ابونثر :
کل ایک ٹیلی وژن چینل پر ایک صاحب مسلسل بول رہے تھے۔ چینل کا نام بھی غالباً فیضؔ صاحب کے اِس مصرعے سے ماخوذ تھا :
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
مگر لب ہی نہیں، چینل کے چونچالوں نے بولتے بولتے اپنے دیگر اعضا بھی آزاد کرا لیے ہیں۔
آپ کہیں گے: ’’میاں تم نے یہ بھی خوب کہی کہ چینل والے صاحب مسلسل بول رہے تھے۔ ارے بھائی! چینل پر بولنے والوں کا تو کام ہی مسلسل بولنا ہے۔ مسلسل نہ بولیں تو انھیں بولنے پر ملازم رکھنے والے بَولا جائیں‘‘۔
مگرحضرت! بات یہ ہے کہ وہ حضرت بار بار اس قسم کے فقرے بول رہے تھے کہ ’’میں نے اُس کو بولا… پھر اُس نے مجھ کو بولا…‘‘یوں محسوس ہورہا تھا جیسے بیچ میں کہیں ’حاجی‘ اور ’پاجی‘ کا لفظ بولے جانے سے رہ گیا ہے۔ موصوف اپنی نجی محاذ آرائی کی تفصیل دنیا بھر کو سُنا رہے تھے۔ یہ بھی غلط بات تھی۔ مگر بات بتانے کا درست طریقہ یہ تھا کہ وہ کہتے: ’’میں نے اُن سے کہا…پھر اُنھوں نے مجھ سے کہا…‘‘ یوں کہتے کہتے ساری کہانی کہہ جاتے۔ کہنے اور بولنے میں بڑا فرق ہے۔ بولتے تو جانور بھی ہیں، مگر کہتا صرف انسان ہے۔
بول، اصلاً قول کو کہتے ہیں۔ دو دلوں میں شرعی قول و قرار کروانے کے لیے شرعاً دو بول پڑھوا دیے جاتے ہیں۔ یہ دو بول یقیناً ’’قبول ہے‘‘ ہی ہوں گے۔ کسی کی بات اونچی ہوجائے، عزت و آبرو میں اضافہ ہو اور شان بڑھ جائے تواُس کا ’بول بالا‘ ہوجاتا ہے۔ گیت کے ٹکڑے کو بھی بول کہتے ہیں۔ پرندوں اور دیگر جانوروں کے آواز نکالنے کو، یا بے جان اور بے زبان چیزوں کے اظہار کو بھی ’بولنا‘کہتے ہیں، مثلاً ’تصویر بول رہی ہے‘۔ یا ’خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا‘۔ امیرؔ مینائی کہتے ہیں (یہاں یہ نہ کہہ دیجیے گا کہ امیرؔ مینائی بولتے ہیں):
امیرؔ اس ناز سے ظالم نے دیکھا
نگاہیں بول اُٹھیں وہ لے گیا دل
بات چیت کو’بول چال‘ کہتے ہیں، جو دوستوں کے درمیان اکثر بند ہوجاتی ہے۔ کیفؔ نے یہ کیفیت یوں بیان کی ہے:
کسی نے باغ میں ایسا شگوفہ چھوڑا ہے
کہ آج تک گُل و بلبل سے بول چال نہیں
منہ سے کوئی لفظ نکالنا مراد ہو تو اسے بھی بولنا کہتے ہیں۔ جونؔ ایلیا اپنے دوستوں کو زبان میں آبلے پڑ جانے کا طعنہ دے کر یہ پوچھتے پوچھتے رخصت ہی ہوگئے کہ ’’بولتے کیوں نہیں مرے حق میں؟‘‘شاید اُن کے حق میں بولنا دوستوں نے خطرے سے خالی نہ سمجھا ہو۔
اگر ’ب‘ پر زبر کے ساتھ بول بولا جائے تو اِس کا مطلب پیشاب ہوتا ہے۔ املا کی اِس یکسانیت سے ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر محمد محسن نے خوب فائدہ اُٹھایا۔آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ جب کسی پیشے میں کوئی شخص نووارد ہو تو پُرانے پاپی اُس کو سمجھانا بجھانا اپنا فرضِ بزرگی جانتے ہیں۔ تازہ واردان کا ہر جگہ یہی حال ہوتا ہے: ’کی جس سے بات اُس نے ’’نصیحت‘‘ ضرور کی‘۔ چناں چہ ڈاکٹر محمد محسن، جو پرانے ایم بی بی ایس اور ایم سی پی ایس ڈاکٹر ہیں، اپنی کتاب ’’اے دوست‘‘ میں نیا نیا ڈاکٹر بننے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے تنبیہ فرماتے ہیں:
’’…ہاں بچوں کا معائنہ کرتے وقت ایک بات کا خیال رکھنا۔ بچے بول و براز پر اختیار نہیں رکھتے۔ ننگے بچے کا پیٹ زیادہ زور سے نہ دبانا، ورنہ اس کا بول بالا ہوکر تمھارے چہرے تک پہنچ سکتا ہے‘‘۔
کہنے کا لفظ ہندی مصدرکَہَن سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے طرزِ گفتار، بات کرنے کا ڈھنگ۔ بہت سے لوگ بڑے بے ڈھنگے طریقے سے بات کرتے ہیں۔ مولوی نورالحسن نیرؔ مرحوم نے ایک شعر میرؔ سے منسوب کیا ہے، جس سے پتا چلا کہ میرؔ کا محبوب بھی ایسا ہی تھا:
کچھ نہ سمجھی گئی کَہَن اُن کی
اب جدائی جو ہے کٹھن اُن کی
’کہنا‘ کا مطلب ہے بات کرنا، بیان کرنا، ذکر کرنا، خبر دینا، آگاہ کرنا۔ سو،یہ بات آپ سے کہتے چلیں کہ شعر بھی کہا جاتا ہے، بنایا نہیں جاتا۔بعض اوقات صرف ’کہنا‘ بھی شعر کہنے کے معنوں میں لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً کلامِ میرؔ اورکلامِ میرزاؔ کو سمجھ لینے کا دعویٰ کرنے والوں نے غالبؔ سے کہا : ’’مگر اپنا کہا تم آپ سمجھے یا خدا سمجھے‘‘… اور مثلاً مصحفیؔ نے کہا :
اے مصحفیؔ بعضے مرے کہنے کے ہیں قائل
بعضوں کا مقولہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
’شعربنانے‘ پر ہمارے شہر اسلام آباد کے ایک نوجوان شاعر کے دو دلچسپ اشعار پڑھ لیجیے۔ بھلا سا نام تھا،بھول گیا، اشعار یاد رہ گئے۔ اشعار زیادہ بھلے نکلے:
پہلے تو شعر بنانا بھی بہت مشکل تھا
پہلے شعروں کے بھی اوزان ہوا کرتے تھے
ہم نے پولیس بہت بعد میں جائن کی ہے
پہلے ہم صاحبِ ایمان ہوا کرتے تھے
نام رکھنے کے معنوں میں بھی ’کہنا‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے بزرگ شاعر افتخار عارف صاحب فرنگی محل (لکھنؤ) کے قرب و جوار میں پیدا ہوئے، لہٰذا وہ اپنا تعارُف یوں کرایا کرتے ہیں: ’’مجھ فقیر کو افتخار حسین عارف کہتے ہیں‘‘۔ یہی صاحب اگر چوپاٹی (ممبئی) یا چاکیواڑہ (کراچی) کے’آجُو باجُو‘ پیدا ہوئے ہوتے تو شاید اپنے آپ کو یوں متعارف کرواتے: ’’میرے کو افتخار عارف بولتے ہیں‘‘۔
ہمارے ذرائع ابلاغ پرجہاں پہلے افتخار عارف، عبیداللہ بیگ، قریش پور اور ضیاء محی الدین کا طوطی بولتا تھا، اب وہاں بھانت بھانت کے لوگ بولتے ہیں۔ ’کہتے‘کچھ نہیں، بس ’بولے‘ چلے جاتے ہیں۔ مگر اُن کے بولنے پر اگر’ہم بولے گا تو بولوگے کہ بولتا ہے‘۔
’کہنے‘ اور ’بولنے ‘پر جون ایلیا مرحوم نے (مرنے سے پہلے) ایک دلچسپ نثر پارہ تحریر کیا۔ عنوان ہے: ’پورا سچ‘۔ اُن کی طویل تحریر سے یہ چند مختصر اقتباسات آپ کو ضرور کچھ نہ کچھ بولنے پر مجبور کردیں گے :
’’میں کیا کہتا ہوں؟ میں تو کچھ بھی نہیں کہتا اور کہنے والا کہہ بھی کیا سکتا ہے؟ کَہیں تو وہ کَہیں جو کچھ بھی نہ کہہ سکتے ہوں اور بولیں تو وہ بولیں جو کچھ بھی نہ بول سکتے ہوں۔ ہاں کہنا اُنھی کو سجتا ہے جو کہنا چاہیں تو کپکپانے لگیں اور بولنا چاہیں تو بولا جائیں‘‘۔
’’بولنے والے نے کوئی ایسا بول نہیں بولا جو اُس کے سوا کسی اور نے سمجھا ہو، اور سننے والے نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جو کہنے والے نے اپنے سوا کسی اور کو سنانی چاہی ہو۔ میں تو اب تک یہی جان پایا اور میری سمجھ میں تو بس یہی آیا۔ کہنے والے کہتے نہیں تھکتے اور سننے والے سنتے نہیں تھکتے۔ پر ہے یوں کہ نہ کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور نہ کوئی کچھ سن رہا ہے۔ ہاں کَہن اور کان میں کوئی جان پہچان نہیں ہے‘‘۔
’’سو میں کہتا ہوں کہ مت بول اور چپ رہ۔ سنا؟ میں نے کیا کہا؟ مت بول اور چپ رہ۔ لفظوں کو دانتوں سے چبا کر تھوک ڈال اور آوازوں کو ہونٹوں سے نوچ کر پھینک دے۔ لفظوں کو دانتوں سے چبا کر تھوک ڈالوں؟ اور آوازوں کو ہونٹوں سے نوچ کر پھینک دوں؟ نہ بولوں اور چپ رہوں؟ میں چپ ہوجاؤں گا تو میری سانسیں سڑ نہ جائیں گی؟ یہ کیسا ہونا ہوا؟ یہ تو بڑا ہی جان لیوا ہونا ہوا، یہ تو نہ ہونا ہوا‘‘۔