ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
1867 ء میں اردو اورہندی کے جھگڑے نے سرسید احمدخان کوکسی قدر بددل کردیا اور بنارس کے کمشنرشیکسپئرؔ سے انھوں نے اپنے جن خدشات کااظہارکیا اس کوبنیاد بناکر کچھ مؤرخین نے سرسید ؔکو ’دوقومی نظریہ‘کابانی اور’تحریک پاکستان‘ کاروح رواں قراردیا۔
اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کے مابین لسانی مسئلے نے تنازعہ کی صورت اختیار کی اورتعصب کی شدت میں روزبروز اضافہ ہونے لگا۔اس کی اوّلین صورت اس وقت سامنے آئی جب ہندوؤں کویہ خیال پیدا ہوگیا کہ سرکاری عدالتوں میں بھاشا اور دیونا گری رسم الخط جاری کیا جائے اور اردو زبان کو موقوف کیا جائے۔یہ پہلاموقعہ تھا جب سرسیدؔ نے بھانپ لیا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ ساتھ چلنامشکل ہوگیاہے۔ مولاناحالیؔ ، سرسیدؔ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”انہیں دنوں جب یہ چرچا بنارس میں پھیلا، ایک روز مسٹر شیکسپئیرؔ سے، جو اس وقت بنارس میں کمشنر تھے، میں مسلمانوں کی تعلیم کے باب میں گفتگو کر رہا تھا اور وہ متعجب ہو کر میری گفتگو سن رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ آج یہ پہلاموقعہ ہے کہ میں نے تم سے خاص مسلمانوں کی ترقی کا ذکر سنا ہے۔ اس سے پہلے تم ہمیشہ عام ہندوستانیوں کی بھلائی کاخیال ظاہرکرتے تھے۔
میں نے کہا اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہوسکیں گی۔ ابھی تو بہت کم ہے، آگے آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، بڑھتا نظر آتا ہے۔ جو زندہ رہے گا، دیکھے گا۔ انہوں نے کہا اگر یہ پیشنگوئی صحیح ہوئی تو نہایت افسوس ہے۔ میں نے کہا ’مجھے بھی نہایت افسوس ہے مگراپنی پیشنگوئی پر مجھے پورا یقین ہے۔“(حیات جاوید۔ص 192)
دراصل اردوکی بقا سے مسلمانوں کی معاش جڑی ہوئی تھی اور اردو کی جگہ دیوناگری زبان کوسرکاری زبان کا درجہ ملنے سے ہزاروں مسلمانوں کے بے کار ہونے کا اندیشہ تھا۔ سرسیدؔ نے اپنے خط و کتابت میں واضح کیا کہ عام بول چال کی زبان اردو ہے۔سرسید ؔ نے شیکسپئر سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا، اس کے بعد بھی سرسید ؔ نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہوکہ وہ صرف مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کوشاں ہوں۔ وہ ہندو رہنماؤں کی طرح فرقہ پرست اور متعصّب نہ تھے۔
پروفسیر ایم ایس جینؔ اپنی کتاب “The Aligarh Movement”میں لکھا ہے کہ غدر کے بعد ہندو اور مسلمانوں کو ایک قوم بننے کاموقع ملا تھا لیکن اس موقع کوسرسیدؔ نے استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ صرف مسلمانوں کا سوچتے تھے۔ علی گڑھ تحریک صرف مسلمانوں کے مستقبل کے تحفظ کے لئے بپا کی گئی اور بالآخر تحریک پاکستان پرمنتج ہوگئی۔
ڈاکٹرلال بہادرؔ کابھی یہی موقف ہے کہ محمد علی جناح نے بیسویں صدی میں وہ حاصل کرلیا جس کی داغ بیل سرسیداحمد خان نے انیسویں صدی میں ڈال تھی۔سرسید ؔ نے مسلمانوں کے ذہنوں میں علیحدگی کابیج بویا اورجناح ؔنے اسے تقویت دی اورمسلمانوں کے لئے ایک ملک تراش لیا۔ سرسید اورجناح ایک ہی تحریک کے علمبردار تھے اور دونوں نے ایک ہی مقصد کو آگے بڑھایا۔
پاکستان کے ادیب اور مؤرخ ڈاکٹرسلیم اختر رقمطراز ہیں:
”واضح رہے کہ سب سے پہلے سرسید ہی نے محسوس کیا تھا کہ مسلمانوں اورہندوؤں کا مل جل کر رہنا نا ممکن ہے۔ گویا پاکستان کی خشتِ اول بھی سرسید ہیں۔ چنانچہ سرسید اور ان کے رفقاء کار کی جہد مسلسل سے تعلیمی ، سماجی اور ادبی مورچے تسخیر ہوئے اور ان پر افکار نو کے پرچم لہرا دئیے گیے۔ انہوں نے بدلے حالات کاحل جدید تعلیم میں تلاش کیا۔ چنانچہ تعلیم کو قومی امنگوں کی آئینہ داربنانے کیلئے انہوں نے شدید مخالفتوں کے باوجود علی گڑھ میں جس درس گاہ کی بنیاد رکھی وہ ہندوستان میں ایک نیا تعلیمی تجربہ ثابت ہوئی اور بعد ازاں یونیورسٹی کے روپ میں پاکستان کی تحریک کے لئے سرگرم کارکن مہیا کرنے کا باعث بنی۔“ (اردو ادب کی مختصرترین تاریخ ص۔322)
پاکستان کے ہی ایک اور ناقد اور مورخ ڈاکٹر انورسدیدؔ علی گڑھ تحریک کوتخلیقِ پاکستان کانقطہ عروج تصور کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”بیسویں صدی میں جب مسلم لیگ کی تحریک پیداہوئی توسرسیدؔ کے دوقومی نظریے کواس کے مقاصد میں اساسی حیثیت حاصل ہوئی۔ چنانچہ1857ء کی جنگ آزادی علی گڑھ تحریک کانقطہ آغاز اور تخلیق پاکستان کا واقعہ اس تحریک کی کامیابی کا نقطہ عروج قرار پاتا ہے اور اس تمام عرصے میں علی گڑھ تحریک کی فعّال روح کاسرگرم عمل رہنا بذاتِ خود اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔“( اردوادب کی تحریکیں ، ابتدا تا 1975ء۔ص 335)
گویا کہ سرسید ؔنے ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ قوم بتایا اور تحریک پاکستان کے علمبردار تھے، یہ ایک ایسادعویٰ ہے جس پر ناقدین کے سوال قائم کئے ہیں۔
سرسیدؔ ان غیرمعمولی حالات کی پیداوار تھے، جنھوں نے ایک حکومت کو اجڑتے اور دوسری کو سریرسلطنت کو آباد کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ غدر کی ناکامی کے بعد انھوں نے بڑے بڑے امراء و رؤسا کو رات کی تاریکی میں کاسہ گدائی لئے ہوئے دیکھا تھا۔ پہلی جنگ آزادی ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں کانتیجہ تھی۔ مگر انگریزوں نے صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ ستم بنایا تھا اور ان کی پوزیشن ہندوؤں سے مختلف ہوکر رہ گئی تھی۔ ایسے حالات میں سرسیدؔ کو مسلمانوں کے لئے وہی کام کرنا تھے، جن کو راجہ رام موہن رائے پچاس سال قبل ہندوؤں کے لئے کرچکے تھے۔
ہندواورمسلمان ایک قوم ہیں، اس پرسرسید نے بڑی تفصیل سے تقاریر کی ہیں اور ان کے سُننے والوں میں دونوں فرقوں کے لوگ کثرت سے شامل ہوتے تھے۔ قومی یکجہی کے لئے انھوں نے بیشتر تقاریرکیں،ایک جلسے سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں:
”اس وقت ہندوستان میں خدا کے فضل سے دو قومیں آباد ہیں اور اس طرح سے ہیں کہ ایک کا گھر دوسرے سے ملا ہے۔ ایک کی دیوار کا سایہ دوسرے کے گھر میں پڑتا ہے۔ ایک آب و ہوا کے شریک ہیں، ایک دریا یا کنویں کا پانی پیتے ہیں، مرنے جینے میں ایک دوسرے کے رنج و راحت میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملے بغیر چارہ نہیں…….ہم کو ایک دل ہو کر مجموعی حالت میں کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ایسا ہوگا تو سنبھل جائیں گے، نہیں تو ایک دوسرے کے اثر سے دونوں قومیں تباہ اور بگڑ جاویں گی…“(فکرونظر،سرسیدنمبر۔اکتوبر1992)
سرسید نے فرقہ وارانہ تقاریر کیں نہ مسلمانوں کوہندوؤں کے خلاف اُکسایا اور نہ ہندوستان کے بٹوارے کی بات کی۔ البتہ غدر کے بعدکی صورتحال سے وہ مسلمانوں کے لئے بے حد متفکر تھے۔ ان کا پختہ خیال تھاکہ اگرمسلمان مغربی علوم حاصل نہ کریں تووہ ہمیشہ کے لئے دوسرے فرقوں سے پیچھے رہ جائیں گے:
”بے علمی مفلسی کی ماں ہے۔ جس قوم میں علم وہنر نہیں رہتا، وہاں مفلسی آتی ہے اورجب مفلسی آتی ہے تو ہزاروں جرموں کے سرزد ہونے کے باعث ہوتی ہے۔ اب تم اپنے قوم کے حال پرغور کرو کہ یہ بدبخت دن ان پر آگئے ہیں۔ بڑے بڑے قدیمی خاندان سب گرپڑے ہیں۔ تمام قوم پر مفلسی اور محتاجی اور قرض داری اور ذلّت چھا گئی ہے…..تمام قوموں نے اوربڑے بڑے دانش مندوں نے اس بات کاقطعی فیصلہ کردیا ہے کہ قومی ترقی، قومی تعلیم و تربیت پر منحصر ہے۔ پس اگر مہم اپنی قوم کی بھلائی چاہتے ہیں تو قومی تعلیم اور قوم کو علم و ہُنر سکھانے کی کوشش کریں۔“(ایضََا)
حق یہ ہے کہ علی گڑھ تحریک ایک علیحدگی پسند تحریک نہیں تھی بلکہ خاص حالات کی بنا پر انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ دی۔ انھوں نے کالج میں مذہب کی بناء پر کسی کو ترجیح نہیں دی بلکہ اسٹاف میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی تھے۔ 26جنوری 1884ء کو امرتسر میں انھوں نے خطاب میں فرمایا:
”مدرستہ العلوم بے شک ایک ذریعہ قومی ترقی کا ہے۔ یہاں ہر قوم سے میری مراد صرف مسلمان ہی سے نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی سے ہے۔ مدرستہ العلوم بلاشبہ مسلمانوں کی ابتر حالت کے درست کرنے کیلئے اور جو افسوس ناک محرومی ان کو یورپین سائنسز اور لڑیچر کے حاصل کرنے میں تھی، اس کے رفع کرنے کوقائم کیا گیا ہے ، مگر اس میں ہندو اور مسلمان دونوں پڑھتے ہیں اور تربیت جو ہندوستان میں مقصود ہے، دونوں کو دی جاتی ہے“۔ (ماہنامہ تہذیب الاخلاق۔ اکتوبر:2013ء)
1885ء میں جب’انڈین نیشنل کانگریس‘ بنی تو سرسید ؔ نے اس کی مخالفت کی۔کیونکہ ان کی نظر میں یہ قدم قبل از وقت تھا اور مسلمانوں کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ ہرسیاسی تنظیم مسلمانوں کیلئے مہلک تھی۔ سرسیدؔ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کواپنی پوری توجہ تعلیم پر لگانا چاہیے۔ علامہ شبلی ؒ کانگریس کے حق میں تھے لیکن اس حوالے سے سرسید ؔکوکچھ تحفظات تھے۔
انیسویں صدی کے آخر اوربیسویں صدی کے شروع تک علی گڑھ تحریک نے اپنا کام بخوبی انجام دیا۔ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری ہوئی اور ایک طبقہ سیاسی گٹھ جوڑ کی باتیں کرنے لگا۔ ان میں مولانا محمد علی، شوکت علی اورحسرت موہانی سرفہرست تھے لیکن کانگریس کے چند اراکین دل آزار باتیں کرنے لگے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوگئے۔ تقسیم بنگال سے ہندوؤں میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔
اس طرح کے مسائل سے دونوں کے تعلقات میں وقتی کشیدگی پیدا ہوئی اور مسلمان اپنی ایک الگ سیاسی جماعت بنانے کی سوچنے لگے۔ اس طرح 1906ء میں مسلم لیگ وجود میں آئی، جس نے مسلمانوں کی قیادت کا بیڑہ اُٹھایا۔ مسلم لیگ ہندومخالف جماعت نہیں تھی جیساکہ باور کیا جاتا ہے بلکہ اس جماعت کا مقصد مسلمانوں کے معاملات کو حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے پیش کرنا تھا جو کہ کانگریس نہیں کر رہی تھی۔
1928ء کے بعد ہندوستانی سیاست نے کروٹ لی۔ نہرو رپورٹ سے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ قائداعظم مرحوم نے اقلیتوں کے حقوق پر زبردست بحث کی اور جب نیشنل کنونشن نے ان کی دلیل مسترد کردی تو انھوں نے ہمیشہ کے لئے کانگریس کو خیرباد کہہ دیا اور لیگ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
اس وقت تک سرسید اور علی گڑھ تحریک پرکسی نقاد نے دوقومی نظریے کا لیبل نہیں لگایا تھا لیکن جب محمد علی جناح مرحوم نے پاکستان کامطالبہ کیا، تو سرسید مرحوم اورجناح مرحوم کے خیالات میں بڑی مناسبت بتائی گئی اور قائداعظم کوسرسیدؔ کا جانشین قرار دیا گیا ، جو صرف ایک دعویٰ ہے جس کے پیچھے کوئی مستند دلیل ہے ہی نہیں۔
انگریزوں کی آمد سے خصوصاً جنگ’پلاسی‘کے بعد ہندو اور مسلمان کے درمیان اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے ۔ انگریزوں کی سیاسی بقا کا انحصار ہی دونوں قوموں کے اختلافات میں تھا ۔ بنگال میں انھوں نے ان دونوں کو ایک دوسرے کاحریف بنا دیا ۔ 1857ء کے بعد انھوں نے نئے سرے سے ان اختلافات کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ 10 مئی 1862 کو چارلس وُڈ ؔنے ہندوستان کے وائسرائے الگن ؔکو لکھا:
”ہم نے اپنے اقتدار کو ایک دوسرے سے لڑا کر قائم کیا ہے اور ہمیں ایسا کرتے رہنا چاہیے۔ لہٰذا سب کے جذبات کو ہم آہنگ ہونے سے روکنے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہو ، کرو…..“( تہذیب الاخلاق۔اکتوبر2013ء)
ہندواورمسلمانوں میں اختلافات سرسیدؔ کی پیدائش سے پہلے ہی موجود تھے۔ پلاسی کی جنگ کے بعد ہی اس کے شواہد ملنا شروع ہوگئے۔اس لئے وہ دوقومی نظریہ کے خالق کیسے ہوسکتے ہیں؟
اس کے برخلاف سر سید نے ہندو اورمسلمانوں کو ہندوستان کی دوخوبصورت آنکھیں بتایا اورکہا کہ ایک کی بدنمائی سے ہندوستان کی خوبصورتی پر اثر پڑے گا اور خدا کی مرضی ہے کہ ہندو اورمسلمان اسی زمین پر جئیں اوراس پر مریں۔ سات اپریل 1888ء میں انھوں نے لکھا:
”یہ ہماری خواہش ہے کہ ہندوستان کے ہندو مسلمان میں اس قسم کی دوستی و برادری اور محبت روز بروز بڑھتی جاوے اورسوشل حالات میں ایسی ترقی ہوکہ مسلمان بجز مسجدوں کے اور ہندو بجز مندروں کے پہچانے جائیں“۔
سرسید احمدخانؔ نے اپنی بساط بھر کوشش کی تھی کہ ہندو اور مسلمانوں میں محبت اور اتحاد کی فضا قائم رہے لیکن متعصب ہندو لیڈر ان ہر لمحہ مسلمانوں کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ تخلیق پاکستان کا تصور تو سرسیدکا نہ تھا البتہ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کودیکھ کر یہی لگتا ہے کہ مرحوم محمد علی جناح ؔ ایک دور رس اور نباضِ امت تھے۔ نت نئے طریقوں سے تشدد پسند اور متعصب ہندو سیاستدان مسلمانانِ ہند کوتکلیف پہنچانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کوکبھی بھی ہندوستان کاحصّہ تصور نہیں کیا بلکہ ہر آن کھلی تلوار کی طرح مسلمانوں کے سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں۔
سرسید احمد خان نے ہند کی آزادی کا خواب تب دیکھا تھا جب کہ کسی نے دور تک اس کاسوچا بھی نہ تھا۔ 1864ء میں بمقام غازی پور ایک تقریر میں انہوں نے کہا:
”جب ہندوستانیوں کالیجس لیٹوکونسل میں داخل ہونا، ہندوستانیوں کی ترقی کی ابتدا ہے۔ تم میری اس پیشن گوئی کو یاد رکھو کہ وہ دن کچھ دور نہیں ہے کہ ہرضلع میں سے ایک شخص کاکونسل میں داخل ہونا ضروری ہوگا، وہ دن آئے گا کہ تم خود ہی قانون بناؤ گے اورخودہی اس پر عمل کروگے“۔(تہذیب الاخلاق۔اکتوبر2013ء)