کہا جارہا تھا کہ بجٹ اجلاس کے بعد پاکستانی سیاست میں کافی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مسلم لیگ ن نے پارٹی کے اندر لوگوں کو بھی بتایا ہے کہ عمران خان کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں۔ اس لئے اگلے چھ ماہ الیکشن کی تیاری میں صرف کریں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جہانگیر ترین کے گروپ کو بجٹ اجلاس تک ہی عمران خان برداشت کریں گے۔
ایسا لگ رہاتھا کہ جہانگیر ترین کی گرفتاری کسی بھی وقت ہوسکتی ہے، اسی لئے جہانگیر ترین اپنی عبوری ضمانت کی کوششیں کررہے تھے۔ تاہم اب کچھ نئی پیش رفت ہوئی۔ ایف آئی اے کے واجد ضیا ہٹ گئے یا انھیں ہٹا دیا گیا، پھر ایف آئی اے نے از خود عدالت کو بتایا کہ انھیں جہانگیر ترین کی گرفتاری مطلوب ہی نہیں ہے۔ عدالت نے بھی اسے پابند کیا کہ اگر جہانگیر ترین کو گرفتار کرنا ہے تو سات دن پہلے بتائیں۔ اس کے بعد جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے نے درخواست ضمانت واپس لے لی۔
کیا جہانگیر ترین کے ساتھ عمران خان کا معاملہ طے پاگیا؟
معروف انویسٹی گیٹو رپورٹر اعزاز سید کا کہنا ہے کہ
وزیراعظم جہانگیر ترین سے ناراض تھے۔ ان کے خلاف جو کیس بنا ہے ، وہ زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ اس کی بنیادیں موجود ہیں۔ جہانگیر ترین کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان واپس آئے تھے تو وہ عمران خان کو نہیں کچھ اور لوگوں کو راضی کرکے آئے تھے۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ جہانگیر ترین آنے والے دنوں میں گرفتار ہوں گے۔ اسی طرح ذلفی بخاری کے خلاف بھی مقدمہ بنے گا، وہ بھی گرفتار ہوں گے۔ ان کے خلاف مقدمہ تیار کرنے پر غور و خوض جاری ہے۔
جہاں تک واجد ضیا کا معاملہ ہے، وہ ناخوش تھے۔ ان کے دو بڑے مسئلے تھے۔
اولا وہ اپنے معاملات میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس مشیر نے ایف آئی اے کے اندر اپنا ایک گروپ بنا لیا تھا۔ یہ بات واجد ضیا کو پسند نہیں تھی۔ اس میں مختلف لوگوں کے خلاف کیسز وغیرہ کے معاملات بھی تھے۔
دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ واجد ضیا اپنے دفتر ہی میں رہتے تھے، لوگوں سے کم ملتے تھے۔ سیاست دانوں سے بھی نہیں ملتے تھے، چاہے وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن والے ہوں۔ وہ زیادہ تر آفس ورک میں مصروف رہتے تھے۔ ڈی جی ایف آئی اے کو پبلک ریلیشنز رکھنا پڑتے ہیں۔ تاہم واجد ضیا بشیر میمن جیسے نہیں تھے۔ جیسے بشیر میمن سے کہا گیا کہ فلاں کو اندر کردو، فلاں کے خلاف کیس کر دو، فلاں کیس کو ایسے نہیں ایسے کردو۔ واجد ضیا کو بھی اس قسم کی ہدایات دی گئیں۔
واجد ضیا کی رخصتی کے بارے میں کبھی بہت سی کہانیاں منظر عام پر آئیں گی۔ اعزاز سید کا کہناہے کہ پانامہ تحقیقات اور دیگر کئی معاملات کے حوالے سے مجھے بخوبی علم ہے کہ ان کے حوالے سے کہاں سے اثر و رسوخ استعمال کیا گیا۔ اور میں واجد ضیا کی کارکردگی سے متاثر نہیں ہوں، وہ کوئی شارپ مائینڈڈ افسر نہیں ہیں۔
جہاں تک عدالت میں ایف آئی اے کی طرف سے بیان کا تعلق ہے ، وہ بیان دلایا گیا ہے، یہ ضرورت تھی کیونکہ بجٹ منظور کروانا ہے۔ اس لئے جو کچھ بھی ہوگا ، وہ بجٹ کی منظوری کے بعد ہی ہوگا۔
احتساب کی نئی لہر
بجٹ منظوری کے بعد احتساب کی ایک نئی لہر شروع ہوگی۔ اسلام آباد میں ایک بحث ہمیشہ چلتی رہتی ہے، موجودہ دور حکومت میں بھی چل رہی ہے کہ کیا عمران خان حکومت پانچ سال پورے کرسکے گی؟ اس وقت اس بحث میں بہت زیادہ زور و شور دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بجٹ اجلاس کے بعد ایک نیا ہی کام شروع ہوگیا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں سے بہت سی کہانیاں سنی ہیں، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن جماعتوں نے مل کر پیش کی ہے، ان کے خلاف سپریم کورٹ میں انتخابی عذر داری کے حوالے سے کیس بھی شروع ہوگیاہے، اپوزیشن جماعتیں قاسم سوری کے خلاف وار کر کے ایک پیغام دینا چاہتی ہیں۔
قبل از وقت انتخابات کا مشورہ
میرا خیال ہے کہ قاسم سوری کو نکالا جائے یا نہ نکالا جائے، عمران خان حکومت کو کچھ نہیں ہوگا۔ انھیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اگلے سال عام انتخابات کروالیں۔ یہ مشورہ عمران خان کے قریبی سیاسی رفقا نے دیا ہے۔ تاہم وزیراعظم ابھی تک اس مشورے پر قائل نہیں ہوئے۔کیونکہ عمران خان کو بخوبی پتہ ہے کہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں جیت سکیں گے ۔ ایک الگ بحث یہ بھی ہے کہ ہوسکتا ہے ، عمران خان انتخابات میں حصہ ہی نہ لے سکیں۔ جب انھیں یقین ہوجائے گا کہ اب ان کا سر قلم کیا جانے والا ہے، تو وہ ایسا اقدام کرسکتے ہیں کہ ہم حیران رہ جائیں۔
اسٹیبشلمنٹ کا فیصلہ
اعزاز سید کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بہت پہلے سے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اس نے تحریک انصاف کی حکومت کو پورے پانچ سال دینے ہیں، وزیراعظم پانچ سال پورے کرے یا نہ کرے، وہ ایک الگ سوال ہے۔ اسمبلیاں پوری کریں گی۔ تاہم عمران خان کا معاملہ مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ عمران خان اس حوالے سے پوری طرح اعتماد سے مالا مال ہیں۔ ابھی تک معاملات ان کے قابو میں ہیں۔ صرف ایک معاملہ ان کے قابو سے باہر ہے، اور وہ ہے عوام کا غصہ ۔