ظفر ملک :
یہ جنوری کی ایک یخ بستہ شام تھی، راولپنڈی شہر کے نواح میں اس وقت کے وزیر اعظم ہاؤس کے قریب واقع سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں وزیراعظم محمد خان جونیجو قومی اخبارات و جرائد کے مقامی کارکنوں سے مخاطب تھے۔
یہ ایک درمیانے سائز کا ہال تھا جس کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ وزارت اطلاعات کے افسروں کو بھی ہال کے اندر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، مدوعین میں مقامی اخبارات کے ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، سٹی پیج کے انچارج، چیدہ چیدہ رپورٹر جن میں جونیئر اور سینئر سب شامل تھے۔
آئیڈیا یہ تھا کہ صدر جنرل ضیا الحق کے ساتھ بطور وزیراعظم فرائض انجام دینے والے محمد خان جونیجو عوام کے اصل مسائل اور عوامی سوچ کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔
کسی نے انھیں مشورہ دیا کہ اصل بات تو آپ کو اخبارات کے نیوز روم میں کام کرنے والے صحافتی کارکن اور عوام کے معاملات کی براہ راست کوریج کرنے والے رپورٹر ہی بتا سکتے ہیں۔
اس لیے محمد خان جونیجو سے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا لیکن اس سے قبل ایک نشست سوال جواب کی تھی جس میں سامنے اکلوتی چیئر پر محمد خان جونیجو خود بیٹھے اور سامنے قطار در قطار صحافتی کارکنوں کو بٹھایا گیا۔ چونکہ اس زمانے میں کوئی پرائیویٹ چینل موجود نہیں تھا اور ٹیلی ویژن کا مطلب صرف پاکستان ٹیلی ویژن تھا اس لیے چیزیں بہت سیدھی سادی تھیں۔
محمد خان جونیجو نے تقریبِ ملاقات کی غرض و غایت بیان کی اور آخر میں کہا ’ ہمیشہ ہر پریس کانفرنس میں سوال آپ صحافی لوگ کرتے ہیں اور میں جواب دیتا ہوں لیکن آج الٹا چکر ہو گا۔ سوال میں کروں گا اور جواب آپ لوگ دیں گے۔‘
اس کے بعد انھوں نے براہِ راست سوال داغ دیا کہ ’ میرے بارے میں پاکستان کے عوام کیا رائے رکھتے ہیں؟‘
’ سائیں، یہ مارشل لا کی یادگار بھی تو میرے سر سے ہٹے‘
انھوں نے جواب کے لیے حاضرین پر نگاہ دوڑائی، درمیان کی قطار میں موجود روزنامہ جسارت کراچی کے سینیئر رپورٹر حافظ عبدالخالق اٹھے اور بولے: ’ جناب آپ کے بارے میں عوام میں تاثر یہ ہے کہ آپ ایک کمزور اور قوت فیصلہ سے محروم وزیر اعظم ہیں۔‘
’ اچھا!‘ محمد خان جونیجو چونک گئے اور چہرے پر تیز مسکراہٹ آ گئی، مخصوص سندھی انداز میں بولے: ’ بابا، ذرا تفصیل سے بتاؤ کی عوام ایسا کیوں سوچتے ہیں؟‘
حافظ عبدالخالق نے کہا ’ جناب وزیراعظم ، عوام اس لیے ایسا سوچتے ہیں کہ آپ نے وزیراعظم بنتے ہوئے عوام سے جو وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی تو پورا نہیں ہوا۔ سیاسی کارکن ابھی تک جیلوں میں بند ہیں، جو لوگ مارشل لا کے خلاف لڑتے ہوئے سزا یاب ہوئے ابھی تک انھیں کوئی ریلیف نہیں ملا ‘ اس کے علاوہ بھی حافظ عبدالخالق نے کچھ اور مثالیں دیں۔
وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اپنا سر ایک لمحے کو جھکایا پھر اوپر دیکھ کر بہت سنجیدگی سے کہا: ’ سائیں، یہ مارشل لا کی یادگار بھی تو میرے سر سے ہٹے۔‘
وزیر اعظم کے اس جواب پر ہال میں سناٹا چھا گیا۔
اس کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے سوالات اور حاضرین کی طرف سے جوابات کا طویل سلسلہ شروع ہوا جو رات گئے تک جاری رہا۔
سوال جواب کی اس انوکھی نشست کے آخر میں کارکن صحافیوں کو ایک شاندار عشائیہ دیا گیا جس میں راؤنڈ ٹیبل کے گرد بیٹھے مہمانوں کو ان کی نشست پر ہی سرخ شیروانیوں میں ملبوس، کلے باندھے ہوئے اہلکاروں نے کھانا پیش کیا۔
اس تقریب میں مجھے وزیر اعظم کے مین ٹیبل پر جگہ ملی تھی اس لیے کھانے کے دوران وزیر اعظم کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ اب بطور وزیر اعظم اپنا کردار ادا کرنے کا ذہن بنا چکے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر محمد خان جونیجو باہر لاؤنج میں کھڑے ہو گئے اور ایک ایک مہمان کو خود رخصت کیا۔
راقم الحروف نے دیکھا کہ محمد خان جونیجو نے اپنے پہلو میں کھڑے اس وقت کے وفاقی سیکرٹری اطلاعات عبدالمجید مفتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’ مفتی صاحب ! اتنی معلومات تمام ایجنسیوں نے آج تک مجھے فراہم نہیں کی ہوں گی، جتنی آج ایک نشست میں مجھے ملی ہیں کیونکہ ان تمام لوگوں کو عوام سے براہ راست رابطہ ہے، اس لیے آئندہ ہر تین ماہ بعد اسی جگہ پر ایسی ہی نشست کا اہتمام کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔‘
لیکن صحافتی کارکنوں سے یہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی اس انداز میں پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
انہی تین ماہ کے اندر اندر اوجھڑی کیمپ کا سانحہ ہوا اور ابھی وہ اس سے سنبھل نہ پائے تھے کہ 29 مئی آ گیا اور محمد خان جونیجو ایوان وزیر اعظم سے بیک بینی و دو گوش نکال باہر کر دیے گئے۔
محمد خان جونیجو ہی وزیر اعظم کیوں؟
سینیٹ کے طویل عرصے تک قائد ایوان اور قائد حزب اختلادف رہنے والے راجہ محمد ظفر الحق چار سال تک جنرل ضیا کی کابینہ میں اطلاعات و نشریات کے ایسے وزیر رہے کہ جن کے اختیارات اور سج دھج پر آنے والے صرف رشک ہی کر سکتے ہیں۔
راجہ ظفر الحق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے سیاسی امور کے مشیر بھی رہے۔
اس سوال کے جواب میں راجہ ظفر الحق کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے گرد موجود کرتا دھرتا جرنیلوں کی رائے تھی کہ سندھ سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اگلا وزیر اعظم سندھ سے ہی لانا ہو گا تاکہ اسے قبولیت کی سند مل سکے اور ایسی ہی رائے پیر صاحب پگارا کی بھی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ پھر معاملہ فہمی اور دیانت داری کا جو درجہ محمد خان جونیجو کو حاصل تھا وہ کسی دوسرے میں کم ہی تھا۔ الٰہی بخش سومرو بھی امیدوار تھے لیکن راجہ ظفرالحق کے بقول: ’ فیصلہ سازوں کا اتفاق رائے محمد خان جونیجو پر ہی تھا۔‘
سینیئر صحافی اور دی نیوز اور دی نیشن کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ’ جنرل ضیاء الحق کو ایک نرم گفتار سیاست دان کی ضرورت تھی جس کے اپنے کوئی عزائم نہ ہوں اس لیے ان کی نظر انتخاب محمد خان جونیجو پر پڑی۔‘
سینیئر صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ’ سندھڑی سے اوجھڑی کیمپ تک ‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’ 21 مارچ 1985 کی رات تک کسی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سندھڑی سے تعلق رکھنے والے منکسر المزاج زمیندار محمد خان جونیجو، جنھیں ان کے سیاسی پیشوا پیر پگارا سابق وزیر ریلوے ہونے کے باعث پیار سے ریلوے بابو کہا کرتے تھے، اچانک ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔‘
’ اگرچہ پیر پگارا نے انتخابات سے بھی قبل یہ بات کہہ دی تھی کہ ہم وزیر اعظم کے لیے محمد خان جونیجو ادھار پر دے دیں گے۔ تب وزارت عظمیٰ کے ظاہری طور پر دو اور اصل امیدوار پانچ تھے، میر ظفر اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان سے، محمد خان جونیجو اور الہیٰ بخش سومرو کا تعلق سندھ سے، محمد اسلم خان خٹک کا تعلق سرحد سے اور مخدوم حامد رضا گیلانی کا تعلق پنجاب سے تھا۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’ جمالی صاحب کو کم عمر اور جذباتی نوجوان سمجھ کر مسترد کر دیا گیا۔ حامد رضا گیلانی پنجابی ہونے کے باعث رہ گئے اور محمد اسلم خان خٹک چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان کی وجہ سے چھوڑ دیے گئے سو قرعہ فال کسی ایک کے نام پڑنے والا تھا۔ دونوں سندھی اور تقریباً ایک ہی حیثیت کے زمیندار تھے، ایک کو پیرصاحب کی مکمل حمایت حاصل تھی تو دوسرے بھی ان کے دوست ہی تھے۔‘
’ آج کسی کو یہ بات کیسی بھی لگے مگر واقعہ یہی ہے کہ 22 مارچ 1985 کی دوپہر جب صدر مملکت اراکین قومی اسمبلی کے پہلے گروپ کو محمد خان جونیجو کے بارے میں اپنے فیصلے سے مطلع کر رہے تھے، اس وقت الہیٰ بخش سومرو، پیر صاحب پگارا کے اسلام آباد والے گھر میں بیٹھے، انھیں رام کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر پیر صاحب کے لیے اپنا فیصلہ بدلنا کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ صدر صاحب سے صاف کہہ چکے تھے کہ وزیر اعظم کا تعلق اگر سندھ سے ہو گا تو وہ صرف محمد خان ہو گا۔‘
مارشل لا کب اٹھے گا؟ فوجی صدر سے اختلافات کا آغاز
طویل عرصہ روزنامہ جنگ سے وابستہ رہنے والے صحافی عظیم چوہدری کا کہنا ہے کہ صدر ضیا الحق سے اختلافات تو جونیجو صاحب کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی شروع ہو گئے تھے۔
صدر جنرل ضیاالحق نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے جب محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا تو پہلی ملاقات جس میں جنرل کے ایم عارف بھی موجود تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب جونیجو صاحب نے جنرل ضیا الحق سے سوال کیا کہ مارشل لا کب اٹھے گا ؟ کیونکہ جب وزیراعظم ہو گا تو مارشل لا تو نہیں چل سکتا، تو پہلے 12 منٹ میں ہی اختلاف سامنے آ گیا تھا کیونکہ راوی بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے چہرے پر ناگوار تاثرات تھے۔
سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ’ جب محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا تو انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کیے، ان کے کئے ہوئے کئی فیصلوں سے صدر ضیا الحق کو اتفاق نہیں تھا اور بعض معاملات پر ان کا خیال تھا کہ جونیجو صاحب ان کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنرل ضیا بہرحال ایک آمر تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ انہی کا نامزد کیا ہوا وزیر اعظم ان کےسامنے ریڈ لائن کراس کرے کیونکہ اس وزیراعظم کو تو لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان میں جمہوری نظام نافذ ہے۔‘
راجہ ظفر الحق صدر جنرل ضیا الحق اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات اور ان کی وجوہات کی تفصیلات سے خوب واقف ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ اپریل 1986 میں بے نظیر بھٹو کی واپسی کے بعد سے ملک میں سرگرم اپوزیشن جماعتوں سے وزیراعظم جونیجو کے رابطوں کو فوجی قیادت پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی۔ جب جنیوا معاہدے سے قبل جونیجو صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مشورے کے لیے طلب کی تو جنرل ضیا الحق نے انھیں کہا کہ وہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور خطاب کرنے کے خواہش مند ہیں۔
’ جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو سے کہا کہ میں جنیوا مذاکرات کے حوالے سے اپنا مؤقف ان لوگوں کے سامنےرکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں معاہدے کے حق میں نہیں ہوں ( جنرل ضیاء الحق افغانستان میں مستحکم سیاسی حکومت کے قیام سے قبل جینوا معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھے ) لیکن محمد خان جونیجو نے صاف منع کر دیا اور کہا کہ آپ کو بلایا تو ان میں کوئی بھی اے پی سی میں شریک نہیں ہو گا۔
’ راجہ ظفر الحق کہتے ہیں اس آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں نے محمد خان جونیجو کو ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا اور یہ جنرل ضیاء الحق کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ ‘
اس واقعے کے بارے میں عظیم چوہدری کا کہنا ہے کہ ’ جنرل ضیا الحق کے منع کرنے کے باوجود جنیوا معاہدہ کیا گیا اس حوالے سے جونیجو صاحب نے گول میز کانفرنس بھی منعقد کرائی جس میں بے نظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں۔ یہ کانفرنس ایک روز میں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ دو روز تک جاری رہی۔‘
اس حوالے سے اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان نے مجھے بتایا کہ دوسرے روز جنرل ضیاء الحق نے ان کو فون کیا اور کہا کہ یہ ڈرامہ کب تک چلے گا ؟ پھر جنرل ضیا الحق نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تو:
‘People will lynch you’
افتخار احمد کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کو جنیوا معاہدے کے حوالے سے محمد خان جونیجو کی پالیسی سے شدید اختلاف تھا اور وہ کہتے تھے کہ ’ جونیجو صاحب نے ساری اپوزیشن کا مؤقف لے لیا ہے لیکن یہ میرے مؤقف کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں۔‘
راجہ ظفر الحق 25 دسمبر 1987 کو ایوان صدر اسلام اباد میں منعقد کی جانے والی اہل دانش کانفرنس کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ جنرل ضیا الحق نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں اس میں شرکت کروں اور محمد خان جونیجو سے بھی اس میں شرکت کے لیے کہوں لیکن جب میں نے جونیجو صاحب سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ مجھے بھی انھوں نے کہا ہے لیکن پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدر صاحب کیوں یہ تماشا لگا رہے ہیں۔ وہ منتخب حکومت کو اس کا کام کرنے دیں۔‘
راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’ مجھے اندازہ ہو گیا کہ معاملات خراب ہو رہے ہیں اس لیے میں نے دونوں کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک روز جونیجو صاحب کو ساتھ لے کر آرمی ہاؤس چلا گیا۔ اس ملاقات میں صدر ضیا الحق نے محمد خان جونیجو سے ان کی حکومت اور پارلیمنٹ کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور کہا کہ آپ کام نہیں کرتے، کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی، لوگ میری گاڑی روک روک کر اس پر مکے مارتے ہیں۔‘
اس کے جواب میں محمد خان جونیجو نے کہا کہ ’ آپ اتنا طویل عرصہ حکومت کرتے رہے ہیں تو جو ضروری کام تھے وہ آپ کر جاتے، مجھے تو پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ اس ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ صدر اور وزیر اعظم کی ہر دو ہفتے میں ایک ملاقات میری موجودگی میں ہوا کرے گی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔‘
’ پارلیمنٹ کی بالا دستی کا دور صرف محمد خان جونیجو کا ہے‘
افتخار احمد، محمد خان جونیجو کی اسی سوچ کے حوالے سے ان کو ایک منفرد لیڈر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ ہم سب پارلیمنٹ کی بالا دستی کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اگر آپ نے پارلیمنٹ کی بالا دستی دیکھنی ہے تو وہ دور صرف محمد خان جونیجو کا ہے۔ محمد خان جونیجو نے ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی جو کوشش کی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔‘
’ جونیجو صاحب نے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی کوشش کی، انھوں نے اوجڑی کیمپ کے سانحہ کی رپورٹ کے حوالے سے دبنگ اعلان کر دیا کہ یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی اور عوام کو بتایا جائے گا کہ کیا ہوا؟ اگر کوئی قومی سلامتی کا معاملہ ہوا تو اس کا خیال رکھا جائے گا لیکن قوم کو اعتماد میں لازمی لیا جائے گا۔‘
افتخار احمد کہتے ہیں کہ ‘محمد خان جونیجو نے اپنے دور میں ان تمام فوجی افسروں کے لیے جو سول انتظامیہ میں خدمات انجام دے رہے تھے یہ حکم جاری کیا کہ ان کی تین سال کی ڈیپوٹیشن پوری ہونے کے بعد ان کو واپس ان کے محکموں میں بھیجا جائے اور توسیع نہ دی جائے۔
’ محمد خان جونیجو کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں کو کھل کر کام کرنے کی اجازت تھی۔ بے نظیر بھٹو اس کے دور میں پاکستان واپس آئیں اور ملک بھر اس نے تاریخی جلسے کیے اور کسی مقام پر کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی بلکہ کئی شہروں میں تو پانی اور بجلی کی سہولت بھی دی گئی۔‘
افتخار احمد کہتے ہیں کہ ’ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع پر محمد خان جونیجو کو سخت اعتراض تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان کی مدت ملازمت بھی پوری ہو گئی ہے اور منصب کی مدت بھی تو پھر یہ کیوں اس پر قائم ہیں اور محمد خان جونیجو ان کے حوالے سے اختلاف رائے کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتے تھے۔‘
افتخار احمد یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ ’ جونیجو صاحب نے کہہ دیا تھا کہ اگر صدر مملکت 23 مارچ کو سلامی لیتے تو 14 اگست کو سلامی اور پرچم کشائی کا حق وزیر اعظم کو دیا جائے۔‘
عظیم چوہدری بھی جنرل اختر عبدالرحمان اور محمد خان جونیجو کے حوالے سے ایک مختلف بات بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کے درمیان بہت اہم معاملہ جو سنگین صورت اختیار کر گیا تھا وہ جنرل ضیا الحق کے گھر کی خفیہ نگرانی کا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ جنرل ضیا الحق کو یہی بتایا گیا کہ یہ خفیہ نگرانی محمد خان جونیجو کی ہدایت پر کی جا رہی ہے، آپ کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں اور آمد و رفت کی ویڈیو بھی بنتی ہے۔‘
’ اس میں خود محمد خان جونیجو کا کہنا تھا کہ جنرل اختر عبدالرحمان نے یہ غلط فہمی پیدا کی، نہ میرا فون ٹیپ کرنے سے کوئی تعلق تھا نہ ان کے گھر آنے جانے والوں کی ویڈیو بنانے کا نہ میں نے کبھی کہا، نہ ہی میرے علم میں تھا۔ اس بات کی تصدیق تو بیگم شفیق ضیاء الحق نے میرے سامنے بھی کی کہ ان کے گھر کے فون ٹیپ ہوتے تھے، حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کی والدہ کا فون بھی ٹیپ ہوتا تھا۔‘
راجہ ظفر الحق اس حوالے سے ایک دوسرے زاویے سے بتاتے ہیں کہ ’ جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں وزیر دفاع رہنے والے میرعلی احمد تالپور حیدرآباد میں وفات پا گئے تو جنرل ضیا الحق کے سی 130 میں میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ راستے میں جب کیبن میں جنرل ضیا الحق، اختر عبدالرحمان، جنرل جہانداد خان اور میں خود موجود تھے تو جنرل اختر عبدالرحمان نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ
’ آپ کوئی کردار ادا کریں کیونکہ اگر جونیجو صاحب کا خیال ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کو صدر فضل الہٰی بنا کر رکھ دیں گے تو یہ جونیجو صاحب کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ ان کو بتا دیں کہ وہ اس طریقے سے صدر صاحب کی پوزیشن خراب نہ کریں۔ اس پر جنرل ضیاء الحق نے بہت تحمل سے انھیں کہا کہ
’ بس آپ نے یہ راجہ صاحب سے کہہ دیا یہ کافی ہے۔‘
سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ’ محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونکی گئی جب انھوں نے فوجی افسروں کی ترقیوں اور تقرریوں کی فائلیں ایوان وزیر اعظم میں روکنا شروع کر دیں۔ وہ بعض افسروں کی فائلیں ازخود طلب کرنے لگے تھے اور جو فائلیں بھجوائی جاتی تھیں ان کو روکنے لگ گئے تھے۔‘
عظیم چوہدری کہتے ہیں کہ ’ ایک بڑا اختلاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف سٹاف کی تقرری کا بھی تھا۔ جنرل ضیا الحق کا خیال تھا کہ یہ تقرری ان کی مرضی سے ہونی چاہیے اور وہ اسلم بیگ کو اس منصب پر فائز نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جونیجو صاحب نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے اس طرح انھوں نے جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا جس میں جنرل ضیا الحق کی مرضی شامل نہیں تھی۔‘
سلیم بخاری بھی جنرل اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف سٹاف تقرری میں صدر ضیا اور وزیر اعظم جونیجو کے درمیان اختلاف کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ یہ معاملہ بھی سنگین اختلاف میں شمار کیا جا سکتا ہے کیونکہ جونیجو صاحب نے جنرل اسلم بیگ کی تقرری جنرل ضیا الحق کی مرضی کے خلاف کی تھی۔‘
جاوید میانداد کی چھکے والی کار اور صوبیدار صادق
اس کے علاوہ بھی دونوں کے درمیان دو اور بظاہر چھوٹے معاملات پر بھی اختلاف تھا۔ عظیم چوہدری کا کہنا ہے کہ
’ جاوید میانداد نے اپنا شہرت یافتہ چھکا لگانے کے بعد ایک قیمتی گاڑی پاکستان لانے کے لیے کسٹم ڈیوٹی کی معافی کی درخواست جنرل ضیا الحق کو بھیجی۔
جنرل ضیا الحق نے یہ درخواست جونیجو صاحب کو سفارش کے ساتھ بھیج دی کہ یہ رعایت دے دیں لیکن انھوں نے اس کو روک لیا اور لکھا کہ صوابدیدی فنڈ سے ڈیوٹی ادا کر کے گاڑی درآمد کرنے کی اجازت دے دیں کیونکہ کسٹم ڈیوٹی کی معافی کی اجازت قانون نہیں دیتا۔
اسی طرح ایک بیوہ کو سرکاری مکان کی مالکانہ حقوق پر الاٹمنٹ کی جنرل ضیاء الحق نے سفارش کی جس پر جونیجو صاحب نے پھر عذر پیش کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں پلاٹ الاٹ کر دیں اور صوابدیدی فنڈ سے مکان کی تعمیر کے لیے رقم جاری کر دیں۔‘
راجہ ظفر الحق اس سے ملتے جلتے لیکن زیادہ سنجیدہ اور سنگین معاملے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ صوبیدار صادق جنرل ضیا الحق کے ذاتی خدمت گار تھے جو ان کی وردی، ان کی اشیا بشمول ادویات وغیرہ کا خیال رکھتے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آ گئی، جنرل ضیا الحق نے اپنے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل رفاقت سے کہا کہ اس کی مدت ملازمت میں توسیع کرا دیں کیونکہ مجھے صوبیدار صادق کے علاوہ کسی سے کام کروا کے تسلی نہیں ہوتی۔
جنرل رفاقت نے کہا کہ ’ سر اس کا اختیار تو اب وزیر اعظم کے پاس ہے، میں جونیجو صاحب سے بات کر لیتا ہوں، اس طرح جنرل رفاقت نے بات کی اور فائل بھیج دی، دوسرے دن وزیر اعظم آفس سے فائل واپس آئی جس پر لکھا تھا کہ
"Prime Minister is pleased to decline the summary”
’ اس پر ظاہر ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے کیا محسوس کیا ہو گا لیکن انھوں نے جنرل رفاقت سے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ صوبیدار صادق کو یہیں رکھیں اور میری تنخواہ میں سے ان کو ادائیگی کر دیا کریں، اس طرح یہ نظام آگے بڑھا۔‘
محمد خان جونیجو کی معاشی پالیسیاں
جب بھی محمد خان جونیجو کی معاشی پالیسیوں کی بات کی جائے اور انھیں جاننے والے ان کی دیانتداری اور کفایت شعاری کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں محمد خان جونیجو نے پاکستان کی معاشی پالیسی کی سمت مقرر کرنے کی کوشش کی۔
راجہ ظفر الحق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی دیانتداری کی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ جو شخص بطور وزیر اعظم شام کو وزیر اعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی لاگ بک بھی چیک کرے اس کی دیانت پر آپ کیا شبہ کر سکتے ہیں؟ ‘
سینئر صحافی ضیا الدین کا کہنا ہے کہ ’ محمد خان جونیجو کی دور کی معاشی پالیسیوں پر غلام اسحاق کی چھاپ تھی کیونکہ جنرل ضیا کے ساتھ طویل عرصے تک بطور وزیر خزانہ کام کرنے والے غلام اسحاق کے لیے پاکستانی معشیت کے اعداد و شمار انگلیوں پر تھے اور ان کے ساتھ ڈاکٹر محبوب الحق بھی بنیادی طور پر جنرل ضیا الحق کی ہی ٹیم کا حصہ تھے۔
’ اس لیے جونیجو دور میں بھی وہی عمل جاری رہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کو پبلک سیکٹر سے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف منتقل کیا جائے اور یہ پالیسی عالمی بینک کی طرف سے تجویز کی جا رہی تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں مڈل کلاس بری طرح متاثر ہو رہی تھی کیونکہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں مہنگی ہو رہی تھیں جبکہ مالی وسائل دن بدن سکڑ رہے تھے۔‘
سینئر فوجی افسروں کا سوزوکی ایف ایکس میں بیٹھنے سے انکار
انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والے شیخ عزیز کے مضمون می کہا گیا ہے کہ ’ 1987-88 کے بجٹ میں محمد خان جونیجو نے کفایت شعاری کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی۔ انھوں نے سرکاری خزانے سے نئی، بڑی اور درآمدی گاڑیوں کی خریداری کی شق ختم کر دی۔
انھوں نے حکم دیا کہ وہ تمام سرکاری افسر جو سرکاری گاڑی استعمال کرنے کے مجاز ہیں وہ اب درآمدی گاڑیوں کی بجائے مقامی طور پر تیار کردہ سوزوکی گاڑیاں استعمال کریں گے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے قومی خزانے پر پڑنے والا بہت سا مالی بوجھ کم ہو گیا لیکن دوسری جانب افسران ان کے خلاف ہو گئے۔ فوجی افسروں نے تو جونیجو صاحب کی حکم عدولی اس انداز میں کی کہ انھوں نے وزیر اعظم کی خواہش کے برعکس پرانی جیپوں کے استعمال کو ترجیح دی۔‘
سینیئر صحافی احتشام الحق کہتے ہیں کہ جونیجو دور میں ترقیاتی بجٹ میں اضافہ اور غیر ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کم کر دی گئی تھی۔ انھوں نے 1987-88 کے بجٹ میں اعلان کیا کہ گریڈ 22 کے افسروں کے لیے ایک ہزار سی سی کی مقامی طور پر تیار کردہ سوزوکی گاڑیاں استعمال کریں گے اور یہی ضابطہ انھوں نے فوجی جرنیلوں کے لیے بھی نافذ کر دیا تھا۔ جونیجو صاحب کا یہ فیصلہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو ہضم نہیں ہوا اور ان کے لیے مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔
راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ’ جونیجو صاحب کی سوزوکی گاڑیوں والی تقریر سرکاری ٹی وی پر چلنے سے روک دی گئی تھی اور اس کے لیے اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان سے کہا گیا تھا۔‘
وہ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات کی خلیج گہری کرنے کا ذمہ دار ان افراد کو قرار دیتے ہیں جو دونوں طرف کان بھرنے کا کام کر رہے تھے، جو ادھر کی باتیں ادھر اور ادھر کی باتیں ادھر کر رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘صدر ضیا الحق کو کہا جاتا تھا کہ آپ نے ان کو وزیر اعظم بنایا اور انھوں نے اپوزیشن کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ انھی دنوں جرنیلوں کے لیے سوزوکی گاڑیوں والا واقعہ بھی ہوا تو اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان نے وہ خبر سرکاری ٹی وی پر نہیں چلنے دی، یہ معاملہ بھی ایک وجہ اختلاف بن گیا اور پھر وہ دن آیا جب جونیجو صاحب جاپان کے دورے سے واپس آئے تو ان کے ائیر پورٹ لینڈنگ کے وقت جنرل ضیا الحق نے انھیں وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا۔‘
سلیم بخاری اس صورت حال کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں کہ ’ ایک شخص غیر ملکی دورے پر بطور وزیر اعظم روانہ ہوا لیکن واپسی پر وہ کچھ بھی نہیں تھا۔‘
29 مئی 1988 کی سہ پہر
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی یہ ایک گرم سہ پہر تھی۔ سورج مغرب کی جانب بہت آہستہ آہستہ گامزن تھا، بلیو ایریا میں امریکن سنٹر کی عمارت کی پارکنگ کے دوسرے کنارے پر پشاور کے انگریزی روزنامے ’ دی فرنٹیئر پوسٹ ‘ کا بیورو آفس تھا۔ میں اپنے دوست صحافی طاہر اکرام کے ہمراہ وہاں بیٹھا تھا کہ کسی نے ٹیلی فون پر جونیجو حکومت کی برطرفی کی اطلاع دی۔
میں اور طاہر اکرام دفتر سے نکلے اور غیر ارادی طور پر بائیک پر جناح ایونیو پر نکل کھڑے ہوئے، سامنے سے فوجی جیپ اور اس کے پیچھے گن بردار ٹروپس کی گاڑی آتی دکھائی دی، ہمارا رخ مخالف سمت میں تھا لیکن ہم لوگ بائیک موڑ کر اس کے پیچھے چل پڑے، گاڑیوں کی رفتار بہت آہستہ تھی، ہم لوگ بھی انہی کی رفتار سے چلے، گاڑیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جا کر دائیں طرف شاہراہ آئین کا راستہ لیا اور ریڈیو پاکستان والے چوک سے شاہراہ جمہوریت پر چڑھ گئیں، ان کی منزل وزیر اعظم سیکرٹریٹ تھی، یہ وہی عمارت ہے جہاں اب نادرا ہیڈ کوارٹر ہے۔
مین گیٹ پر پہنچ کر جیپ رک گئی، جیپ سے ایک میجر صاحب اترے اور گیٹ کی جانب چلے، ان کے عقب میں ٹروپس گاڑی میں سوار اہلکاروں نے وائرلیس سیٹ اور اس سے متعلقہ سامان اتارنا شروع کیا۔ طاہر اکرام نے آگے بڑھ کو میجر صاحب کو کہا ’ ایکسکیوز می سر، کین آئی ہیو اے ورڈ ود یو؟ ‘
(Excuse me Sir, Can I have a word with you?)
جواب میں ایک مختصر لیکن خشک لہجے میں جواب ملا، ’ نو ‘۔
” No “
میں اور طاہر اکرام وہاں سے واپس ہو گئے، پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام ایک نئے راستے پر چل پڑا تھا۔۔۔۔
( بشکریہ بی بی سی اردو)