نمود و نمائش کی رسیا ایک خاتون کی کہانی جو اعلیٰ برانڈز کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی
ڈاکٹر میمونہ حمزہ
فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں رونق سی رونق تھی۔ اگلے ہفتے میڈم عائزہ کی رخصتی تھی۔ اور آج کا سارا ہلہ گلہ اسی سلسلے میں تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کی آٹھ اساتذہ میں سے وہ تیسری تھی جو پیا دیس سدھار رہی تھی۔ ہیڈ آف ڈی ڈیپارٹمنٹ ادھیڑ عمر تھیں، مگر اتنی فٹ تھی کہ عمر سے ایک دھائی کم کی لگتیں۔ باقی اساتذہ اسی کی مانند لیکچرر تھیں، عمر میں کچھ اس سے بڑی کچھ برابر کی، مگر انہیں شادی کی کوئی جلدی نہ تھی، رشتہ مناسب ہونا چاہیے، تاکہ تمام عمر کا پچھتاوا نہ رہ جائے۔
ان کے اتنے اونچے اونچے خواب دیکھ کر عائزہ نے انہیں اپنے منگیتر کے بارے میں مبہم معلومات ہی دی تھیں، کیونکہ ہر معاملے میں بال کی کھال اتارنا اور بے دریغ تبصرے کرنا ان میں سے اکثر کی عادت تھی۔ ان کے اصرار پر ہی اس نے اپنے منگنی کی تصویر یں دکھائیں، اور وہ کتنا پچھتائی تھی، جب تبصرے منگیتر کے قد اور بالوں سے ہوتے ہوئے ایک ایک انداز پر اس طرح ہو رہے تھے، جیسے وہ ان کے فائن آرٹ کے کینوس کی کوئی تصویر ہو، اور اگر ان کا بس چلتا تو کچھ رنگ اپنی پسند کے مطابق بدل ڈاتیں،
عائزہ نے روہانسی سی ہو کر تصویر بیگ میں ڈال لی۔ وہ سب اس کے احساسات سے بے نیاز اب تک اس پر تبصرے کر رہی تھیں، بلکہ اس کے منگیتر کے کئی نک نیم بھی تجویز کئے جا چکے تھے۔گھر پہنچنے تک اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا، شام اسے اپنا برائیڈل ڈریس وصول کرنے جانا تھا، اس نے اپنے سسرال والوں کے ساتھ جا کر ایک مہینہ پہلے ہی اس کا آرڈر دیا تھا۔ اس روز تو اس نے سب کی پسند ہی کو ترجیح دے کر ایک مناسب سا لہنگا پسند کر لیا تھا، مگر آج یہی لباس اس کے حواسوں پر چھایا ہوا تھا، اس کی کولیگز نے اسے ایسے ایسے برائیڈل ڈریسز دکھائے تھے کہ اب اسے اپنا آرڈر کردہ لباس کم تر سا لگ رہا تھا۔
دکان دار نے لہنگا پیک کرنے سے پہلے اسے ڈسپلے پر لگا کر دکھایا، اس کی باجی کی باچھیں کھل اٹھیں، اور وہ تصور ہی تصور میں عائزہ کو دلہن کے سراپے میں سوچ کر بھی اس پر نظر کا دم کر رہی تھیں، مگر عائزہ الجھی ہوئی تھی۔ اس نے موبائل پر ایک تصویر دکھا کر کاریگر کو مخاطب کیا:
’’یہ چینجز کر سکتے ہیں اس میں؟‘‘۔۔
’’جی بہنا، چینجز تو ہو جائیں گی، مگر دو دن اور لگیں گے۔۔ اور۔۔ اور اس کی پے منٹ بھی ایکسٹرا ہو گی‘‘۔
اس نے امید بھرے انداز میں باجی کی جانب دیکھا، اور ان کے تبصرے سے پہلے ہی کاریگر بول اٹھا:
’’اس اضافے کے بعد لہنگے کی ’’لک‘‘ اور بھی اچھی ہو جائے گی، بس دس ہزار مزید لگیں گے‘‘۔
باجی نے کہنا چاہا، کہ یوں بھی ٹھیک ہی ہے، بہت اچھا لگ رہا ہے، اور دو روز بعد پھر اتنی دور آنا پڑے گا، آج کا چکر تو ضائع ہی گیا، مگر وہ اس سب سے ہٹ کر اپنے ہی خوابوں میں مگن تھی۔ اب یہ محسن سنز کے لہنگے کے کافی قریب ہو جائے گا ڈیزائن میں، اور شادی میں دلہن دیکھنے سے زیادہ تو یہی پوچھا جا تا ہے کہ ’’برائیڈل ڈریس ‘‘ کہاں کا ہے؟ اب اسے کوئی پریشانی نہ تھی۔ اس کی کولیگز سب بھی آ جائیں تو وہ کہہ دے گی، ’’محسن سنز‘‘ کا ہے،
اس خیال کے ساتھ ہی اس نے ٹھنڈی سانس لی، اور دونوں بہنیں باہر نکلیں تو ایک جانب اطمینان تھا اور دوسری جانب خرچہ مزید کھل جانے پر گہری خاموشی تھی۔شادی کی ساری رسموں میں اس کی خوشی کا ایک پہلو دوسروں کے تاثرات دیکھ کر بڑھ اور گھٹ رہا تھا۔ ولیمے سے اگلے دن شادی کے گفٹس دیکھتے ہوئے اس کے شوہر نے بھی محسوس کیا تھا کہ کچھ تحائف نے اسے بہت خوش کیا تھا، وہ تمام تحائف جو بڑے برانڈز کا لیبل لئے ہوئے تھے۔
اسد نے اسے کئی مرتبہ عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کے خوشی میں شمولیت پر تحائف کی جانب متوجہ کرنا چاہا، اپنے اور ان کے رشتوں کی قربت سمجھانا چاہی، مگر عائزہ کی نگاہیں سب کو برانڈز کے ترازو ہی میں تول رہی تھیں۔
اسد نے آفس سے ایک ہفتے کی چھٹی منظور کروا لی تھی، اور اب وہ نئی نویلی دلہن کے ساتھ بیٹھا سیر و سیاحت کے پروگرام کو حتمی شکل دے رہے تھے۔ وہ کسی پرفزا اور پرسکون مقام پر جانا چاہتا تھا، مگر عائزہ ان خوابوں کو تعبیر دینا چاہتی تھی، جن کا تذکرہ ڈیپارمنٹ کی سہیلیوں سے سنا تھا۔ اسد نے خیرخواہانہ انداز میں ہتھیار ڈال دیے، وہ اتنی سی بات پر اپنے خوبصورت گھونسلے میں کوئی چونچ نہیں لڑانا چاہتا تھا۔
پورے ہفتے میں جہاں ان کا بہت خوش گوار وقت گزرا وہاں کئی مرتبہ وہ عائزہ کی کئی عادتوں سے بیزار بھی ہوا۔ کبھی کھانا منگوانے سے پہلے مینیو کی تصاویر اپ لوڈ کرنا اور کبھی بھاپ اڑاتے کھانے کی، کبھی آئس کریم کھانے کی اور کبھی راہ چلتے کسی خوبصورت ریستوران کے احاطے میں کھڑے ہو کر اس طرح تصویریں بنانا، گویا اسی سے باہر نکل رہے ہوں۔ اسد کئی مرتبہ منہ موڑ کر کھڑا ہوا، مگر عائزہ نے اپنی ہی سیلفی بنا کر اسٹیٹس اپ لوڈ کر دیا۔اسد نے ہولے سے شکوہ کیا:
۔ ’’ہم اپنی خوشی کے لئے آئے ہیں عائزہ، میں تم سے بات کرتا ہوں، اور تم نجانے کہاں گم ہوتی ہوتی ہو ۔۔‘‘۔
عائزہ کھسیانی ہو گئی، وہ اسد کو کیا بتاتی کہ وہ تصور میں ان اپ ڈیٹس کا مزا لے رہی تھی، جو اس نے فیس بک اور انسٹاگرام پر لگائے تھے۔ دن پر لگا کر اڑ گئے، اب وہ واپسی کے لئے کوچ میں بیٹھے تھے، اتنے اونچے پہاڑ اور ان کے بیچ میں بل کھاتا دریا اور اس کا سفید پانی! اسد نے سرگوشی کی، جو فیس بک کی لائیکس اور کمنٹس کی گنتی میں گم دوشیزہ نے مس کر دی، اپنائیت اور خوشگواریت کا ایک اور لمحہ منہ بسور کر منہ موڑ گیا۔ عائزہ نے فارغ ہو کر اسد کی جانب متوجہ ہونا چاہا تو وہ نیند کی وادی میں پہنچ چکا تھا۔
علی الصبح وہ گھر سے نکلنے کو تیار تھے، یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ عائزہ کا کالج اسد کے آفس کے راستے میں پڑتا تھا۔ وہ حیران تھا کہ عائزہ یا تو کسی کولیگ سے لفٹ لیکر چلی جاتی، اور اگر وہ اس کے ہمراہ ہوتی تو بھی اس کے چہرے پر ہلکا سا تناؤ ہوتا، اور وہ کالج گیٹ سے کچھ پہلے ہی اترنا پسند کرتی۔
اس کے گھروالوں نے عائزہ کو بہت محبت سے گھر میں جگہ دی تھی، اس کی بہنیں بھابھی کی پسند کا خیال رکھتیں، اور جلد ہی ان میں دوستی بھی ہو گئی۔اسد کو بھی عائزہ پسند آئی تھی، کئی معاملات میں ان کی سوچ ایک جیسی تھی تو کہیں کہیں اختلاف بھی کھنچاؤ کا باعث نہ بنتا، کبھی وہ مان لیتا اور کبھی عائزہ سرنڈر کر دیتی۔ ایک چیز جس پر وہ ابھی تک اسے قائل نہ کر پایا تھا وہ حد سے بڑھی ہوئی نمود و نمائش اور برینڈز کی دوڑ تھی۔
اسد کا گھرانا متوسط معاش کا حامل تھا، جہاں اس کے والد اور دو چھوٹے بھائی بھی کما رہے تھے، ایک بہن کی شادی ہو چکی تھی اور ایک کی ذمہ داری ابھی سر پر تھی۔ عائزہ کے اثرات اس کی بہنیں بھی قبول کر رہی تھیں، اور اب آپس میں ان کی گفتگو بھی اسی انداز سے ہوتی، اور اسد کے کانوں تک پہنچتی تو وہ خوب مذاق اڑاتا۔ کھانے کی میز پر وہ نئے نئے چٹکلے چھوڑتا:
’’ بیگم صاحبہ آج بھنڈی کس برانڈ کی ہے؟ اور روٹی ۔۔‘‘۔عائزہ بھی کھسیا کرجوابی وار کرتی ، مگر ۔۔ وہ جب بھی اکٹھے خریداری کے لئے جاتے واپسی پر عائزہ کا موڈ آف ہوتا، کپڑے جوتے اور بیگ تو رہے ایک طرف وہ بسکٹ کا پیکٹ خریدتے ہوئے بھی پہلے برانڈ دیکھتی۔اسد اسے جیب کے مطابق خرچ کا کہتا تو وہ عجیب چڑچڑاہٹ کا شکار ہو جاتی۔اور یہی سرد مہری ان کے تعلق کی خوشگواریت میں کسی پہاڑ کی مانند حائل ہونے لگتی،
وہ ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے لا تعلق سے ہو جاتے، اور مشکل ہی سے مسکراہٹ ان کے لبوں پر کھلتی۔عائزہ نے ایک مہینہ پہلے ہی اپنی شادی کی سالگرہ کا دن اس انداز میں یاد کروایا تھا، انداز ہی سے اسد جان گیا تھا کہ ’’فرسٹ اینورسری گفٹ‘‘ کے لئے زمین ہموار کی گئی ہے،
اس مہینے اس نے خلاف ِ معمول اوور ٹائم بھی لگایا۔ وہ عائزہ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ اس شام وہ اسے باہر کھانے پر لے گیا، ریسٹوران اس کی جیب کے مطابق تھا، مگر مینیو کے لئے اس نے عائزہ کی پسند کو ترجیح دی تھی، وہ ایک سال کی حسین یادوں کو دہرانا چاہتا تھا، اسی لئے گاڑی کی رفتار نا دانستہ طور پر کچھ تیز تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنی دراز سے ایک خوبصورت تحفہ اس کو پیش کیا، جس پر دعائیہ کلمات لکھے تھے، جنہیں عائزہ نے سرسری طور پر پڑھا، اسے سرپرائز کھولنے کی جلدی تھی، اور اس سے بھی بڑھ کر اسٹیٹس اپ لوڈ کرنے کی۔ چھوٹا سا ڈبہ کھلا اور اس میں سے ایک خوبصورت گولڈن گھڑی برآمد ہوئی۔ اسد نے آگے بڑھ کر گھڑی اس کی کلائی میں پہنا دی۔۔
’’یہ وقت بھی بہت قیمتی ہے، ہماری زندگی ۔۔ ‘‘۔
ابھی اس کا جملہ بھی مکمل نہ ہوا تھا، کہ عائزہ نے جھک کر گھڑی کے برینڈ کو جانچ لیا تھا، راڈو گھڑی کا تو اس نے سوچا بھی نہ تھا لیکن کیا اسد اس کے لئے ’’سیکو فائیو‘‘ یا ’’سیٹیزن‘‘ کی گھڑی بھی نہ خرید سکتا تھا؟ یہ کیا تھرڈ کلاس برینڈ ہے، اس سے بہتر گھڑی تو اس کی سٹوڈنٹس کی کلائی میں ہوتی ہے۔ اس نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ بولا، اور لفظوں کو اظہار کی ضرورت بھی کیا تھی؟
اس کی آنکھوں سے نکلنے والا تابکار مادہ اس سنہری گھڑی کی چکا چوند کو مات کر رہا تھا۔اس نے موبائل پر الارم لگایا اور منہ پھیر کر لیٹ گئی۔ سرد مہری کا دیو ہیکل پہاڑ پوری قامت کے ساتھ ان کے بیچ حائل ہو چکا تھا۔