فرحان خان، اردوکالم نگار

صحافی اور شاہ دولے کے چوہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فرحان خان :

صحافت میں اگر مزاحمتی آہنگ باقی نہ رہے تو وہ نِری کلرکی بن کر رہ جاتی ہے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس شخص یا گروہ پر سوال اٹھایا جائے ، جس پر سوال اٹھانا کسی بھی حوالے سے مفاد عامہ کے لیے ضروری ہو اور لوگ اس پر سوال اٹھاتے ہوئے ہچکچاتے ہوں۔

باقی یہ کہ سوال کیسے اٹھایا جائے گا ، اس کا فارمیٹ کیا ہو گا، اس کے لیے صحافتی اصول اور ضوابط کے پلندے کے پلندے پڑے ہیں۔ وہ دیکھ لینے چاہیئں۔ پروفیشنل صحافی ان سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔

ہمارے یہاں اہل صحافت میں ایک عجیب سا چلن فروغ پا رہا ہے۔ حکومت، اس کے ماتحت محکموں اور ڈیپ اسٹیٹ وغیرہ کی ترجمانی بھی کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور دیگر محکموں نے اس کام کے لیے اپنے تعلقات عامہ کے شعبے قائم کر رکھے ہیں۔ صحافی کسی کا بھی ترجمان نہیں ہوتا ۔ اگر ترجمانی ہی مقدر ہے تو اسے عوام کی جانب کھڑے ہونا زیب دیتا ہے۔

پریس ریلیزیں اٹھا کر اِدھر سے اُدھر کرنا تو کوئی خاص کام نہیں ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشنز اٹھا کر واٹس ایپ گروپس میں ڈالتے رہنا بھی کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ سرکاری افسروں کی تقرریوں اور ترقیوں پر مبارک بادوں کی فیس بک پوسٹیں نشر کرنا ذاتی پی آر کیمپن تو ہو سکتی ہے ، یہ صحافت نہیں ہے۔

ہوا یہ ہے کہ پاکستان میں صحافت کو باقی پرائیویٹ فیکٹریوں یا دفتروں کی نوکری جیسی چیز بنا دیا گیا ہے جہاں آدمی کو اول آخر اپنی نوکری بچانے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ذلت آمیز سمجھوتے کی وجہ سے نوکری تو چلتی رہتی ہے لیکن خبر کا روز قتل ہوتا ہے۔ خبر کے قتل کے نتیجے میں سماج میں زہر پھیلتا رہتا ہے اور زہریلے عناصر مطلق العنان ہو جاتے ہیں۔ انہیں پھر کوئی بھی نہیں پوچھ سکتا۔

اس ساری پریکٹس کے نتیجے میں صحافیوں کی صفوں میں شاہ دولے کے چوہے گھستے ہیں اور ان کی تعداد بڑھنے لگتی ہے۔ پھر جب کوئی صحافی سسٹم پر یا سسٹم کے مالکوں پر سوال اٹھانے لگے تو ان شاہ دولے کے چوہوں کو حیرت کا جھٹکا لگتا ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے نکٹوں کے جزیرے پر کوئی ناک والا چلا جائے تو وہ حیرت بلکہ حقارت سے اسے دیکھتے ہیں اور طنزاً کہنے لگتے ہیں
” وہ دیکھو ناک والا۔۔۔ وہ دیکھو ناک والا “ ۔ نکٹوں کے جزیرے پر ناک والا ہونا گالی اور عیب ہے۔

چنانچہ یہ نکٹے شاہ دولے کے چوہے کسی صحافی کے اغواء یا اس پر تشدد کے بعد سوشل میڈیا پر امڈ آتے ہیں اور مظلوم صحافی کی کردارکشی شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر حملے کو ڈراما قرار دیتے ہیں۔ حملہ آوروں کو لڑکی کے بھائی قرار دیتے ہیں۔ اس کے طرز صحافت پر ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ مختلف محکموں یا حکومت کے از خود ترجمان بن جاتے ہیں۔ ان چوہوں کا سب سے پسندیدہ
جملہ یہ ہے ’’کچھ تو کیا ہو گا ، ایسے ہی تو نہیں اٹھایا / مارا‘‘

ایسے ہی گھٹیا کردار عمر چیمہ اور احمد نورانی پر تشدد ، حامد میر پر قاتلانہ حملے ، مطیع اللہ جان کے اغواء ، ابصار عالم اور اسد طور پر قاتلانہ حملے سمیت صحافیوں ، بلاگرز اور ایکٹوسٹس پر تشدد کے اکثر واقعات کے بعد سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ ہر ایسے واقعے کے بعد ایک ہی طرح کی کہانی گھڑتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اُلٹیاں کرنے لگتے ہیں۔ ایسے کرداروں کو نظرانداز کرنا ہی ان کا علاج ہے۔ ان کو سنجیدہ لینا ان کی اہمیت بڑھانا ہے۔

بات سادہ سی ہے ۔ جو بھی شخص آپ کو اہم معلومات ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ دے ، وہ قابل احترام ہے ۔ مفاد عامہ سے جڑا کوئی بھی معاملہ ہو ، عوام کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ مفاد عامہ سے جڑے کسی بھی معاملے میں اگر کوئی ہیر پھیر ہو رہا ہے تو صحافی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو بروقت آگاہ کرے۔

جاننا چاہیے کہ ملک کا آئین اور اس کی بالادستی مفاد عامہ کا اہم ترین عنصر ہے۔ اس کی پاس داری میں فرق آ رہا ہو تو صحافی خاموش کیسے رہ سکتا ہے۔ صحافیوں پر تشدد کرنا ، ان کا منہ بند کرنا دراصل عوام کے منہ پر ٹیپ لگانا ہے۔ اب یہ ٖفیصلہ لوگوں نے کرنا ہے کہ وہ بولنا چاہتے ہیں یا منہ پر ٹیپ لگوانا انہیں قبول ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں