عید الاضحیٰ کے لئے بکرے مویشی منڈی میں

عید الاضحیٰ : قربانی کا جانور ذبح کرنا بہتر ہے یا اس کی رقم غریبوں میں بانٹنا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن

“کعبہ کا طواف چھوڑ دو اور غریبوں کو تلاش کرو…”
“غریب کو روٹی کھلانا ایک ہزار نفل سے بہتر ہے…”

“قربانی کی قیمت ادا کرنا قربانی کا جانور ذبح کرنے سے بہتر ہے.”
” بھوکے انسان کے منہ میں نوالہ ڈالنا ، ایک ہزار مساجد کی تعمیر سے بہتر ہے.”

آپ نے بھی اس طرح کے میسیجز پڑھے ہوں گے.
عیدالاضحیٰ کی آمد قریب ہے، لوگ قربانی کے جانور ذوق وشوق سے خرید رہے ہیں، اسلام کے اس عظیم شعار قربانی کی تیاریوں کو دیکھ کر دین دشمن عناصر جو اس طرح کے پیغامات پھیلاتے ہیں، ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور شرعی حیثیت کیا ہے؟
اس حوالے سے چند سطریں لکھی ہیں، امید ہے ان سے قارئین کو درست نقطہ نظر تک پہنچنے میں مدد ملے گی. آخر تک پڑھیں، خوب شئیر بھی کریں.

1️⃣.غریب کو کھانا کھلانا، لباس فراہم کرنا، پانی پلانا، اس کی ضروریات کا انتظام کرنا ایک نیکی کا کام ہے. اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے. اسی طرح نماز پڑھنا، قربانی کرنا، حج ادا کرنا دین اسلام کی عظیم نیکیاں ہیں.
ایک نیکی کی ترویج وتشہیر کے لیے دوسری کسی نیکی کی تذلیل اور تحقیر صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو دوسری نیکی کا منکر ہو.

اگر کوئی شخص یہ کہے :
(ماں کو چھوڑو… باپ کی خدمت کرو…
یتیم کی بجائے ایک غریب کو روٹی کھلاؤ.
بیوہ عورت کی کفالت سے بہتر ہے ایک غریب سٹوڈنٹ کو کتابیں لے دو.
مسکین مریض کے علاج سے بہتر ہے کہ مظلوم کی مدد کرو…) تو ہمیں اس کے جملے عجیب سے لگیں گے… کیوں؟
اس لیے کہ وہ دو نیکیوں میں بلا وجہ موازنہ کرکے ایک کو چھوڑنے اور دوسری کو کرنے کی ترغیب دے رہا ہے.

2⃣بعینہ اسی طرح یہ کہنا
(غریب کو روٹی کھلانا ایک ہزار نفل سے بہتر ہے…
… قربانی کی قیمت ادا کرنا قربانی کا جانور ذبح کرنے سے بہتر ہے !!!!!!)
خواہ مخواہ ایک نیکی کی طرف داری ہے. اور دوسری نیکی کی بلاوجہ تحقیر،
آج کل سوشل میڈیا پر یہ فتنہ زوروں پر ہے، انسانی ہمدردی کی آڑ میں اسلامی شعائر اور عبادات کی توہین کی جاتی ہے. اور ہمارے سادہ لوح لوگ ایسے فتنہ پرور پیغامات کو بے سمجھی میں پھیلاتے جاتے ہیں.

(بعض خاص حالات اور مجبوریوں میں کسی نیکی کی خاطر، دوسری نیک سے محرومی برداشت کرنا ایک الگ استثنائی مسئلہ ہے، اسی طرح بعض احادیث میں بطور ترغیب کچھ نیکیوں کو دوسری نیکیوں سے افضل قرار دیا گیا ہے. ان کے سامنے سر تسلیم خم ہے. )
لیکن اس طرح ایک تحریک کے طور پر عبادات سے بے رغبتی پیدا کرنا اور غریب کی ہمدردی کا دم بھرنا ایک شیطانی وسوسہ ہے.

3⃣.طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس طرح کی پوسٹ اور ذہنیت کے لوگ بالعموم دیکھا گیا ہے کہ دونوں نیکیوں ہی سے محروم ہوتے ہیں، انہیں غریب سے محبت ہوتی ہے، نہ مسجد اور نماز سے الفت۔ بس انہیں نامعلوم کیوں دین اور دین والوں سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے اور بلاوجہ کی نفرت… جس کے اظہار کے لئے غریب کا کندھا استعمال کرتے ہیں. یعنی ان کا اصل مسئلہ حب علی نہیں بلکہ بغض معاویہ ہوتا ہے. (رضی اللہ عنہما اجمعین)

4⃣ اس کے برعکس نمازی حضرات ، حج وعمرہ کے شائقین ، عبادات کےساتھ ساتھ خیرات اور عطیات میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں. یہ دیندار لوگ رمضان المبارک میں افطاری کے دستر خوان لگاتے ہیں، عید الفطر کے موقع پر غریبوں کے گھر عید پیکیج پہنچاتے ہیں، اپنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور قربانی کے موقع پر اپنے مال سے جانور ذبح کرکے غریب کا پیٹ بھرنے کا انتظام کرتے ہیں، خود بھی کھاتے ہیں اور غریبوں کو کھلاتے ہیں.

بعض اصحاب خیر تو ایسے بھی ہیں جو چار چار پانچ پانچ قربانیاں خرید کر وسیع پیمانے پر فقرا میں تقسیم کرتے ہیں. بلکہ اس سال ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر عبیدالرحمن بشیر کی سرپرستی میں مسجد رحمۃ للعالمین، اسلام آباد کے احباب قربانی کے گوشت سے سات ہزار لوگوں کے لیے دستر خوان لگانے کا پروگرام رکھتے ہیں.

5⃣ایک اہم سوال یہ بھی ہےکہ ایسے پیغامات میں بالعموم سیکولر، لبرل، ملحدین، اور گمراہ قسم کے لوگ صرف اور صرف نماز، اعتکاف حج عمرہ ، قربانی ، شعائر اسلام اور مساجد کی تعمیر ہی کو نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ اور صرف انہی عبادات کا ہی آخر غریبوں کی ہمدردی سے موازنہ کیوں کرتے ہیں ؟؟؟

ایسے کیوں نہیں کہتے کہ ہفتے میں دو بار گوشت خریدنے کی بجائے، ماہ میں ایک بار خریدیں اور باقی ماندہ رقم بچا کر مستحقین میں تقسیم کریں.
برگر، شوارما، پیزا، اور کولڈ ڈرنک کی قربانی دے کر ان کی قیمت فقرا کی ضروریات میں لگائیں.

یہ کیوں نہیں کہتے: سگریٹ چھوڑ دو …اور یومیہ اس آگ سے بچنے والی رقم غریبوں کو ادا کرو ؟؟

ہاں ایسے کیوں نہیں کہتے: شادی ہال اور مہنگی شادیاں چھوڑ دو اوراس سے بچت کردہ رقم فقرا پر خرچ کرو ؟؟
غریب سے ہمدردی کے لیے یوں بھی تو تبلیغ ہوسکتی ہے نا! ریزورٹس اور پکنک چھوڑ کر غریبوں کی داد رسی کرو ؟؟

عیش و آرام ، گانے ، فلمیں ، میوزیکل کنسرٹس، فرسٹ ائیر نائٹس جیسی بیہودہ رسمیں چھوڑ کر ان تقریبات سے رقم بچا کر کسی غریب بیٹی کا سہارا بنو!
ہماری عرض بس اتنی سی ہے کہ ہمیں اپنی عبادات سے لطف اندوز ہونے دیں، قربانی جیسی عظیم عبادت کے خلاف اندر چھپی دین بیزاری اور بھڑاس نکالنے کے لیے غریب کی ہمدردی کا جھوٹا سہارا مت لیں…
ہم جانتے ہیں تمہارے قبیلے کے کچھ لوگ تو سیون سٹار ہوٹلز میں غربت مٹانے کی میٹنگز کرتے ہیں، اور غریبوں کے لئے آمدہ ڈونیشنز پر بھی شب خون مارتے ہیں.

6⃣ یہ بات بھی ہر ذی شعور تسلیم کرے گا کہ ہر کام کا ایک موقع ومحل ہوتا ہے اس موقع پر وہی کام جچتا ہے.
نماز کے اوقات میں نماز، ڈیوٹی کے اوقات میں ڈیوٹی، بعض خاص حالات میں خاص امور ہی اہم قرار پاتے ہیں. آپ کے سامنے ایک انسان ڈوب رہا ہو تو اس وقت سب سے بڑی نیکی اس کی جان بچانا ہے، نماز کا وقت ہو تو اس وقت سب سے بڑی نیکی نماز کی ادائیگی ہی ہے. بس اسی طرح عید الاضحٰی کے مبارک ایام میں اہم ترین نیکی جانور قربان کرنا ہے. یاد رکھیں

قربانی والے دن کوئی شخص اس عظیم یادگار کی تحقیر کرتے ہوئے، کروڑوں روپے بھی صدقہ کردے تو اسے قربانی کاثواب حاصل نہیں ہوسکتا، اگر کوئی سونے کا محل بھی غریبوں میں بانٹ دے اور اس عظیم شعیرہ اسلام سے جان بوجھ کر از راہ تحقیر وتوہین رو گردانی کرے تو وہ رب کے احکام اور تقسیم کار کا منکر ہے.

قربانی ایک مستقل عبادت ہے، ایک ایسی عبادت جس کا تذکرہ رب کریم نے نماز کے ساتھ ملا کر کیا،
اور فرمایا
فصل لربک وانحر. (سورۃ الکوثر: 2)
ترجمہ: ” اپنے رب کی خاطر نماز پڑھو اور قربانی کرو.”

قربانی کا جانور تو محض استعارہ ہے، اصل میں یہ پوری زندگی رب کے نام کردینے کا ایک معاہدہ ہے.
ترجمہ: “کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگار عالم کے لیے ہے ۔”(سورۃ الأنعام: 162)

قربانی کے جانور بھی جب اللہ کے نام پر وقف ہوجاتے ہیں تو یہ محض گوشت خوری نہیں ہوتی، بلکہ دین کی علامت بن جاتے ہیں، دیکھیے ذرا ان جانوروں کا خالق رب کریم اپنے قرآن مجید میں ان جانوروں کا تذکرہ کس قدر محبت سے کرتا ہے، ارشاد ہے.
ترجمہ:
” 1. اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے،

تمہارے لیے ان میں بڑی خیر ہے۔
3.سو ان پر اللہ کا نام لو، اس حال میں کہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں،
4.پھر جب ان کے پہلو گر پڑیں تو ان سے کچھ کھاؤ
5.اور قناعت کرنے والے کو کھلاؤ

اور مانگنے والے کو بھی۔
7.اسی طرح ہم نے انھیں تمہارے لیے مسخر کردیا، تاکہ تم شکر کرو.”(سورۃ الحج: 36)
اس آیت مبارکہ میں غور کرتے جائیں اور قربانی کی تحقیر کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرتے جائیں.

7⃣.قربانی جیسی عظیم عبادت میں روحانیت، خلوص، تاریخی یادگار، حکم الہی کی تعمیل، سنت کی برکات کے ساتھ ساتھ فقرا ومساکین کے ساتھ ہمدردی کی وہ شان پائی جاتی ہے کہ دین دشمن عناصر اس کا متبادل پیش کر ہی نہیں سکتے. کیونکہ قربانی ہے ہی، خیر، اس خیر کا ایک پہلو غریب پروری بھی ہے.

بالعموم قربانی کے جانور غریب لوگ پالتے ہیں، ان کو چارہ غریب ہی فراہم کرتے ہیں،منڈی میں لاکر بیچنے والے بھی غریب ہی ہوتے ہیں، ان کے ذبح کا اہتمام غریب قصاب کرتا ہے، ان کی لوڈنگ اور ٹریولنگ ایک غریب ڈرائیور کرتا ہے، کھالوں کو اتارنے کی مزدوری ایک غریب ہی کی جیب میں جاتی ہے، ٹینڈری اور دباغت سے بھی متوسط طبقے کے لوگ ہی وابستہ ہیں، غرضیکہ لاکھوں غریبوں کا روزگار قربانی جیسی عظیم عبادت سے جڑا ہوتا ہے. قربانی کے ایام میں بلا مبالغہ کروڑوں روپے کا بہاؤ ایک سادہ اور فطری طریقے سے غریب طبقے کی طرف ہوجاتا ہے.
اس لحاظ سے قربانی جیسی عظیم عبادت کو ترک کرنے کی ترغیب، دین دشمنی کے ساتھ ساتھ غریب دشمنی بھی ہے.

8️⃣سوشل میڈیا کے صارفین اس طرح کے میسیجز مزید فارورڈ نہ کیا کریں، بلکہ قربانی کی ترغیب ومسائل پر مشتمل آیات، احادیث، آثار ان ایام میں زیادہ سے زیادہ پھیلائیں تاکہ یہ عظیم سنت پوری آب وتاب سے ہمیشہ کی طرح جاری رہے اور دین دشمن عناصر اپنی موت آپ ہی مر جائیں.
(اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں، تاکہ ایک عظیم اسلامی شعار، خود سپردگی کی ایک عظیم نشانی، قربانی کے احیاء میں آپ کا حصہ بھی شامل ہوجائے.
جزاکم اللہ خیرا).


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں