، جن پہ قسمت مہربان ہوئی جنھیں اقتدار ملا لیکن وہ سدھر نہ سکے ،انھوں نے کیا کرنا ہے عوام کے لئے؟ یہ تو اپنی انا کو سنبھال نہیں پا رہے ،یہ وطن کو کیا سنبھالیں گے ؟وقت دعا ہے بیٹا پاکستان کے لئے !!
دادا جی اتنی رقت انگیز لہجے میں بات کر رہے تھے کہ ان کے بیٹے کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں پھر وہ ابا جی کے سامنے سر جھکا کے اپنے ہاتھ جوڑ کے کہنے لگا ،
ابا جی ! مجھے معاف کردیں ،میں آپ کا مجرم ہوں ۔میں نے ایک موٹر سائیکل لینے کی خاطر اپنا اور بیگم کا ووٹ بیچا تھا ۔میری آنکھوں پہ لالچ کی پٹی بندھ گئی تھی ۔میں نے ایسی پارٹی کو اپنا ووٹ بیچا جو اب پاکستان کے قومی اثاثے گروی رکھ رہی ہے۔ابا جی پاکستان کا مجرم میں ہوں ،میں !!