شمس الدین امجد :
تان وہیں آ کر ٹوٹی ہے اور بات گھوم پھر کر وہیں آ پہنچی ہےکہ ”گھٹن” بہت ہے۔
اس وجہ سے مدرسہ کیا اور استاد اور طالب علم کیاکچھ محفوظ نہ رہا، بلکہ مقدس رشتے تک پامال ہو رہے ہیں۔
اور ہمیشہ کی طرح اس ”گھٹن” کی بنیادی وجہ مذہب بتائی گئی ہے، پھر معاشرت کا نمبر آتا ہے۔ وہی پرانا ایجنڈا کہ مذہب و معاشرت سے نجات ملے تو منزل تک پہنچنے میں آسانی ہو، وہی پرانی، وہی جسم کی منزل۔
اور کیا طرفہ تماشہ ہے کہ جنسیت سے آزادی کا نسخہ جنسیت کے لیے کھلی ”آزادی” بہم پہنچانا ہے، جی وہی مادر پدر آزادی۔ گھٹن نہ ہوگی اور عورت/جنس تک رسائی ہوگی تو یہ ”ٹوٹ پڑنے” یا ”نوچ” کھانے کے جذبہ حیوانیت کی اصلاح ہو جائے گی۔ یعنی اگر کہیں ایک حیوان چھپا بیٹھا ہے، تو اس کے خاتمے کی صورت یہی ہے کہ پورے معاشرے کو حیوان بنا دیا جائے۔ عجیب نسخہ فروش ہیں، جن سے اس قوم کا پالا پڑا ہے۔۔
مگر ذرا رکیےیہ اتائی جو نسخہ آدھا پونا سمجھ کر یہاں بیچنا چاہتے ہیں، مغرب میں تو یہ دھڑا دھڑا فروخت ہو چکا ہے، ایسے کہ مذہب، خاندان، رشتے ناتے، سب عین اسی نہج پر ہیں جسے ہمارے ہاں کا اتائی طبقہ اکسیر سمجھتا ہے اور زور دے رہا ہے کہ نجات اسی میں ہے کہ آنکھیں بند کرکے اسے اپنے اندر اتار لیا جائے۔ ۔
مذہب کو بیچ سے ہٹانا راہ نجات ہے، اور پابندیاں ختم کرکے ”گھٹن” دور ہو سکتی ہے اور ہوس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، تو مغرب نے تو یہ کرکے دیکھ لیا ہے، اور اس کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا ہوا ہے تو وہاں اس کا نتیجہ کیا یہ نکلا ہے کہ ”بھوک” ختم ہو گئی ہے؟ منہ مارنے کی اتنی آزادی ہے تو کیا کوئی کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا؟ چلو باہر قابو میں نہ رہے، تو کیا مقدس رشتے بچے ہوئے ہیں؟
مغربی ذرائع ابلاغ کے اپنے اعداد و شمار تو یہ بتاتے ہیں کہ اس کے باوجود بھوک کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے، نفس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے، بات ہم جنس پرستی اور مقدس رشتوں سے آگے بڑھتے ہوئے جانوروں تک جا پہنچی ہے، اور گھوڑوں گدھوں اور کتوں تک سے بھی شادیاں رچائی جا رہی ہیں۔۔
ابھی چند دن پہلے ہی بی بی سی نے برطانیہ میں سکولوں کے نگراں ادارے اوفسٹیڈ کی تحقیق شائع کی ہے، جس کے مطابق ہر 10 میں سے نو لڑکیوں کو سکولوں میں جنسی تعصب کا سامنا ہے۔ انھیں برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بھیجی جاتی ہیں، جنسی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کچھ لڑکیوں سے ایک رات میں 11 لڑکے بھی برہنہ تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں، (جی! ایک رات میں ایک لڑکی سے 11 لڑکے مطالبہ کرتے ہیں)۔
اس سے آگے دل تھام کر پڑھنے والی بات یہ ہے کہ ایسے تقریباً 2000 کیسز میں متاثرہ اور ملزم دونوں ہی 10 سال یا اس سے کم عمر کے تھے۔ آپ ذرا ملاحظہ کریں کہ جو نسخہ ہمیں اکسیر کہہ کر ہاتھ میں پکڑایا جا رہا ہے، اس کے اثرات سے 10 سال سے کم عمر کے لڑکے لڑکیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق 2018ء سے 2020ء کے درمیان برطانیہ میں 18 سال سے کم عمر افراد کے کم از کم 13 ہزار جنسی جرائم کی اطلاع پولیس کو دی گئی ہے۔ تو گویا یہ وہ حل ہے جو تجویز کیا جا رہا ہے۔ اور یہ وہ آزادی ہے جس کا پرچار ہو رہا ہے۔رپورٹ کا لنک:
https://www.bbc.com/urdu/world-57436456۔
ڈی ڈبلیو پر ایک مضمون شائع ہوا ہے، اور اسی ڈی ڈبلیو کی رپورٹ ہے کہ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ریپ کلچر بڑھ رہا ہے۔ اور یہ وہاں ہو رہا ہے جہاں رضامندی سے ہونا قانونی بھی ہے اور کلچر بھی۔ گھٹن دور تک نہیں ہے، شاید گھٹن نامی چیز سے سرے سے واقفیت ہی نہ ہو، ہر طرح کی آزادی میسر ہے، تو پھر اس سب کی موجودگی میں ریپ کلچر بڑھنا چہ معنی دارد؟
وارک یونیورسٹی میں کچھ طالبات نے کیمپس میں ہی احتجاجی کیمپ لگایا ہے۔ آن لائن تقریبا 16 ہزار لڑکیوں نے گواہی دی ہے، کتنی بھلا؟ جی 16 ہزار، اور 44369 لڑکیاں اس آن لائن کمیونٹی میں شامل ہوئی ہیں۔ اور یہ تو صرف برطانیہ کے اعدادوشمار ہیں۔ باقی
مغربی ممالک اور امریکہ پر نظر دوڑا لیں تو سانس لینا شاید دشوار ہو جائے۔رپورٹ کا لنک
https://www.facebook.com/watch/?v=149928877091492۔
2014 ء میں یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کے سروے نتائج کے مطابق یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ یہ تعداد چھ کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یہ اس موضوع پر لیا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا جائزہ ہے۔
رواروی میں آپ نے اعداد و شمار پڑھ لیے ہوں گے اور گزر رہے ہوں گے، مگر ذرا رکیے اور پھر پڑھیے گا کہ یہ کل آبادی کی ایک تہائی خواتین کی بات ہو رہی ہے، جی ہاں ایک تہائی، مبلغ 6 کروڑ 20 لاکھ، اور عمر کتنی بتائی گئی ہے، جی ہاں! صرف 15 سال، اور یہ وہاں ہو رہا ہے جہاں شراب، شباب، کباب سب ارزاں ہیں۔ اور یہ پہلو بھی ذہن میں رہے کہ ایک تہائی تو وہ ہیں جو زبردستی نشانہ بنتی ہیں، باہمی رضامندی والے اعداد و شمار کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/…/03/140305_eu_women_violence_report_zs۔
امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ سروے کے مطابق 12 ماہ کے عرصے کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔
ایک اور سروے کے مطابق ہر 5 میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق یونیورسٹی کی تعلیم دوران بھی ہر 5 میں سے ایک طالبہ جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ایک بات دلچسپ ہے اور جس کا پاکستان کے تناظر میں شکوہ کیا جاتا ہے کہ خوف کے ماحول کی وجہ سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے مگر یہ بات امریکہ کی ہے اور رپورٹ کے مطابق اب بھی جنسی تشدد کے واقعات کو وہاں بہت کم رپورٹ کیا جاتا ہے۔
کالج اور یونیورسٹی میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی صرف 12 فیصد خواتین کا مقدمہ پولیس تک پہنچ پاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 7 میں سے 1 مرد بھی اپنے ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ اور 25 فیصد مردوں کو تو 10 سال سے کم کی عمر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/…/world/2011/12/111215_us_women_rape_tk۔
سنہ 2006 سے امریکی فوج میں جنسی جرائم میں 30 فیصد اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2003ء میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سے انٹرویو پر مبنی سروے میں انکشاف کیا گیا کہ 500 میں سے کوئی 30 فیصد عورتوں کا دوران ملازمت ریپ ہوا۔ جی ریپ ہوا، رضامندی والا معاملہ تو الگ رہا۔
وزارتِ دفاع کے سال 2009ء میں ہونے والے سروے کے مطابق فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی 90 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ جی یہ 90 فیصد واقعات رپورٹ نہ ہونے کی بات امریکہ سے متعلق ہے، پاکستان کی نہیں۔ رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/…/2010/02/100218_usmilitary_sex_mah
میں برطانوی خیراتی ادارے چائلڈ لائن کے مطابق ان کے پاس ایسی شکایات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جن میں بچوں نے خواتین کو2009 جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ چائلڈ لائن کے مطابق 2004ء سے 2009ء کے درمیان موصول ہونے والی ایسی شکایات کی تعداد میں مردوں کی جانب سے بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے مقابلے میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2008ء میں 16 ہزار سے زائد بچوں نے ادارے کی ہیلپ لائن پر فون کیا، ان میں سے 2 ہزار 142 نے کسی خاتون کو اس عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور یہ تعداد سنہ 2004ء کے مقابلے میں 132 فیصد زیادہ ہے۔
ملاحظہ کیجیے گا کہ ایسی آزادی ملی ہے کہ مرد ایک طرف خواتین بھی بچوں کو اپنی مشق ستم کا نشانہ بناتی ہیں۔ 2013 میں آکسفورڈ میں ایک جنسی سیکنڈل منظر عام پر آیا اور انکشاف ہوا کہ شہر میں سرگرم جنسی گروہ نے 16 برس میں کم از کم 273 لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا۔رپورٹ کا لنک۔
http://www.bbc.com/…/2009/11/091109_child_abuse_women_zs
اور برطانیہ سے متعلق یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ کام پر جانے والی نصف خواتین کو جنسی طور پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں جہاں خواتین مردوں کی طرح ہی کام کرتی ہیں، یہ تعداد لگ بھگ کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ رپورٹ کا لنک
https://www.bbc.com/news/uk-37025554۔
2014 ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق دنیا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پانچ بڑے ممالک جنوبی افریقہ، انڈیا، زمبابوے، برطانیہ اور امریکہ ہیں۔ کینیڈا میں، یورپ اور امریکہ میں چرچ اور پادری بھی پیچھے نہیں ہیں۔رپورٹ کا لنک
http://www.ibtimes.co.uk/child-sexual-abuse-top-5…۔
یہ بات کہ پاکستانی معاشرہ اس طرح کے واقعات کی مذمت میں ناکام ہے مگر امریکہ کی کہانی بھی یہی ہے۔ سابق صدر اوباما نے اپنے دور صدارت میں سٹینفورڈ یونیورسٹی میں نشے میں مدہوش طالبہ کا ریپ ہونے پر کہا تھا کہ کیمپسز کے اندر کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا دراصل انسانیت کی توہین ہے، اور امریکہ معاشرہ اب بھی جنسی زیادتی کی اتنی شدت سے مذمت نہیں کرتا جتنی کرنی چاہیے۔ وجہ اس کی ایک اور رپورٹ میں بیان کی گئی ہے۔
امریکی وزارتِ دفاع کے جنسی حملوں سے روک تھام کی شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے وائیٹ لی کا کہنا ہے کہ کسی بھی عورت کے لیے ریپ رپورٹ کرنا انسانی اور جذباتی سطح پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ مطلب انسانی و جذباتی سطح یکساں ہوتی ہے اور اس میں امریکہ و پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بنیادی طور یہ بھی شرم والا معاملہ ہی ہے جسے سیکولر لابی کی طرف سے طعن و تشنیع میں اڑا دیا جاتا ہے۔ ۔
بتایا جاتا ہے کہ آزادی میسر ہو تو پھر عورت کو کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا، مگر یہ رپورٹس تو کچھ اور کہانی سنا رہی ہیں، اور یہ سب وہاں ہو رہا ہے، جہاں اس سب کچھ کی پہلے ہی آزادی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اکا دکا واقعات کی وجہ اگر معاشرتی جکڑبندی اور مذہبی گھٹن ہے تو یہ امریکہ و برطانیہ اور یورپی یونین میں ایسا کیوں ہے جہاں اس سب کی آزادی ہے۔۔
معاملہ سنگین ہے، غدر سا مچا ہوا ہے، اور حیرت انگیز طور پر ان کی آواز کچھ زیادہ اونچی ہے جن کے نزدیک زنا ذاتی فعل ہے، ایل جی بی ٹی حقوق کے لیے جو امریکی سفارتخانے کا طواف کرتے پائے جاتے ہیں، کچھ نے اس کے حق میں صفحات کالے کر رکھے ہیں۔ مذہبی طبقہ چونکہ دباؤ کا شکار ہے، سو فی الحال سر ریت میں دینے کے سوا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ اس صورت میں اتائیوں کے لیے کھلی چھٹی ہے کہ زہر کو امرت دھارا قرار دے کر اپنا ایجنڈا آگے بڑھائیں، اور کوئی بعید نہیں کہ ”گھٹن” سے تنگ آئے لوگ خریداری کو ٹوٹ ہی پڑیں۔۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ مفتی عزیز سے جو قبیح فعل سرزد ہوا ہے، قانون کے مطابق اس پر مقدمہ چلنا چاہیے، اور سزا ملنی چاہیے۔ مدارس میں ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ان کا ازالہ ہونا چاہیے۔ اور صرف مدارس ہی نہیں، سکول کالجز اور یونیورسٹیز سے لے کر کام کے اداروں تک، ہر جگہ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں، ان سب کے ازالے کے لیے بات ہونی چاہیے۔
ہمارے مذہب، معاشرت اور قانون میں اس طرح کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی زنا بالرضا، لڑکے سے ہو یا لڑکی سے، اس کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کی روک تھام کی بھی کوشش ہونی چاہیے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ مقصود ہی نہیں ہے۔
حالیہ واقعہ یا پہلے کے واقعات، ان کے تدارک اور سزاؤں کی بات کے بجائے اسے مغربی پیسے سے چلنے والی این جی اوز اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے اور مذہب و اہل مذہب کو لتاڑنے کا ذریعہ بنا لیتی ہیں۔ اس سے ردعمل پیدا ہوتا ہے، اور دوسری ابحاث شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح سے ملزمان کو فائدہ پہنچانے والی بات ہے۔ اگر یورپی طرز کے معاشرے کی خواہش ہے، عورت تک پہنچنے کی آزادی مطلوب ہے، تو سیدھا کہیے۔