افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان وزرائے دفاع، داخلہ اور آرمی چیف کو تبدیل کر دیا ہے جس کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ آخر ان اہم عہدوں پر موجود وزرا اور فوجی سربراہ کو ہٹانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں حالیہ دنوں میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کی لڑائی میں شدت اور طالبان کی مبینہ پیش قدمی کے باعث افغان صدر نے یہ فیصلہ کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے افغان صدر نے طالبان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنگ اور بات چیت دونوں کے لیے تیار ہیں۔
افغان صدر کی جانب سے کابینہ میں تبدیلیوں کے بعد اسد اللہ خالد کی جگہ بسم اللہ خان محمدی کو قائم مقام وزیرِ دفاع تعینات کردیا گیا جب کہ حیات اللہ حیات کی جگہ عبدالستار مرزا خوال نئے وزیر داخلہ ہوں گے۔ صدارتی محل کی جانب سے کہا گیا کہ جنرل ولی محمد نئے آرمی چیف ہوں گے۔ انہیں جنرل یاسین ضیا کی جگہ تعینات کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اگرچہ دوحہ میں بات چیت کا عمل جاری ہے تاہم اس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی جب کہ حالیہ عرصے میں افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کی لڑائی میں بھی شدت آ رہی ہے۔
کاردان یونیورسٹی کابل کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ اور سیکیورٹی اُمور کے ماہر فہیم سادات کا کہنا ہے کہ حالیہ تبدیلی کے دو عوامل ہو سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ دفاع 2018 میں ایک خود کش میں زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد ان کی صحت شدید متاثر ہوئی تھی۔ وہ زیادہ تر اپنے علاج معالجے کے سلسلے میں ملک سے باہر ہوتے تھے اور جب کبھی افغانستان میں ہوتے بھی تھے تو بھی ان کو صحت کے مسائل کا سامنا رہتا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فہیم سادات نے مزید بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں شدت پسندی کی کارروائیاں عروج پر ہوں اور مخالف فریق اپنی کامیابی کے دعوے کر رہا ہو تو ایسے میں ایک متحرک اور فعال وزیرِ دفاع کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ لہذٰا اشرف غنی نے انہی عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ وزارت بسم اللہ محمدی کے حوالے کر دی ہے۔
طالبان کی پیش قدمی تبدیلی کی وجہ؟
سیکیورٹی امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی چاہتے ہیں کہ نوجوان قیادت کو سامنے لایا جائے۔ ایسی قیادت جو امریکی اور نیٹو افواج کی جانب سے تربیت یافتہ ہو۔ وہ جدید ٹیکنالوجی سے آشنا ہوں اور ملک کے دفاع میں فعال کردار ادا کر سکتے ہوں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 34 میں سے 28 صوبوں میں افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کے ساتھ لڑ رہی ہیں جب کہ طالبان کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں مزید علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران طالبان نے 70 اضلاع کا کنٹرول حاصل کیا ہے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی انہوں نے متعدد علاقے اپنے کنٹرول میں لیے تھے اس طرح کل ملا کر 131 اضلاع پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔
فہیم سادات کا کہنا تھا کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی نے حکومت کو یہ احساس دلانے پر مجبور کیا ہے کہ ان کی موجودہ حکمتِ عملی کامیاب نہیں تھی اور انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ کہیں فوج انتشار کا شکار نہ ہو جائے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت امریکی اور نیٹو افواج کی تمام تر توجہ انخلا پر ہے جس کے باعث ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا طالبان بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور افغانستان کے شمال میں اُنہوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ لہذٰا صدر غنی چاہتے ہیں کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکا جائے۔
گزشتہ برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت امریکی اور اتحادی افواج کو افغانستان سے یکم مئی تک انخلا مکمل کرنا تھا۔ تاہم نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے انخلا کی نئی تاریخ 11 ستمبر تک بڑھا دی ہے ۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر 11 ستمبر سے قبل طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے نہیں پاتا تو افغانستان کی سیکیورٹی کی صورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
‘طالبان حکومت کا تختہ نہیں اُلٹ سکتے’
افغان فوج کے سابق جنرل اور وزراتِ دفاع کے ترجمان جنرل (ر) دولت وزیری کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان میں اس وقت شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور دونوں طرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طاقت کے بل بوتے پر کابل کو فتح نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مخالفین صوبوں اور اضلاع کا گھیراؤ کر سکتے ہیں لیکن حکومت کا تختہ طاقت کے بل بوتے پر نہیں الٹا سکتے ہیں کیوں کہ حکومت کو امریکہ، نیٹو اور دوست ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
سیکورٹی امور کے ماہر، فہیم سادات، جنرل دولت وزیرے سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان سے جا رہے ہیں تاہم وہ مستقبل میں افغانستان کی مدد جاری رکھیں گے۔ کیوں کہ اگر ان کے جانے کے بعد افغانستان میں انتشار پھیلتا ہے تو یہ عالمی سطح پر ان کی ناکامی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ لہذٰا امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ افغانستان شدت پسندی کا گڑھ بنے۔ ( بشکریہ وائس آف امریکا )