ڈاکٹر خولہ علوی
"رباب! خنساء کئی دنوں سے کالج کیوں نہیں آ رہی؟” عفاف نے رباب سے سوال کیا۔
"اس کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس لیے وہ کئی دنوں سے چھٹی پر ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں؟” رباب نے جواب دیا
"نہیں. سیکشنز علیحدہ ہونے کی وجہ سے مجھے اس بات کا علم نہیں ہو سکا تھا۔ کیا اس کا بھائی شادی شدہ تھا؟” عفاف نے اس سے پوچھا۔
"نہیں۔ ابھی تو وہ یو۔ای۔ٹی (یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) میں فائنل ائیر میں پڑھ رہا تھا۔” رباب نے بتایا۔
"اس کے بھائی کی وفات کس طرح ہوئی ہے؟” عفاف نے سوال کیا
"یونیورسٹی سے واپس آتے ہوئےاس کے بھائی کی بائیک کا ٹرک سے ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ ایسا خطرناک تھا کہ وہیں اس کی موت ہو گئی تھی۔ہسپتال لے کر جانے کی بھی نوبت نہیں آئی تھی۔” رباب کے پاس جو معلومات تھیں، اس نے ان کے مطابق عفاف کو بتا دیا۔
"ایسی خطرناک اور بر موقع وفات (on the spot) اس کے گھر والوں کے لیےکتنی پریشان کن خبر ثابت ہوئی ہوگی۔”عفاف نے جھرجھری سی لی۔ وہ یہ باتیں سن کر بہت افسردگی محسوس کر رہی تھی۔
"یقیناً۔” رباب نے مختصراً تائید کی۔
"ہمیں تعزیت کے لیے اس کے گھر جانا چاہیے۔” عفاف نے تجویز پیش کی۔
"ٹھیک ہے۔ میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔ کچھ اور طالبات بھی اس کے گھر جانے کی بات کر رہی تھیں۔” رباب نے اسے آگاہ کیا۔
"ہم سب مل کر تعزیت کے لیے جانے کا پروگرام بنا لیتے ہیں۔” عفاف نے کہا۔
” خنساء کے بھائی کی وفات کے دن اس کی کئی سہیلیاں اور کلاس فیلوز اپنے اپنے گھروں سے اس کے گھر تعزیت کے لیے گئی تھیں۔” رباب نے مزید بتایا۔
"بہت اچھی بات ہے۔ انہیں ضرور جانا چاہیے تھا۔ خوشی و غمی اور دکھ سکھ کے مواقع پر ہی تو دوست احباب ایک دوسرے سے اپنے جذبات اور احساسات کا اشتراک کرتے ہیں۔ مجھے تو معلوم ہی اب ہوا ہے۔ اب اپنے گھر سے اجازت لیتی ہوں۔ پھر اس کے گھر جانے کا پروگرام سیٹ کرتے ہیں۔” عفاف بولی۔
عفاف اور رباب دونوں پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس سی آنرز کی طالبات تھیں۔ ان کی ایک کلاس فیلو خنساء کے جواں سال غیر شادی شدہ بھائی کا ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیا۔ سیكشنز مختلف ہونے کی وجہ سے عفاف کو فوری طور پر اس بارے میں علم نہ ہو سکا تھا۔ خنساء نے جب چند روز چھٹی کی تو پھر انہیں اس کے بھائی کے انتقال کا پتہ چلا۔ اس سانحے کو کئی روز گزر چکے تھے لیکن وہ ابھی تک کالج نہیں آرہی تھی۔
ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو کر بڑی تیزی سے گزر رہا تھا اور اب عید الاضحیٰ کی آمد آمد تھی۔ عید اور قربانی کی خوبصورت مصروفیات کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا۔ لوگ حسب توفیق قربانی کے جانور خرید رہے تھے۔ بچوں کو ایک دلچسپ مشغلہ ہاتھ آیا ہوا تھا۔
بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی قربانی کے جانوروں کو ٹہلاتے اور نہلاتے ہوئے ادھر ادھر پھرتےدکھائی دیتے تھے بلکہ بچے زیادہ پرجوش نظر آتے تھے۔ کیونکہ قربانی کے جانوروں کی خدمت کرنا، ان سے کھیلنا، ایک دوسرے کے جانوروں کا آپس میں مقابلہ کرنا اور ان کی ریس لگوانا بھی بچوں کا دل پسند مشغلہ ہوتا ہے۔ شام کو ہر طرف بکروں، دنبوں، چھتروں، گائیوں اور بیلوں کا رونق میلہ اپنے عروج پر ہوتا تھا۔ کہیں کوئی اونٹ بھی رونق بڑھانے کے لیے موجود ہوتا تھا۔
عفاف اور اس کی ہم جماعت ساتھیوں نے مل کر خنساء کے گھر تعزیت کے لیے جانے کا پروگرام بنایا لیکن عید کی چھٹیوں کی وجہ سے انہوں نے اس پروگرام کو عید کے بعد منتقل کردیا۔ تاہم عید کے بعد صرف تین لڑکیوں عفاف، رباب اور ثانیہ کے جانے کا معاملہ فائنل ہوا۔ باقی طالبات نے اپنی وجوہات بتا کر معذرت کرلی۔ عیدکے چند بعد وہ لوگ خنساء کے گھر تعزیت کے لیے چلی گئیں۔
” خنساء تو ما شاءاللہ بڑے صاحب حیثیت گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔” خوبصورت گھر دیکھ کر ثانیہ نے تبصرہ کیا۔
کشادہ گھر کی اچھے طریقے سے آرائش و زیبائش کی گئی تھی۔ سب مہمان عید سے پیشتر واپس جا چکے تھے اور گھر میں صرف اہل خانہ موجود تھے۔
عفاف وغیرہ نے خنساء، اس کی والدہ اور دو بہنوں سے مسنون طریقے سے تعزیت کی۔ اس کی والدہ کی حالت انہیں کافی بہتر لگی لیکن خنساء خود ابھی تک پریشانی اور غم زدگی کی کیفیت میں تھی۔ سوگ کی کیفیت اس کے وجود پر ہنوز پوری طرح طاری تھی۔
اس کی حالت دیکھ کر انہیں لگا کہ وہ ابھی تک اس حادثے کے اثرات سے نکل نہیں پا رہی۔ انہوں نے جب اس سے تعزیت کی اور اسے صبر اور حوصلے کی تلقین کی تو وہ جیسے پھٹ پڑی۔
"کون سا حوصلہ! کون سا صبر!
اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی کو ہی فوت کرنا تھا۔ ابھی میرے بھائی نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا۔ ابھی تو اس کی جوانی کی عمر تھی۔ ابھی تو اس نے پڑھ لکھ کر والدین کا سہارا بننا تھا۔” خنساء پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
"خنساء! صبرکرو اور حوصلے سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے بھائی کی مغفرت فرمائے۔
"انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” (البقرہ:)
"بےشک ہم بھی اللہ کے لیے ہیں اور ہم نے بھی اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔” تینوں اسے تسلی دینے لگیں۔
"ابھی تو فائنل ائیر کی ٹیکنیکل پڑھائی مشکل ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی میں مصروف رہتا تھا۔ ابھی اس نے ڈگری حاصل کرنی تھی۔ اور کامیاب الیکٹریکل انجینئر بننا تھا۔ لیکن وہ تو ابھی سے ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔” خنساء اسی طرح باتیں کرتی رہی حتیٰ کہ انہیں یقین ہوگیا کہ اسکے دماغ پر بھائی کی حادثاتی وفات کا بہت زیادہ اثر ہوا ہے۔
عفاف وغیرہ نے اسے کافی وقت لگا کر حوصلہ دیا اور بہت سمجھایا بجھایا۔ اس کی والدہ نے اسے ساتھ لگا کر اس کے آنسو پونچھے اور پیار سے اسے ہاتھ منہ دھو کر آنے کا کہا تو وہ اٹھ کر باہر چلی گئی۔ والدہ نے اسے تاکید کی کہ وہ جلدی واپس آئے اور آتے ہوئے ان مہمانوں کے لیے مشروب لے کر آئے۔
"بھائی کی اچانک وفات کی خبر نے خنساء کے اعصاب پر بری طرح اثر ڈالا ہے اور وہ خون میں لپٹی ہوئی لاش دیکھ کر مریضہ بن گئی ہے۔” اس کی والدہ نے اس کی غیر موجودگی میں بتایا۔
"اس کے سامنے تو اب ہم اس کے بھائی کے متعلق زیادہ گفتگو بھی نہیں کرتے کیونکہ بھائی کی وفات یا اس کی زندگی کی باتیں سن کر اسے دورہ سا پڑ جاتا ہے۔ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتی ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے ہیں۔ ہمیں تو اپنے بیٹے کے غم کے علاوہ خنساء کی حالت نے بڑا پریشان کر دیا ہے۔”
خنساء کی ایسی حالت کا سن کر فطری طور پر انہیں بہت پریشانی اور افسوس ہو رہا تھا۔
"آپ اس کی سہیلیاں ہیں تو اسے کچھ سمجھائیں۔ شاید آپ کی باتوں کا اس پر کچھ اثر ہو جائے۔” اس کی والدہ نے انہیں مزید کہا۔
کچھ دیر بعد جب خنساء واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں مشروبات کی ٹرےتھی۔ اس نے سب مہمانوں کے ہاتھوں میں باری باری کولڈ ڈرنک کا گلاس پکڑایا۔ درمیان میں چند لمحوں کا تعطل (break) آگیا لیکن جلد ہی گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔
انہوں نے خنساء کی والدہ کی بات کا خیال کرتے ہوئے اس کو دوبارہ صبر و استقامت کی تلقین کرتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر باتوں باتوں میں عفاف نے اس کے سامنے غم والم اور سوگ کے بارے میں چند آیات، احادیث، احکامات اور کچھ واقعات وغیرہ بھی بیان کیے اور بتایا کہ
"اسلام کے احکامات کے مطابق انسان کے لیے میت کا سوگ صرف تین دن کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان کو اپنی زندگی نارمل طریقے سے گزارنی شروع کر دینی چاہیے اور درحقیقت اس میں اصل سبق یہ ہے کہ انسان کو "رجوع الی اللہ” کرتے ہوئے اپنی موت، قبر اور آخرت کو یاد رکھنا چاہیے۔” عفاف نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
"میں اپنے بھائی کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ ہم دونوں بہن بھائیوں کا آپس میں بہت پیار تھا۔ ہم اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے تھے اور ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں چھپاتے تھے۔ میرا بھائی فوت ہوا ہے تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ میری بھی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ مجھے ہر وقت اس کی خون میں لپٹی ہوئی لاش اپنی نظروں کے سامنے دکھائی دیتی ہے۔ میں نے اب بھائی کے بغیر جی کر کیا کرنا ہے۔” خنساء اب پھر روتے ہوئے بات کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو لگاتار گر رہے تھے۔
"جس بھائی کے ساتھ بچپن اور نوجوانی کے شب و روز کھیلتے کودتے، لڑتے جھگڑتے اور کھاتے پیتے گزرے ہوں تو اس کو بھلانا تو ناممکن سی بات ہے۔ لیکن اس کی موت سمجھ دار انسان کو اپنی موت، قبر اور آخرت کی طرف متوجہ کر دیتی ہے کہ آج میرا بھائی اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے تو کل میری باری ہے۔ یہ زندگی تو بہت ناپائیدار چیز ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔” عفاف نے اسے سمجھ داری سے اصل حقیقت کی طرف متوجہ کیا۔
پھر عفاف نے اسے نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ کا طریقہ بتایا اور ان کے ننھے منے تقریباً ڈیڑھ سالہ بیٹے ابراہیم کی وفات کا واقعہ سنایا اور وہ الفاظ بھی سنائے جو انہوں نے اپنے پیارے جگر کے ٹکڑے کی وفات پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ ارشاد فرمائے تھے۔
ترجمہ: "بے شک آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غمزدہ ہوتا ہے، مگر ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہوگا۔” ” (صحیح بخارى: 1303)
یہ حدیث سناتے ہوئے عفاف کی اپنی آواز بھرا گئی۔ لیکن خنساء کے تاثرات اور طرز عمل سے دکھائی دے رہا تھا کہ وہ کانوں سے سن تو رہی ہے لیکن احادیث کے الفاظ شاید اس کے دل تک نہیں پہنچ رہے۔
"کیا آپ میں اس واقعے سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ آپ نے نمازوں کی ادائیگی باقاعدگی سے شروع کر دی ہو؟” رباب نے سوال کیا۔
"باقاعدگی سے تو نہیں، بس کبھی کبھار نماز پڑھ لیتی ہوں۔” خنساء قدرے شرمندگی سے بولی۔
"خنساء! اب آپ اپنے بھائی کی مغفرت کے لیے بہت زیادہ دعائیں کیا کریں۔ اور حسبِ توفیق صدقہ وخیرات بھی کیا کریں۔” ثانیہ بولی۔
"ٹھیک ہے۔ دعائیں تو میں بھائی کے لیے بہت زیادہ کرتی ہوں۔” خنساء کہنے لگی۔
"آپ نماز بھی باقاعدگی سے پڑھا کریں اور نماز کے بعد بھائی کے لیے خصوصی طور پر دعائیں مانگا کریں۔” رباب نے مزید کہا۔
خنساء کی والدہ نے گفتگو کا موضوع تبدیل کر دیا اور مہمانوں سے عمومی گفتگو کرتے ہوئے ان کی ذاتی زندگی کے متعلق سوالات پوچھنے لگیں۔ بچیاں ان کی باتوں کے جوابات دینے لگیں۔ عفاف دیکھ رہی تھی کہ خنساء ان کی گفتگو سے تقریباً بیزار اور بےنیاز سی بیٹھی ہے۔
"خنساء! اس سال آپ لوگوں نے عید الاضحیٰ پر کون سی قربانی کی ہے؟ (یعنی گائے یا بکرا وغیرہ؟)” رباب نے خنساء کو گفتگو میں شامل کرنے کے لیے اس سے مخاطب کرتے ہوئے بات برائے بات یہ سوال پوچھ لیا۔
"جس باپ کا جوان بیٹا عید سے چند روز پہلے انتقال کر گیا ہو، اسے بھلا کیسے قربانی کی ہوش ہو سکتی ہے؟” خنساء نے عجیب سے انداز سے ان کی طرف دیکھ کر تلخ لہجے میں جواب دیا۔
"کیا آپ لوگوں نے قربانی نہیں کی؟” ثانیہ نے خنساء کا جواب سن کر بڑی حیرت سے پوچھا۔
"کیوں؟ اگر ہم نے قربانی نہیں کی تو اس میں کسی دوسرے کو کیا اعتراض ہے؟
ویسے بھی جس گھر سے عید سے چند دن پہلے جوان میت اٹھائی گئی ہو، اس گھر کے لوگوں کے لیے قربانی کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟” خنساء نے بد لحاظی سے جواب دیا۔
اس کا جواب سن کر وہ تینوں پریشان ہوگئیں۔ چند ساعتوں کے لیے تو انہیں اس کا کوئی جواب سمجھ نہ آیا اور وہ گم سم سی بیٹھی رہ گئیں۔ پھر عفاف نے ساتھ بیٹھی رباب کا ہاتھ دبا کر اسے اس بارے میں مزید بات کرنے سے منع کردیا اور ثانیہ کو بھی آنکھ کے اشارے سے منع کردیا کہ "وہ اب اس موضوع پر مزید بات نہ کریں۔”
تھوڑی دیر بعد وہ خنساء کے گھر سے لوٹ آئیں۔ انہیں ان لوگوں کے قربانی نہ کرنے پر حیرت ہو رہی تھی۔
"حیرت اس بات پر ہے کہ طبیعت کی خرابی کا مسئلہ تو خنساء کا تھا لیکن اس کے والد نے قربانی کیوں نہیں کی؟ کیا ان کو قربانی کی عظمت اور اہمیت کا احساس نہیں تھا؟” ثانیہ سے رہا نہ گیا تو اس نے یہ سوالات پوچھ لیے۔
"کیا اس کی والدہ نے بھی انہیں قربانی کرنے کے لئے آمادہ نہیں کیا؟ کیا ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے کسی نے انہیں ترغیب نہیں دلائی یا ان کے ساتھ ذہنی اور اخلاقی تعاون نہیں کیا؟(کیونکہ وہ ظاہری طور پر مالی لحاظ سے صاحب حیثیت نظر آتے تھے)” رباب بھی بول پڑی۔
"واللہ اعلم۔” عفاف مختصراً بولی۔
یہ بات ان کے ذہن میں سوالیہ نشان چھوڑ گئی کہ "آخر انہیں قربانی کی عظمت اور اہمیت کا احساس کیوں نہ ہو سکا تھا؟ اور وہ کیوں اس عظیم سنت سے محروم رہ گئے تھے؟”
عفاف نے پھر کہا "شاید جوان بیٹے کی حادثاتی موت نے ان کے نزدیک سنت کی اہمیت ختم کر دی تھی کہ انہوں نے قربانی جیسے عظیم فعل کو چھوڑ دیا تھا۔”
اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ہم جس سنت کی یاد میں عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کرتے ہیں، وہ مبارک اور پاکیزہ سنت یہ ہے کہ امام الانبیاء، خلیل اللہ کے القابات کے حامل پیغمبر باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر اور بڑھاپے کی اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم کے مطابق قربان کرتے ہوئے ان کی گردن پر چھری پھیر دی تھی۔ یہ تو رب تعالی کا فضل وکرم تھا کہ اس نے ان کی قربانی اس طرح قبول و منظور فرمائی کہ سرتسلیم خم کیے ہوئے فرمابردار نوعمر بیٹے کی گردن پر چھری چلنے کے بجائے آسمان سے بھیج دیے گئے دنبے کی گردن پر چھری چلی تھی۔
؎ یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی؟
ایک وہ پیکر وفا عظیم باپ تھے جو رب تعالی کی اطاعت کرتے ہوئے جان سے پیارے بیٹے کو اس کے "وجہہ کریم” کی خاطر خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے اور ایک عصر حاضر کا یہ باپ تھا جس کے جوان بیٹے کی اتفاقی موت نے اسے صاحب حیثیت ہونے کے باوجود قربانی جیسی عظیم الشان سنت کی اہمیت وفضیلت سے بیگانہ کر دیا تھا۔
خنساء کی بات سن کرعفاف کو اپنے تایا جان کی وفات کا دن اور موقع یاد آگیا اور وہ بے ساختہ رباب اور ثانیہ سے کہنے لگی کہ
"میں آپ کو ایک حقیقی واقعہ سناتی ہوں۔ میرے تایا جان کی اچانک وفات عیدالاضحیٰ سے ایک روز پہلے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی۔ صبح تہجد کے وقت ان کی وفات ہوئی تھی اور عصر کے بعد جنازہ پڑھا گیا تھا۔ گھر میں مسنون طریقے کے مطابق غم والم کا ماحول تھا۔ اونچی آواز میں رونا پیٹنا، نوحہ وبین کرنا، ماتم کرنا وغیرہ اس طرح کی ممنوعہ کام الحمدللہ کچھ بھی دکھائی نہ دے رہے تھے۔
میری تائی جان، ان کے بیٹے اور بیٹیاں ( یعنی میرے کزن ) تمام اہل خانہ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس غم کو ہمت و حوصلہ کے ساتھ برداشت کر رہے تھے۔ دیگر رشتہ دار بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اور خاص بات یہ تھی کہ مہمانوں کی اکثریت نے 9 ذی الحجہ "یوم عرفہ” کا روزہ بھی رکھا ہوا تھا۔
اگلے روز عید الاضحیٰ تھی۔ اکثر مہمان عید اور قربانی کے لیے اپنے گھر واپس جا چکے تھے۔ گھر میں موجود اہل خانہ اور مہمانوں نے صاف ستھرے کپڑے پہنے، مرد حضرات عید کی نماز پڑھنے گئے اور پھر واپس آکر غم کے اس موقع پر بھی انہوں نے قربانی جیسی عظیم الشان سنت کو پہلے دن اول وقت میں سر انجام دیا۔ میرے تایا جان کے بڑے بیٹے کی عمر اس وقت تقریباً 18، 20 برس تھی۔ عصر حاضر کی یہ ایک روشن مثال ہے جس میں میرے لیے بہت سے سبق موجود ہیں ۔ ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔”
عفاف نے یہ واقعہ رباب اور ثانیہ کو سنایا تو وہ دنگ رہ گئیں۔
"ماشاءاللہ” رباب کے ہونٹوں سے بےساختہ پھسلا۔
"سبحان اللہ” ثانیہ نے بے اختیار کہا۔
"اصل بات یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کی شعوری اہمیت رکھتا ہو، قربانی کی سنت کی اہمیت اس کے دل ودماغ میں اجاگر ہو تو پھر انسان باپ کی ابدی جدائی کے صدمے اور غم والم کو بھی برداشت کرتے ہوئے ان فرائض و احکامات کو سر انجام دینے کی کوشش کر کے اللہ سبحانہ و تعالی کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔” عفاف نے اللہ کے احکامات کی اہمیت بیان کر تے ہوئے کہا۔
؎ رضائے حق پہ راضی رہ، یہ حرف آرزو کیسا
خدا خالق، خدا مالک، خدا کا حکم تو کیسا
رباب کے ہونٹوں سے بے اختیار دعا نکلی کہ "اللہ تعالیٰ ہمیں خوشی و غمی اور دکھ سکھ میں قرآن و سنت کے تمام فرائض پر احسن طریقے سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔” آ مین