پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کی خبر ، نوائے وقت

پاکستان کے ایٹمی دھماکے، کس کا کتنا کریڈٹ ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عامر خاکوانی :

یوم تکبیر ایک بڑی کامیابی ہے، بڑا سنگ میل ۔
اس کا کریڈٹ بہت سے لوگوں کو جاتا ہے۔
اسے جس نے یہ ایٹمی پروگرام شروع کیا یعنی بھٹو صاحب۔ اگر بھٹو صاحب ابتدا نہ کرتے تو ڈاکٹر عبدالقدیر واپس چلے جاتے اورہم ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔

سب سے بڑا حصہ اس ایٹمی سائنس دان کا جس نے یورینیم کی افزودگی جیسا اہم ترین مرحلہ طے کرایا اور پھرکہوٹہ پلانٹ پراجیکٹ کے سربراہ کے طور پر ایٹم بم بنانے کا پورا منصوبہ کامیاب بنایا یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ان کے بغیر کسی بھی صورت یہ کام نہیں ہوسکتا تھا۔

جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں خاص کر غلام اسحاق خان، زاہد علی اکبر،اجلال حیدر زیدی سمیت وہ سب لوگ جو اس پراجیکٹ کے انتظامی، مالی امور میں شامل رہے، ان سب کو کریڈٹ جاتا ہے۔ جنرل ضیا نے اٹیمی پروگرام کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھا اور تمام تر دبائو برداشت کئے۔ اگر جنرل ضیا پیچھے ہٹ جاتے تو سب کچھ ختم ہوجاتا، ایٹم بم کبھی نہیں بن سکتا تھا۔

کہیں نہ کہیں کچھ حصہ افغان جہاد کا بھی ہے۔ امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے اپنے پرانے دشمن سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے اتنے بے چین تھے کہ انہوں نے پاکستانی ایٹمی پروگرام کی طرف سے دانستہ آنکھ بند رکھی۔ چارلی ولسنز وار نامی کتاب میں اس کی خاصی تفصیل ملتی ہے۔ افغان مزاحمت کی پاکستانی قوم نے بڑی قیمت چکائی، مگر ایٹمی قوت بننا اسی وجہ سے ممکن ہوپایا۔

کریڈٹ کا بڑا حصہ ان گمنام ’’اَن سنگ‘‘ ہیروز کو جاتا ہے، وہ سائنس دان، ماہرین، ٹیکنیشن جو دن رات اس کام میں جتے رہے ، پراجیکٹ مکمل کر دکھایا اور ان میں سے ننانوے فیصد کے نام تک قوم نہیں جانتی، ایسے بہت سے سائنس دانوں نے دانستہ خود کو میڈیا سے دور رکھا، ایک ریٹائر انجینئر کے بارے میں مجھے پتہ چلا تھا کہ انہوں نے بڑا اہم پرزہ بنایا،

رابطہ کرنے پر انہوں نے انٹرویو سے معذرت کی اور کہا کہ جس ذات کے لئے یہ سب کیا، وہی اجر دے گا۔ وہ صاحب اب دنیا سے رخصت ہوچکے، ایسے بہت سے ہیں۔ اللہ سب کو اجر دے کہ پاکستان کو واحد مسلم ایٹمی قوت بننے میں حصہ ڈالا۔

پاکستانی فوج کو بطور ادارہ اس کا کریڈٹ لازمی جاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ایٹمی پروگرام کی حفاظت کی اور امریکہ جیسی سپر پاور کے مسلسل دبائو کو برداشت رکھا۔ آج تک ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں، موجود ہیں ، پروگرام چل رہا ہے تو اس کا بڑا کریڈٹ فوج اور ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے۔

ایٹمی پروگرام کا تونہیں، مگر ایٹمی دھماکے کرنے کا بہت بڑا کریڈٹ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو جاتا ہے۔ میاں نواز شریف کو اس کریڈٹ سے کوئی محروم نہیں رکھ سکتا۔

یہ حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف نے اس وقت بے پناہ امریکی دبائو اور دیگر عالمی قوتوں کے پریشر کا مقابلہ کیا۔ وہ آسانی سے کمپرومائز کر سکتے تھے، چند ارب ڈالر کی خاطر پیچھے ہٹ جاتے، ممکن ہے انہیں ذاتی طور پر بھی کئی ملین ڈالر کی آٖفر ہو۔

میاں نواز کا کریڈٹ اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ان کی اپنی ٹیم کے بہت سے لوگ ایٹمی دھماکہ کرنے کے شدید مخالف تھے، ان کے کئی معتمد ساتھیوں نے یہی مشورہ دیا کہ دھماکہ نہ کریں ورنہ پابندیاں لگ جائیں گی۔

میاں نواز شریف نے تمام تر دبائو برداشت کیا اور جرات سے کام لے کر ایٹمی دھماکے کئے۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے۔ تاریخ میں ان کا کردار اس حوالے سے سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔

اس وقت کی فوجی قیادت یقینی طور پر ان دھماکوں کے حق میں تھی مگر فیصلہ وزیراعظم ہی کا تھا، جہانگیر کرامت جیسے دھیمے مزاج کے آرمی چیف سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ وزیراعظم کو فیصلہ ڈکٹیٹ کرا سکتے۔ مجید نظامی اور بعض وزرا نے بھی دھماکے کے حق میں بات کی، مگر میاں نواز شریف نے بہت سے ایسے کام کئے جن کے مجید نظامی مخالف تھے، وہ مجید نظامی صاحب کی ہر بات نہں مانتے تھے ۔ اسی طرح گوہر ایوب وغیرہ کی کیا سیاسی حیثیت تھی کہ وہ وزیراعظم نواز شریف پر پریشر ڈال سکتے ؟

ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ نواز شریف کا تھا۔ اس کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہیے ۔ ہم میاں صاحب کی بہت سے پالیسیوں، ان کی سیاسی حکمت عملی اور طرز عمل کے ناقد ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بددیانتی کی جائے۔

ایٹمی پروگرام میں مختلف لوگوں کا حصہ ہے۔ کسی کو اچھا لگے یا برا ، بھٹو صاھب کا حصہ نکالا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح جنرل ضیا کو جتنا مرضی گالیاں دیں، ایٹمی پروگرام مکمل ہونے کا کریڈٹ ان کا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بیانات ، ان کی شہرت کی خواہش کو جتنا ناپسند کیا جائے، ان کا بہرحال پاکستانی قوم پر احسان ہے۔

اسٹیبلشمنٹ پر لاکھ تنقید کریں، مگر ایٹمی پروگرام کی اس نے ہمیشہ حفاظت کی اور ہر دور میں اسے عالمی سازشوں سے بچایا ہے۔ میاں نواز شریف کو جتنا مرضی برا کہیں، دھماکے بہرحال انہوں نے کئے اور تب ایسا کرنا غیر معمولی جرا ت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
ہر ایک کو اس کا حق دیں، یہی انصاف ہے، یہی عدل۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں