قصر دارالامان ، کابل افغانستان

افغان باقی(2)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حارث عبد اللہ :

پہلے یہ پڑھیے
افغان باقی (1)

اب اس افغانستان کے قضیے میں ایک بار پھر کیفیت یہ ہے کہ:

رات دن گردش میں ہیں سات آسمان

روز نیا واقعہ،نیا اشقلہ،نئی بازی،نئی بساط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پرانے کھلاڑی ۔ گھڑی کے ڈائل پر دوڑتی ، بھاگتی سوئیوں کی “ٹک،ٹک” بعض اوقات پریشان کن ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وقت کتنے ہی قہرمانوں کا غرور خاک میں ملا دیتا ہے ۔ قوت پر بھروسے اور کامیابی کے یقین کے ساتھ پیش قدمی کرنے والے کتنے ہی لشکر، وقت کی پہلی ہی جنبش پر مات ہو جاتے ہیں ۔

افغانستان میں وقت کے ساتھ سفر کیجئے تو دلچسپی اور عبرت سے خالی نہیں ہوگا۔ نزدیک اور دور، یہاں،وہاں ہر طرف لاتعداد حیرتیں اور بے شمار عبرتیں کھلی باہوں سے استقبال کرتی ہیں۔ ہر گام بکھرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مستقبل سے پیوستہ ، ماضی میں گم گشتہ اور حال میں سربستہ ان واقعات ، تحیرات ، شخصیتوں اور تحولات کا مستقل تقاضہ ہے کہ:

گاهے،گاھے باز خوان این دفتر پارینہ را

اور وقت کی یلغار ہے کہ:

طے شود جادہ صد ساله با آھے،گاھے

افغانستان میں ہجری خورشیدی کا فارسی کیلنڈر رائج ہے ۔”ماہ ثور” کی دو تاریخیں افغانستان میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں؛ یوں تو “ہفت ثور” اور “ہشت ثور” میں یہی دن بھر کا فرق ہے مگر یہ ایک دن کاٹنے میں 25 سال بیت گئے ۔ وہ کیونکر؟؟؟؟ یہ ہم اگلی اقساط کیلیے اٹھا رکھتے ہیں۔ سردست حیرت نہ ہو کیونکہ یہ تحیرات کی سرزمین افغانستان ہے۔

تاریخ افغانستان کے کتنے ہی ادوار کی تفصیلات میرے پیش نظر ہیں۔ ہر دور ہی کس شان سے شروع ہوکر کیسی حسرت پر ختم ہوا ۔ زرتشت کی “اوستا” کا زمانہ،ساسانیوں کی مقتدر شہنشاہی، شاہنامہ فردوسی کا اساطیری زمانہ ، قرون وسطی کا ہنگامہ خیز دور اور پھر یکے بعد دیگرے ۔۔۔۔۔۔۔ دور سلطنت ، دور مہاجرت ، دور جہاد ، دور انتشار ، دور مقاومت ، گیارہ ستمبر ،2001 کے بعد کا سیاہ دور۔۔۔۔۔۔ اور اب نہ جانے وقت کی آغوش میں کون سا دور اور کیسا زمانہ اپنے دامن میں کس نوعیت کی افتاد لیے آنے کو پر تول رہا ہے ۔

یوں تو یہ فارسی زبان کا اعجاز ہے کہ اصطلاح سازی میں بہت مؤثر ہے. بڑی سے بڑی تلخ و تیرہ و تار حقیقتوں کو اصطلاحوں کے پردے میں چھپا لیتی ہے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان خوش نما ناموں سے موسوم ان تمام ہی ادوار میں مخلوق خدا پر کیا کیا قیامتیں گزری ہیں ، کیسے ستم ٹوٹے ہیں ۔ اور آج ان تباہ کن اور قیامت خیز ادوار کے گزر جانے کے بعد ، خاک افغانستان پر وقت کے صحرا میں خستہ حال سی زندگی کا پڑائو ہے کہ:

آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

اور ہر کاروان نے تباہی،فتنہ سامانی اور غارت گری کی الگ ہی داستانیں رقم کی ہیں۔

افغانستان کی “تاریخ معاصر”(Contemporary History) اس لحاظ سے خاصی ثروت مند ہے کہ مختصر سی مدت میں اتنی بڑی شخصیتیں،اتنے بڑے نام اپنے تمام تر اچھے ، برے کارناموں سمیت اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ خیر ہونے کو “تاریخ قدیم” کی کچھ کم نہیں۔

آج جب میں اس موقع پر افغانستان پر کچھ لکھنے کے لیے مدت سے بھڑے ہوئے یادوں کے کواڑ کھولے تو یک دم کتنے ہی نام ذہن میں گردش کرنے لگے۔دماغ کی سکرین پر کتنی شکلیں نمایاں ہوتی گئیں ۔ تاریخ کے آڈیٹوریم میں بیٹھے سامعین یوں کتنے ہی کرداروں سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ امیر دوست محمد خان ، وزیر اکبر خان ، امیر عبدالرحمان ، حبیب اللہ خان ، شاہ امان اللہ اور حبیب اللہ کلکانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے ہیں جنہیں وقت نے تاریخ کے عجائب گھر میں قرینے سے سجا رکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔ ریگن(Reagan)،نکسن(Nixon)،گورباچوف اور ان گنت جن کا افغانستان سے دشمنی ، عناد نفرت اور عداوت رشتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سردار داود،نور محمد ترکئی،حفیظ اللہ امین،ببرک کارمل،ڈاکٹر نجیب اور کتنے ہیں جن کا افغانستان سے محض نام،نمود اور نمائش کا واسطہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ انجینئر حبیب الرحمان ، غلام محمد نیازی ، استاد برہان الدین ربانی ، گل بدین حکمت یار،احمد شاہ مسعود اور بے شمار ہیں جن سے میرا محبت،مروت،مودت اور عقیدت کا تعلق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ملا عمر،اختر منصور، بن لادن ، الزواہری ، حقانی اور بہت سے کہ جن سے میری طبیعت کو فطری گریز ، دوری ، کراہت،بعد اور ابا ہے۔

انہی پر کیا موقوف تاریخ کی انتظار گاہ میں بہت سے کردار اب بھی مناسب وقت کے منتظر ہیں ؛ اشرف غنی ، ڈاکٹر عبداللہ ، حامد کرزئی ، حکمت یار ، یونس قانونی ، کریم خلیلی ، محمد محقق ، عبدالرشید دوستم ، عطا محمد نور ، امیر اسمعیل خان ، حنیف اتمراور دسیوں کو وقت نے کمال مہربانی سے ایک اور موقع دیا ہے۔

حال ان کو ماضی اور مستقبل دونوں ہی سنوارنے کا موقع دے رہا ہے۔ مندرجہ بالا اور ایسے دیگر کے قد کاٹھ ، حیثیت ، اوقات اور تاریخ میں مناسب جگہ کا تعین ان کے ماضی سے قطع نظر ان کا حالیہ کردار اور مستقبل کی تشکیلات کریں گی۔ شخصیتوں ، افکار و نظریات ، فلسفوں اور دید گاہوں کے اس مصروف چوراہے کے عین درمیان : تاریخ کا بلند مینار کھڑا کرنا ، وہیں سے متوازن تجزیہ اور تحلیل کی راہ نکالنا اور اس پر سبق اور آموزش کے سنگ میل نصب کرنا یقینا ایک کٹھن اور دشوار کام ہے مگر میری یہ مشکل گزرتے وقت میں آسان کردی کہ:

زمانہ بھی تو کار سیلی استاد کرتا ہے

بات طول پکڑ گئی۔ خیر کچھ بھی ہو ، دقیقی ، فردوسی ، بلخی ( رومی ) اور خسرو جیسے اقلیم سخن کے فرمانرواؤں کا افغانستان ، عطار، سنائی اور جامی جیسے سلطنت عشق کے پادشاہوں کا افغانستان ، عشقری ، عاصی ، وجودی اور خلیلی جیسے سخنرانوں کا افغانستان ، سینا و فارابی اور امام اعظم ابو حنیفہ سے لیکر امام فخرالدین رازی اور جمال الدین افغانی تک اہل علم و فضل مسکن و مدفن افغانستان ، اسماعیل سامانی ، ابو مسلم خراسانی ، غزنوی ، غوری اور ابدالی تک سیاست کے شہ دماغوں ، فاتحوں اور قہرمانوں کا افغانستان۔۔۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر تورخم سے ھرات اور سپنل بولدک سے فاریاب کے درمیان بستے کروڑوں مردان حر کا افغانستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک فینکس(Phoenix)کی طرح ہے جو اپنی ہی راکھ سے ہر بار دوبارہ جنم لیتا ہے۔

برسوں پہلے “محب بارش” نے اس کیفیت کو اپنی معروف نظم میں گویا مجسم کر دیا تھا:

زخم چریک کوه تو زخم تن من است

او زخم خورده است

تو زخم خورده ای

ما زخم خورده ایم

اما نه مرده ایم

زیرا بقول شاعر رندان روزگار

“هرگز نه میرد آن که دلش زنده شد به عشق

ثبت است بر جریده عالم دوام ما

“پس ما نمرده ایم

یعنی که زنده ایم

یعقوب کور شد با هوای شکوه مصر

رستم بایاد اندوه سهراب گریه کرد

فرهاد با فسانه شیرین به خاک رفت

اما تو زنده ای

مغرور

پرشکوه

سربلند

استوار

المختصر۔۔۔۔۔۔۔”افغان باقی” ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں