مصطفیٰ صادق، بانی روزنامہ وفاق ، سابق پاکستانی وفاقی وزیراطلاعات و نشریات

جناب مصطفیٰ صادق کی عظیم کہانی ، خود ان کی زبانی (5)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی آپ بیتی

اب آئیے اس عدالتی کارروائی کی طرف جسے اینٹی قادیانی ایجی ٹیشن کی عدالتی تحقیقات کا نام دیا گیا ہے۔ عدالتی بنچ جسٹس محمد منیر اور جسٹس اے آر کیانی پر مشتمل تھا۔اسیران ختم نبوت کے علاوہ بعض دوسرے علماء کرام کو بھی عدالت میں طلب کیاگیا۔ عدالتی کارروائی کتابی شکل میں شائع بھی ہوچکی ہے۔ چونکہ یہ کارروائی نصف صدی سے زیادہ عرصہ پرانی ہوچکی ہے اس لئے ممکن ہے عام لوگوں کے ذہنوں سے اس کی یاد محو ہوچکی ہو۔ لیکن میں چونکہ جماعت کے کارکن کی حیثیت سے عدالتی کارروائی کا بیشتر حصہ خود دیکھتا اور سنتا رہا ہوں، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ اس کارروائی کے بعض چیدہ چیدہ حصے اپنی یادداشتوں میں شامل کرلوں۔

مجھے اس امر کا اظہار کرتے ہوئے اس اعتبار سے آج بھی یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ جن وکلاء نے ختم نبوت کی نمائندہ تنظیموں کی ترجمانی یا وکالت کی ان میں سید حسین شہید سہروردی بھی شامل تھے۔ جناب سہروردی ”مجلس تحفظ ختم نبوت“ کے وکیل تھے جس کی نمائندگی مولانا سید داؤد غزنوی ؒ کررہے تھے۔

عدالت نے اپنی کارروائی کے پہلے روز جب تمام وکلاء سے اپنا اور اپنے موکل کا تعارف کرانے کو کہا تو سہروردی صاحب اپنی باری پراپنا تعارف کرانے کے بعد رک گئے اور مولانا داؤد غزنوی سے عرض کیا کہ وہ بتائیں ، میں کس تنظیم کی وکالت کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ دراصل ایک زمانے میں سہروردی صاحب اردو کے بعض الفاظ بھی مشکل ہی سے ادا کرسکتے تھے اس لئے اس تنظیم کا نام لینا ان کے لئے خاصا مشکل تھا۔

چنانچہ مولانا داؤد غزنوی نے کھڑے ہو کر بتایا کہ جناب سہروردی”مجلس تحفظ ختم نبوت“کی وکالت فرمائیں گے۔ جناب سہروردی کی اس ”بے بسی“ پر جسٹس محمد منیر نے جنہیں نظریہ ضرورت کا بانی قرار دیا جاسکتا ہے کسی حد تک طنزیہ لہجہ بھی اختیار کیا۔تاہم تمام مذہبی تنظیموں اور دوسرے وکلاء کو فخر تھا کہ اس عدالت میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی وکالت کا اعزاز سید حسین شہید سہروردی حاصل کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی وکالت چودھری نذیراحمد نے کی جو وکالت کے پیشے میں غیر معمولی اہمیت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دور میں وفاقی وزیرمواصلات بھی رہ چکے تھے اور اٹارنی جنرل بھی، ”الاحباء“کے نام سے ایک عالمی تنظیم کے بانی بھی رہے ہیں اور ”الاحباء“ ہی کے نام سے عربی اور انگریزی دو زبانوں پر مشتمل جریدہ بھی شائع کرتے رہے ہیں۔

چودھری صاحب سے تعاون کے لئے اس وقت کے جماعت کے صوبائی امیر سعید ملک اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب ارشاد احمد حقانی ہر وقت کمرہ عدالت میں موجود رہتے۔ اور میں بحیثیت کارکن عدالت کے طلب کرنے پر مختلف علماء کرام کو عدالت میں لاتا اور واپس ان کی قیام گاہوں پر یا دفاتر میں پہنچانے کی ڈیوٹی انجام دیتا۔ اس ضمن میں جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی کا اسم گرامی بطور خاص قابل ذکر ہے۔

جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد میں جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور حاضری کا مدعا بیان کیا تو قدرے تردد کے بعد مولانا میرے ہمراہ عدالت میں جانے پرآمادہ ہوگئے۔ انتہائی مختصر سے بیان کے بعد مولانا کو واپس نیلا گنبد پہنچا دیا گیا لیکن چیف جسٹس کے سیکرٹری جناب محمد یحییٰ کااصرار تھا کہ مولانا کو عدالت کی طرف سے ڈیڑھ روپیہ کرایہ تانگہ کی مد میں پہنچا کران سے رسید حاصل کی جائے۔ ہر ممکن معذرت کے باوجود یحییٰ صاحب کے اصرار پر مجھے مولانا کی خدمت میں حاضری دینا پڑی اور حسب توقع ان کی بزرگانہ خفگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن سرکاری لوگوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔

اس عدالت میں اہم ترین شہادتیں مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے علاوہ دوسرے اہل علم و فضل کی بھی تھیں لیکن مولانا اختر علی خاں ایڈیٹر”زمیندار“ کی شہادت اس اعتبار سے خاصی دلچسپ تھی کہ جب ان سے استفسار کیاگیا کہ آپ مسجد وزیر خاں میں ایسی ایسی تقریریں کرتے رہے ہیں تو مولانا نے جواباً یہ موقف اختیار کیا کہ میں نے جامع مسجد وزیر خاں میں کوئی تقریر نہیں کی لیکن مولانا کی پوزیشن اس وقت کافی خراب ہوئی جب جسٹس منیرنے ادھر ادھر کاغذوں پر نظر دوڑا کر کہا:

مولانا ! ہمارے پاس آپ کی ایسی تصویریں موجود ہیں جن میں آپ مسجد وزیر خاں میں تقریر کرتے دکھائے گئے ہیں۔ مولانا نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا:

”مجھے کیا معلوم تھا کہ تصویریں بھی اتری ہیں“مجھے مولانا کے یہ الفاظ نقل کرتے ہوئے افسوس ہورہا ہے لیکن بہرحال مولانا کے الفاظ یہی تھے۔

سب سے زیادہ مفصل بیان مولانا مودودی اور دوسرے نمبر پر مولانا امین احسن اصلاحی کا تھا۔ عدالت کی طرف سے جو سوال بار بار مختلف علماء کرام سے کیاجاتا تھا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی تعریف کیا ہے؟ اور مسلمان کہلانے کا مستحق آپ کے نزدیک کون ہے؟ مولانا مودودیؒ اور بعض دوسرے بزرگوں سے بعض غیر متعلق سوال بھی کئے گئے۔ مثلاً مولانا مودودیؒ سے پوچھا گیا کہ پا کستان اگر ہندوستان پر حملہ کردے تو وہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟

پہلے تو مولانا نے جواب دیا کہ ایسے سوالات جو مفروضوں پر مبنی ہوں ان کا جواب دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔اس کے باوجود اصرار کیاگیا کہ وہاں کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے آپ کی رائے کیا ہوگی؟مولانا نے قطعی اور دوٹوک الفاظ میں اس سوال کا جواب اپنے ذمے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہندوستان کے مسلمان جب ضرورت سمجھیں اپنے ہاں کے علماء سے رہنمائی حاصل کریں۔ عدالت ان جوابات پرا گرچہ مطمئن نہیں تھی لیکن مولانا بھی اپنے موقف میں سرموتبدیلی کے لئے تیار نہیں تھے۔

مسلمان کی تعریف کے ضمن میں جب مولانا اصلاحی سے استفسار کیا گیا تو مولانا نے کہا کہ کلمہ توحید کا اقرار کرنے والا ہر شخص رسمی طورپر مسلمان کہلانے کا مستحق ہے لیکن حقیقی مسلمان وہ ہے جو اسلام کے تمام تقاضوں کو پورا کرے۔ رسمی اور حقیقی کی تعریف پر جسٹس منیر قدرے تمسخر آمیز انداز میں گفتگو کرتے رہے اور ایک مرحلہ پر انہوں نے اس قسم کے الفاظ کہے کہ آپ گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو خوش ( یا مطمئن ) کررہے ہیں؟

اس مرحلے پر سعید ملک سے نہ رہا گیا اور انہوں نے سخت برہمی کے عالم میں عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مولانا اصلاحی ایسے علماء کرام جن کی درجنوں کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوچکی ہیں جن کے متاثرین اور قارئین کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ انہیں کیا ضرورت ہے کہ یہاں پچاس آدمیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کریں۔

اس پر جسٹس کیانی کسی حد تک برافروختہ ہو کر جناب سعید ملک سے مخاطب ہوئے اور انہیں عدالت کی توہین کرنے کی بجائے بیٹھ جانے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اپنے وکیل کے ذریعے کہیں۔اس پر جماعت اسلامی کے وکیل چودھری نذیراحمد نے کہا کہ بعض باتیں سعید ملک صاحب اپنے وکیل سے بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔تاہم یہ تلخی اس مرحلے پر ختم ہوگئی۔

میری ذاتی زندگی سے کہیں زیادہ جماعت اسلامی کی تاریخ کاانتہائی اہم واقعہ ماچھی گوٹھ کے اجتماع سے تعلق رکھتا ہے۔ مارچ 1957ء کی بات ہے جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مجلس شوریٰ میں جماعت کی پالیسی سے متعلق بنیادی اورو اصولی اختلافاات کے باعث مستعفی ہوچکے تھے اور جماعت کے آئین کے مطابق مولانا نے جماعت اسلامی سندھ کے امیر چودھری غلام محمد کو اپنا قائم مقام مقرر کردیاتھا۔

چنانچہ ماچھی گوٹھ کا اجتماع ارکان جماعت کے قائم مقام امیر چودھری غلام محمد کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مولانا نے اپنے افتتاحی خطاب میں اس اجتماع میں پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجلس شوریٰ دو ہفتے کے غورو خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ پالیسی اختلافات پر ارکان جماعت کی رائے لینے کے لئے پاکستان بھر کے ارکان جماعت کو کھل کر بحث کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ ان کی رائے کی روشنی میں آخری فیصلہ کیا جاسکے۔

دراصل پالیسی اختلافات مولانا ہی کی قائم کردہ ایک جائزہ کمیٹی کی رپورٹ سامنے آنے پر پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ اس رپورٹ پر مجلس شوریٰ مسلسل دو ہفتے غور کرنے کے باوجود کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی جس کے بعد ارکان جماعت ہی کا ادارہ (institution)باقی رہ گیا تھا۔ جس کی رائے کو حتمی شکل دی جاسکتی تھی۔ مولانا کا افتتاحی خطاب 6گھنٹے پر مشتمل تھا جسے مولانا نے اپنے الفاظ میں اپنی زندگی کا طویل ترین اور مختصر ترین خطاب قرار دیا۔

طویل اس اعتبار سے کہ اس کا دورانیہ چھ گھنٹے تک محیط تھا اور مختصر اس اعتبار سے کہ مولانا نے ابتداء سے لے کر اب تک پندرہ بیس سال کے عرصے میں جس پالیسی پر جماعت کی قیادت فرمائی اس کا خلاصہ اس سے کم وقت میں ممکن نہیں تھا۔ تقریر کے طویل ترین اور مختصر ترین ہونے کی وضاحت مولانا نے کم و بیش انہی الفاظ میں کی تھی۔

اپنی تقریر کے اختتام پر مولانا نے ارکان جماعت کو دعوت دی کہ میں آپ کے سامنے جماعت کی پالیسی کے بارے میں اپنی طرف سے ایک قرار داد پیش کررہا ہوں جس میں جماعت کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں میری رائے شامل ہے۔ آپ حضرات میں سے جو صاحب میری اس قرارداد کے مقابلے میں اپنی متبادل قرارداد پیش کرنا چاہیں، صدر اجلاس کے پاس جمع کرادیں۔ اس کے بعد قرارداد کے محرک کو اپنی قرارداد کے حق میں اظہار رائے کا موقع دیا جائے گا۔

دوسرے ارکان بھی جو کچھ کہنا چاہیں کھل کر اپنے موقف کااظہار کریں۔اس کے بعد ہی جماعت کی آئندہ پالیسی کے با رے میں آخری فیصلہ کیا جاسکے گا۔

اپنی اس تقریر کے بعد مولانا مودودی عام ارکان جماعت کے ساتھ ایک گوشے میں جا بیٹھے اور چودھری غلام محمد صاحب کو قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اختیار دیاگیا کہ وہ جس طرح مناسب خیال کریں اس اجتماع کی کارروائی Conductکریں۔اس دوران میں وقفے وقفے سے مجلس شوری کے ارکان آپس میں صلاح مشورہ بھی کرتے رہے اور عام ارکان جماعت اپنے افکار و خیالات کا اظہار بھی کرتے رہے۔

یہاں اس حقیقت کااظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عام سیاسی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی کا یہ اجتماع بحیثیت مجموعی سنجیدگی و متانت کا بہترین مظہر تھا۔کسی مقرر کے جذبات میں معمولی نوعیت کی تلخی بھی ہوتی تو اسے رواداری اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا جاتا۔ بعض ارکان جماعت مولانا مودودی سے اپنے جذباتی نوعیت کے تعلقات کے باعث اختلاف رائے کا اظہار کرنے والے ارکان جماعت کے خلاف برہمی کا اظہار بھی کرتے رہے اور وہ ارکان جماعت جو اپنے اختلافی موقف کو جماعت ہی کے مفاد کے نقطہ نظر سے مبنی برانصاف تصور کرتے تھے۔طریق کار سے اختلاف کے باعث ایک مرحلے پر جناب ارشاد احمد حقانی چند لمحوں کے لئے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کرگئے جن کی تائید میں جناب محی الدین سلفی بھی احتجاجاً اجتماع گاہ سے باہر نکل گئے۔لیکن یہ احتجاج بالخصوص بائیکاٹ کا اقدام جماعت کے اجتماعی مزاج سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس لئے اس پر اظہار پسندیدگی نہیں کیاگیا۔

صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان مولانا مودودی سے اپنی غیر معمولی عقیدت کے باعث اختلاف رائے کااظہار کرنے والے اپنے رفقاء کے طرز عمل کے بارے میں سخت ناگواری کااظہار بھی کرتے رہے۔ ارکان جماعت نے مولانا مودودی کی پیش کردہ قرارداد کے خلاف اپنی متبادل قراردادیں پیش کیں میں نے مولانا مودودی کی اس قرارداد کے صرف آخری پیراگراف میں ترمیم پیش کی۔

کرسی صدارت کی طرف سے اگرچہ یہ اعلان کیاگیا کہ میری ترمیم کو بھی متبادل قرارداد تصور کیا جائے لیکن میرا موقف یہ تھا کہ مولانا کی قرارداد کے پہلے تین پیراگراف ایسے ہیں جن پر مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ چوتھے گراف میں میں ترامیم پیش کررہا ہوں۔

میں لاہور کے ارکان کی صف میں ایسی جگہ بیٹھا تھا جہاں مجھے مولانا امین احسن اصلاحی کی ہمسائیگی کا شرف حاصل تھا۔چنانچہ مولانا نے مجھے اپنی ترمیم پر تقریر کرنے سے احتراز کا مشورہ دیا لیکن جب میں نے بصد ادب مولانا سے یہ گزارش کی کہ یہ میرے ایمان کا تقاضا ہے کہ اپنے رفقاء کے سامنے اپنا طرز فکر واضح کروں۔ اس پر مولانا نے بخوشی مجھے اظہار رائے کی اجازت دے دی۔

دوسرے ارکان میں مولانا عبدالرحیم اشرف، ڈاکٹر اسرار احمد، جناب ارشاد احمد حقانی تھے۔ متبادل قراردادیں پیش کرنے والوں نے اپنی اپنی قراردادوں کے حق میں تقریریں بھی کیں اور رائے شماری بھی کرائی۔ڈاکٹر اسرارا حمد اور ارشاد احمد حقانی کو علی الترتیب(4) اور (18) ووٹ ملے۔ البتہ مولانا عبدالرحیم اشرف نے اپنی قرارداد پر رائے شماری کرانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں نے اپنی قرارداد پیش کردی ہے جس کا رد و قبول ارکان جماعت کی صوابدید پر منحصر ہے جہاں تک میری ترمیم کا تعلق ہے اس کے حق میں حیران کن حد تک (138) ووٹ آئے۔

میں نے اپنی ترمیم کے حق میں جو تقریر کی اس کے موثر ہونے کاایک تو یہی ثبوت بالکل واضح ہے کہ آٹھ نو سو ارکان جماعت میں سے (138) ارکان میرے موقف کے حامی تھے لیکن اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک دور میں جماعت اسلامی کے امیر جناب شیخ سلطان احمد نے بھی میری قرارداد کی تائید فرمائی۔ وہ اس اجتماع میں کراچی کے بعض ارکان کے اصرار پر اس شرط کے ساتھ شریک ہوئے تھے کہ وہ اجتماع میں کسی کے حق میں یا خلاف کوئی رائے نہیں دیں گے۔

جب ان سے میری تائید کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کی تقریر کی ہر بات میرے دل کی آواز تھی اس لئے میں نے اس کے حق میں رائے دی۔ ہرمتبادل رائے پیش کرنے والے کی تقریر کے دوران فضا میں کچھ نہ کچھ تلخی بھی محسوس کی گئی لیکن میری تقریر کے دوران میں اس اعتبار سے غیر معمولی صورتحال پیش آئی کہ خود مولانا مودودی اسٹیج پر تشریف لائے اور انہیں نے میری بعض باتوں کی وضاحت بھی کی لیکن میں اپنے موقف میں کسی تبدیلی کے لئے آمادہ نہیں ہوا۔

اس ضمن میں یہ تاریخی حقیقت بھی بیان کردینا نامناسب معلوم نہیں ہوتا کہ مولانا مودودیؒ اپنی قرارداد میں میری اس ترمیم کے بعض حصوں کو قبول یا شامل کرنے کے لئے تیار تھے لیکن ان کا کہنا یہ تھا کہ اس ترمیم کے شامل کرنے سے قرارداد کے ساتھ ایسے ایسے طویل ضمیمے شامل کرنے پڑیں گے کہ اس کے بعد قرارداد کی اشاعت آسان نہیں رہے گی۔

مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی تقریر کے وہ حصے بیان کرنے سے قاصر ہوں جو میری تقریر کے وزن میں اضافہ کررہے تھے۔ اس ضمن میں اپنی اس رائے کا اظہار کرنے پر اکتفا کروں گا جو میں نے محترم جناب میاں طفیل محمد صاحب کے اس خط کے جواب میں دی تھی کہ جماعت کی رواداد مکمل کرنے کے لئے اجتماع ماچھی گوٹھ میں آپ کی تقریر شامل کرنا ضروری ہے۔

میں نے ذاتی طورپر میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ میری تقریر ارکان جماعت تک ہی محدود رہنی چاہئے۔اس کا عام کرنا کسی طرح بھی قرین مصلحت نہیں ہوگا چنانچہ میں آج بھی اس موقف پر قائم ہوں۔ ادھر اگرچہ گرما گرم تقریروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن مجلس شوریٰ کے ارکان مسلسل اس کوشش میں مصروف تھے کہ مولانا مودودی کی اصل قرارداد کو کوئی ایسی شکل دی جاسکے جس پر ارکان شوریٰ کا اتفاق ہو۔

یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ میں یہ گزارش کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ بنیادی اختلاف صرف اس امر پر تھا کہ جماعت کی دعوتی سرگرمیوں کو عملی یا انتخابی سیاست کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوئی تدبیر اختیار کی جائے۔ چنانچہ جس قرارداد کو آخری شکل میں ارکان جماعت کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیاگیا اس میں کہا گیا کہ آئندہ دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس قرارداد پر مختلف مقررین نے کچھ اس انداز سے استدلال کیا گویا توازن کا لفظ شامل کرنے سے سیاسی سرگرمیوں پر ایک حد تک قدغن لگ جائے گی۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ مولانا مودودی نے اس طرز استدلال کو نہ صرف یہ کہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ اپنے اصل موقف کے یکسر منافی محسوس کیا۔ چنانچہ مولانا نے جب اپنی آخری تقریر میں قرارداد پیش کی تو قدرے برافروختگی کے عالم میں بعض تقریروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”توازن“ کی اصطلاح کو یہاں جو معنی پہنائے جارہے ہیں انہیں تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔ لہٰذا میں اپنی قرارداد میں سے ”توازن“کے الفاظ حذف کرتا ہوں۔

مجھے کچھ ایسا یاد پڑتا کہ غالباً مولانا نے اسی وقت اپنی قرارداد میں سے ”توازن“ کے الفاظ اپنے قلم سے علانیہ حذف کردیئے اور اس شکل میں یہ قرارداد رائے شماری کے لئے پیش کردی گئی۔جس سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد غالباً 18تھی۔ میں آج اڑتالیس سال کے بعد پہلی مرتبہ اس حقیقت کا برملا اظہار کررہا ہوں کہ اپنی ترمیم کے حق میں (138)ووٹ لینے کے باوجود بحث و تمحیص کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کہ آخری شکل میں مولانا مودودی کی طرف سے جو قرارداد بھی پیش کی جائے گی اس سے اختلاف نہیں کیا جائیگا۔

چنانچہ میں اس قرارداد سے اختلاف کرنے والوں میں شامل نہیں تھا لیکن ہماری مرکزی قیادت بالخصوص مولانا مودودی کے بعض غالی عقیدت مندوں نے (میں یہ الفاظ سوچ سمجھ کر لکھ رہا ہوں) انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے اور میرے بعض دوسرے ہم نواؤں کو مولانا مودودی کے مخالف گروہ میں شمار کرنا ضروری سمجھا۔

میری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ مولانا مودودی تنقیدو احتساب کے عمل سے گزرتے ہوئے پریشان تو ضرور ہوئے لیکن ہم ایسے نیاز مندوں سے ان کے مشفقانہ جذبات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ چنانچہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ جب بعض شرکائے اجتماع مجھے اور ارشاد احمد حقانی کو انتہائی نامناسب انداز میں بے جا تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو مولانا مودودی نے واشگاف اور دوٹوک الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ ”میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں کہ مجھے ان دونوں ……ارشاد احمد حقانی اور مصطفی صادق…… کی دیانت و امانت پر مکمل بھروسہ ہے اور جہاں تک ان کا یا اختلاف کرنے والے دوسرے رفقاء کا تعلق ہے، میں نہیں چاہوں گا کہ وہ جماعت سے الگ ہو جائیں لیکن اگر انہوں نے جماعت سے علیحدگی پر اصرار کیا تو میں ان کی پیشانی پر بوسہ دے کر انہیں رخصت کروں گا۔

آخر میں ماچھی گوٹھ کے اس تاریخی اجتماع کے حوالے سے اس رائے کے اظہار میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتا کہ ارکان شوریٰ کے مابین مصالحانہ کوشش میں مولانا ظفراحمد انصاری کو بھی گہرا دخل تھا جو اس مقصد کے لئے ماچھی گوٹھ پہنچے اور جماعت کو داخلی خلفشار سے بچانے کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہے۔( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں