زارا سٹور ، فیشن برانڈ

دنیا کے بڑے فیشن برانڈ “زارا ” کا بائیکاٹ کیوں کیا جارہا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان :

گزشتہ روز سے فیشن کی دنیا کے ایک بڑے نام زارا کے بائیکاٹ کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ اس وقت ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈز میں #boycottzara بھی شامل ہے۔اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا ٹرینڈ بھی سرفہرست ٹرینڈز میں شامل ہے۔ یہ ہے #zaramustapologize ۔ اس ساری مہم کا سبب ملبوسات کی ہسپانوی کمپنی ویمن ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ڈیزائنر ونیسا پرلمین کے مسلمانوں اور فلسطینیوں کے خلاف ریمارکس ہیں۔ ونیسا پرلمین نے ایک مرد ماڈل قہر ہرہرش سے انسٹاگرام پر تحریری گفتگو کے دوران نہ صرف غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کی بلکہ وہ ماڈل کے اسلامی عقیدے پر بھی حملہ آور ہوئی۔ مشرقی بیت المقدس ( یروشلم ) سے تعلق رکھنے والے قہر ہرہرش نے ونیسا کے ریمارکس سوشل میڈیا پر ظاہر کردیے۔

ونیسا نے کہا :
آپ یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیل ایک خوفناک حد تک برا ملک ہے۔ وہ فلسطینیوں کے ساتھ انتہائی ہولناک رویہ رکھے ہوئے ہے۔ اوہ میرے خدا ! مجھے تو ابکائی آ رہی ہے۔ یہ تو ناانصافی والی بات ہے اور جھوٹ ہے۔ تاہم کوئی بات نہیں۔ میری انڈسٹری کے لوگ اسرائیل اور فلسطین سے متعلق سچ جانتے ہیں۔ میں تو اسرائیل کا دفاع کرنے سے باز نہیں آئوں گی۔

آپ جیسے لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں۔اگر آپ کے لوگ پڑھے لکھے ہوتے ، تو وہ ہسپتالوں اور سکولوں کو بموں سے نہ اڑاتے جو اسرائیل نے آپ لوگوں کی مدد کے لئے قائم کیے تھے۔ ونیسا یہ لکھتے ہوئے چند ہفتے قبل غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو نظر انداز کرتی رہی جس میں ڈھائی سو سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی بھی تھی۔ اس جارحیت کے دوران میں انسان کی بنیادی ضروریات کے لئے قائم کردہ انفراسٹرکچر کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

ونیسا نے کہا :
اسرائیلی اپنے بچوں کو نفرت نہیں سکھاتے نہ ہی وہ فوجیوں پر پتھر پھینکتے ہیں جیسے آپ لوگ کرتے ہو ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آپ ایک ماڈل ہو، مسلمان تو اس پروفیشن کے ہی خلاف ہیں۔ اگر آپ کسی مسلمان ملک میں ہوتے تو وہ آپ کو پتھر مار مار کر ہلاک کردیتے۔

ونیسا کی ان باتوں کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے زارا سے مطالبہ کیا کہ وہ ونیسا کے خلاف ایکشن لے تاہم یہ کہہ کر ان کے مطالبے کو مسترد کردیاگیا کہ ونیسا پرلمین نے ذاتی طور پر قہر ہر ہرش سے معافی مانگ لی ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ بعدازاں ونیسا نے قہر سے پرائیویٹ میسیج میں کہا کہ آخر آپ لوگ میری ملازمت کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟

قہر کا مطالبہ تھا کہ زارا والے اعتراف کریں کہ یہ حرکت اسلاموفوبیا کے زمرے میں آتی ہے۔ یورپی معاشرے اسلاموفوبیا سے چشم پوشی اختیار کرتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے کنزیومرز میں بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے، اگر فیشن انڈسٹری میں کوئی فرد یہودیوں کے خلاف بات کرے تو اسے فی الفور ملازمت سے برخواست کر دیا جاتا ہے۔

قہر نے بتایا کہ پرلمین نے اسے انتہائی نفرت انگیز تحریری اور سمعی پیغامات بھیجے، تاہم جب اس کے خلاف مہم شروع ہوئی تو اس نے نہ صرف وہ تمام پیغامات ڈیلیٹ کردیے بلکہ اپنے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس بھی ڈی ایکٹیویٹ کردیے۔ اگر اس نے کچھ غلط نہیں کیا تو سوشل میڈیا اکائونٹس ڈی ایکٹویٹ کرنے سے پہلے اپنے سمعی اور تحریری پیغامات کیوں ڈیلیٹ کیے۔

فہر نے عزم ظاہر کیا کہ میں اس وقت تک خاموشی اختیار نہیں کروں گا جب تک پرلمین کے باتوں کو کم از کم یہود مخالف مواد کی طرح حساس اور خطرناک نہیں قرار دیا جاتا، اگرچہ یہ اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ قہر کا کہنا تھا : اگر زارا تمام انسانوں کو ایک جیسا سمجھتی ہے تو اسے میرے مجوزہ اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ عمل الفاظ سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

قہر نے بتایا کہ پرلمین نے مجھ سے دس مختلف پیغامات میں معذرت کی لیکن اگر مگر کے ساتھ۔ وہ مجھے اسرائیلی موقف کی حمایت کرنے کو کہتی رہی۔ میرا خیال ہے کہ معافی درد کے اس احساس کا نام ہے جو آپ نے کسی کو پہنچایا ہے۔ وہ اپنے براہ راست پیغامات میں مجھ سے ( فلسطینی اور مسلمان ہونے کی بنیاد پر ) نفرت کا اظہار کرتی رہی، پھر میں کیسے ادھوری معافی کو قبول کروں؟

اس کے بعد فہر ہر ہرش نے انسٹاگرام پر اپنے فالوورز سے کہا کہ وہ زارا کے بائیکاٹ کی مہم میں اس کا ساتھ دیں۔ نتیجتا پوری دنیا سے لوگ اس مہم میں پرجوش انداز میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ اعلان کررہے ہیں کہ بس ! اب وہ زارا کے سٹور میں ایک قدم بھی نہیں رکھیں گے۔اس وقت زارا کے خلاف مذکورہ بالا دونوں ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں۔ اس وقت زارا کے خلاف مذکورہ بالا دونوں ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں