ملا عبدالغنی برادر ، نریندر مودی

نریندر مودی حکومت کے افغان طالبان اور جنگجو ملیشیائوں سے رابطے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پیامبر/ قادر خان یوسف زئی

انسداد دہشت گردی اور تنازعات کے حل کے لیے ثالثی سے متعلق قطر کے خصوصی ایلچی مطلق بن ماجد القحطانی نے ویب کانفرنس کے دوران کہا کہ”بھارت کے وفد نے خاموشی کے ساتھ قطر کا دورہ کیا،جس کا مقصد دوحہ میں موجود (افغان) طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کرنا تھا“۔

بھارت،افغان طالبان قیادت سے رابطے کی متعدد کوشش کرچکا، تاہم ملاقاتوں کے حوالے سے باقاعدہ تصدیق فریقین کی جانب سے نہیں کی گئی، زلمے خلیل زاد نے بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت کو افغان طالبان سے براہ راست رابطہ کرنا چاہیے‘ یہ پہلا موقع تھا جب کسی امریکی اہلکار نے بات چیت کی باقاعدہ پیشکش کی ، ماسکو کانفرنس میں بھارتی وفد نے بھی شرکت کی تو دوحہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ ایس کے جے شنکر بھی شریک ہوئے۔

صدر جو بائیڈن نے استنبول پراسس کانفرنس میں بھارت کا نام شامل کروایا،سابق صدر ٹرمپ نے بھارت کو افغانستان میں فوجی کردار کے لئے کہا، ستمبر2017 میں بھارتی وزیر دفاع نرمالا سیتھارامن نے امریکی ہم منصب جیمز میٹس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کسی صورت میں اپنی فوج کو افغانستان نہیں بھیجے گا البتہ افغان فورسز کی تربیت جاری رکھے گا۔

افغان طالبان نے ایک موقع پر بھارت کو اپنے ایک بیان میں انتباہ بھی جاری کیا تھا کہ وہ ( را ایجنسی ) اور این ڈی ایس نہتے افغان عوام پر حملوں سے باز آجائے، خیال رہے کہ بھارت روز اوّل سے ہی کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان کے خلاف جارحانہ کاروائیوں میں شامل رہا ہے۔

افغانستان میں بدلتی صورت حال کے بعد واضح ہونے لگا ہے کہ امریکہ و نیٹوانخلا کے بعد افغان طالبان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جلد یا بدیر وہ اپنی سرزمین پر دیگر گروہوں کے مقابلے میں مضبوط و سرگرم قوت بن کر ایک بڑے حصے پر حکمراں ہوسکتے ہیں، امریکہ نے افغان امن عمل کے لئے اسٹیئرنگ بھارت کو دینے کی کوشش کی تھی، لیکن بھارت جانتا تھا کہ اُس کے تعلقات افغان طالبان مخالف دھڑوں و انتظامیہ سے ہیں ،

دوسری طرف یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ افغان حکمراں، مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لئے ہندو انتہا پسند حکومت کے خلاف افغان بادشاہوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت پر دوبارہ حملہ آور نہ ہو جائیں، انہیں دور جدید کے نئے محمود غزنوی ، علاؤ الدین خلجی، شیر شاہ سوری اور شہاب الدین غوری سے خوف لاحق ہے، اس لئے بھارت ، افغان طالبان سے روابط بڑھانے کے لئے بیک ڈور ڈوپلومیسی کا استعمال کر رہا ہے، لیکن دوسری جانب امن مخالف قوتوں کو بھاری فنڈنگ و سازشوں میں بھی مصروف ہے،

ہندو انتہا پسند مودی سرکار کو عالمی ذرائع ابلاغ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیر محمد عباس ستانکزئی متنبہ کرتے ہوئے کہہ چکے کہ”انڈیا اگر اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں“،لیکن ہندو انتہا پسند حکومت کی روش بتاتی ہے کہ وہ سیکڑوں برس سے پرورش کرنے والی آر ایس ایس کی ہندو انتہا پسندسوچ و مذموم مقاصد میں تبدیلی پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

پاکستان کے وزیراعظم عمرا ن خان نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں دو ٹوک موقف کا اظہار کرتے ہوئے، امریکہ پر واضح کردیا کہ اُس کی دہری پالیسی اب پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں، ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر لنزے گراہم کا حالیہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس میں انہوں نے صدر بائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حیرت ہے کہ ابھی تک امریکی صدر نے وزیراعظم سے پاک۔امریکہ تعلقات پر رابطہ نہیں کیا، امریکی سینیٹر نے پاکستان سے رابطہ کئے بغیر افغانستان سے انخلا کو عراق میں امریکی آپریشن سے بڑی غلطی بھی قرار دیا۔

واضح رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کا 60 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا اور بھاری سامان لے جانے والا کارگو ہوائی جہاز انتونو این 225 افغانستان کے دارالحکومت کابل سے مزید بھاری جنگی سازو سامان لے کر افغانستان سے روانہ ہوچکا۔ آن لائن کانفرنس ”امریکہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن کی صورت حال“ کے عنوان سے واشنگٹن میں ’عرب سینیٹر‘ اور ’سینیٹر فار کنفلٹ اینڈ ہیومینٹرین اسٹڈیز‘ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی، امریکی صدر کا وزیر اعظم عمران خان کو دورے کی دعوت نہ دینے پر ضروری ہوگیا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے لایا جائے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء جلد ہی مکمل ہوجائے گا لیکن امریکہ کا مسئلے کو ادھورا چھوڑ کر جانا، خطے کے دیگر ممالک کے لئے شدید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے انخلا سے قبل مسلح جنگجو ملیشیاؤں نے خانہ جنگی کی تیاریاں شروع کردی ہیں، ذرائع کے مطابق بھارت نے افغان طالبان مخالف جنگجو گروپوں سے رابطے بڑھا دیئے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت یہ رابطے امریکی خواہش پر بڑھا رہا ہے، افغانستان میں بھارت کے منفی کردار پر پاکستان پہلے بھی تحفظات کا اظہار کرچکا ہے، خطے میں قیام امن کی کوششوں کے جواب میں ایک مرتبہ پھر ملک کو دہشت گردی کے عفریت کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،

گزشتہ دنوں جوہر ٹاؤن لاہور میں دہشت گرد ی کا افسوس ناک واقعہ، وزیراعظم کا بیان، بھارت کے جنگجوؤں سے رابطے اور امریکی صدر کی جانب سے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ نہ کرنے سے جوڑا جائے، تو عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھل کر سامنے آتا ہے ، پاکستان پر بدترین دباؤ ڈالا جارہا ہے تاکہ ان کے ناجائز مطالبات کو من و عن مانا جائے، وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ جب ’امریکہ افغانستان میں 20برس رہنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکا تو ایک دو فضائی اڈوں سے کیونکر کامیاب ہوسکتا ہے‘، لہذا سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکی مقصد امن کا قیام نہیں بلکہ انتشار و خلفشار پیدا کرنا ہے۔

ریاستی اداروں کو ملک دشمن عناصر کی مذموم کاروائیوں پر مزید گہری نظر رکھنا ہوگی۔ انتہا پسند نہیں چاہتے کہ پاکستان و افغانستان میں امن ہو، کیونکہ امن ہی معیشت کو مضبوط کرتا ہے، اگر بد امنی کا بھیانک دور واپس آئے گا تو بدحال معیشت کو تباہی اور ابتر ہونے سے بچانا مزید مشکل ہوجائے گا۔ بھارت کے افغانستان میں موجود امن مخالف جنگجو ملیشیا گروپوں سے رابطے و فنڈنگ کرنا تشویش ناک ہے، افغان طالبان سے توقع ہے کہ وہ عیار و مسلم دشمن ممالک و عناصر کی سازشوں سے ہوشیار اور مکار دشمنوں پر اعتماد سے گریز کریں گے۔ کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں