فلسطینی عوام جشن مناتے اور اپنی قوت کا اظہار کرتے ہوئے

حماس نے اسرائیل کو فائر بندی پر کیسے کیا مجبور؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مہناز ناظم :

فلسطین میں قابض یہودیوں نے  رمضان المبارک کی مہینے میں مسجد اقصیٰ میں گھس کر  نہتے مسلمانوں پر حملہ کیا اور انہیں وہاں سے نکالنےکی کوشش کی ۔ فلسطینی مسلمانوں نے  شدید مزاحمت کی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا مگر انہوں نے پتھروں کا استعمال کیا  اور یہودی فوجیوں کو روکے رکھا۔

گزشتہ 70 دہائیوں سے یہودی فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں . اپنی ناجائز ریاست کے قیام اور اس کی توسیع کے لیے یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کے گھر  مسمار کیے ان کی زمینوں سے انہیں بے دخل کیا مگر آفرین ہے نہتے  فلسطینی مسلمان اپنی سرزمین سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کیے جا رہے ہیں . ان کے پائے استقامت  میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی یہ ایمان اور یقین  انھیں ضرور کامیاب کر کے رہے گا۔

دوسری جانب عرب ممالک  کے حکمرانوں  پر افسوس ہے جو یہودیوں سے دوستی کے سلسلے استوار کر رہے ہیں اور اپنے دینی بھائیوں کی مدد تو درکنار ان کے لیے آواز بھی اٹھانا گوارا نہیں کرتے ، جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے ملک و قوم اور دین اور ایمان بیچ  بیٹھےہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں مسلمان عوام نے فلسطینی مسلمانوں کے  پر زور حمایت کی  اور ان کے حق میں آواز اٹھا کر  یہودی غاصبوں کے جنگی جرائم کی طرف دنیا کی توجہ د لائی.

  پاکستان ، بنگلہ دیش ، ترکی ، یورپ اور امریکہ کے  مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم عوام نے بھی صیہونی کاروائیوں کی شدید مذمت کی اور اپنی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ صیہونیوں کو اس ظلم و ستم سے باز رکھنے کے لیے کاروائی کریں۔فلسطینی مجاہدین کی تنظیم حماس نے مسلح کارروائیاں کیں اور اسرائیلی تنصیبات پر میزائل فائر کیے اس طرح انہوں نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی بمباری کو روکنے کی کوشش کی ۔

اس کے نتیجے میں اسرائیل کو جو نقصان ہوا اس  کی وجہ سے اس نے فائر بندی کی درخواست خود کی۔ اسے حماس  کی فتح کہہ سکتے ہیں جس پر فلسطینی نوجوانوں نے جشن بھی منایا۔ حماس کی جوابی کاروائیاں اس جذبہ جہاد کا پیش خیمہ ہیں جو فلسطینی  عوام کے دلوں میں موجزن ہے۔ وہ اپنے مظلوم  اور نہتے مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے کوشاں ہیں ۔ درحقیقت اس طرح کی کارروائیاں ہی یہودیوں کی جارحیت کا صحیح جواب ہیں۔

 یہودیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فلسطین پر قبضہ کیا ۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کو سازشوں کے ذریعے ختم کیا ، ان کے بیچ نفاق کا بیج بو کر انہیں آپس میں لڑوادیا اور پھر امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ ساز باز کرکے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ آپس کی نااتفاقی اور اختلاف کی وجہ سے آج عرب ممالک نہ ترکی کے  ساتھ مل کر بیٹھ سکتےہیں اور نہ ہی ایران کے ساتھ فلسطین کے معاملے پر اتفاق کر سکتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ  52 مسلمان ممالک ہونے کے باوجود آج تک فلسطین پر سے  یہودیوں کا قبضہ ختم نہیں کرایا جا سکا ۔جہاد اسلام کا شعار ہے اس کو چوٹی کا عمل کہا گیا ہے یہی دین اسلام اور مسلمانوں کی بقاء  اور طاقت کا ذریعہ ہے آج اسلام  دشمنوں کا  مقصد مسلمانوں میں جہاد کی روح کو ختم کر دینا  ہے۔

  اس کے باوجود دنیا بھر میں مسلمان مجاہدین ظلم کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور یہ بات روز روشن  کی طرح عیاں ہے کے جہاں بھی جہاد کیا گیا وہاں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی امن اور سکون میسر آیا ۔ آج فلسطین میں حماس جہاد کے راستے پر رواں دواں ہے جس کے نتیجے میں دشمنان اسلام اس سے خوفزدہ ہیں ۔

حالیہ واقعات میں اسرائیل نے جس  ظلم اوربربریت کا مظاہرہ کیا معصوم بچوں اور عورتوں کو بیدردی سے قتل کیا اس سلسلے  کو روکنے میں  حماس  نے اہم کردار ادا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی مجاہدین جہاد کے راستے پر گامزن رہے تو وہ دن دور نہیں جب فلسطین یہودیوں کے تسلط  سےآزاد ہوجاۓ گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں