اسرائیل پر راکٹ باری کا ایک منظر

سیف القدس ، راکٹ حملے اور اسرائیل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حافظ محمد عبد اللہ
[email protected]

سفر معراج ، عروج سے عبارت تھا، عروج جو آسمان گیر ہوا ،عروج جس کے آگے زمین کی وسعتین ہیچ تھیں۔ شاید اللہ تعالیٰ نے دائما عروج کو سفر معراج کے پہلے پڑائو ، مسجد اقصی اور بیت المقدس کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے ۔ جو فرد ،جماعت اورقوم مسجد اقصی ، بیت المقدس کے ساتھ کھڑا ہوگا اس کے قضیہ کے حل کے لیے وقف رہے گا اسے عروج و سربلندی حاصل ہوگی۔

ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے جسے حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں

قال قال رسول اللہ ﷺ لاتزال طائفۃ من امتی علی الدین ظاھرین،لعدوھم قاھرین لایضرھم من خالفھم الا ما اصابھم من لاوان حتی یاتیھم امر اللہ وھم کذالک ۔ قالوا یارسول اللہ واین ھم ؟ قال ببیت المقدس واکناف بیت المقدس۔

اس مرتبہ لڑائی کا شرارہ مسجد اقصی کے پاس اور مشرقی بیت المقدس کے محلہ شیخ جراح میں بھڑکا۔ امیر حسام الدین بن شرف الدین عیسی الجراحی، سلطان صلاح الدین ایوبی کے طبیب خاص تھے ۔ 900 برس ہوئے انہیں گزرے لیکن آج بھی شیخ الجراح کی یادوں ، باتوں اور کارناموں سے فلسطینیوں کے دل معمور ہیں ۔ دین کے اس شرف نے حالیہ رمضان المبارک میں ایک بار پھر اپنے متوالوں کو شرف و مجد اورعز و افتخار کا راستہ دکھایا۔

اسرائیل کے فرعون صفت وزیر اعظم نتن یاہو نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو خبردار کرتے ہوئے بیان جاری کیا تھا کہ ” ہم تمہیں وہ مار ماریں گے جس کا تم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔“
اسرائیل نے غزہ میں نہتے عوام پربمباری کی اور درجنوں بچوں اور عورتوں کو قتل کرکے دعویٰ کیا کہ ” یہ تو ابھی ابتدا ہے“ ۔

فلسطینی مجاہدوں کے خلاف اپنے آپریشن کا نام ” حارس الاسوار“ تجویز کیا یعنی” دیواروں کے محافظ ۔“ لیکن تحریک مزاحمت حماس کچھ اور ہی طے کیے ہوئے تھی ۔ 1948ء کی جنگ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ سیف القدس کے راکٹ دھماکوں سے اسرائیل کےگلی کوچے لرزرہے تھے۔

ہر گھنٹے بعد سائرن کی گونجتی آوازیں شہریوں کو پناہ گاہوں کی طرف بھاگ جانے پر مجبور کردیتیں۔ راکٹوں کاخوف اتنا بڑھا کہ اسرائیلی کنیست کے ارکان کو پارلیمنٹ کا اجلاس ادھورا اور ملت یہود کی قسمت ، بیج منجدھار چھوڑکر بھاگنا پڑا۔

جب سے غزہ کے عوام نے حماس کو حکومت کےلیے چنا ہے اب تک عزت کا نشان یہ شہرتین بڑی لڑائیاں دیکھ چکا ہے لیکن اب کی بار یہ لڑائی کئی لحاظ سے مختلف تھی ۔ اسرئیل کے طول و عرض میں مختلف شہروں اور بستیوں میں بسنے والے فلسطینی عرب شہری پہلی بار القدس اور غزہ میں ظلم و ستم کے شکار اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے مظاہرے کرتے ہوئے نکل آئے تھے۔

اسرائیلی صدر رووین ریولین کےلیے یہ منظر اس قدر خوف ناک تھا کہ وہ پکار اٹھا ” لگتا ہے جنگ اسرائیل کی سڑکوں پر پھوٹ نکلی ہے۔ آبادی کی اکثریت اس صورت حال پر پر حیران و پریشان ہے ۔ جو دِکھ رہا ہےاس پر یقین کرنا مشکل ہے ہم نے حالات کو جو رخ دیا ہے ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں حقیقی خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے ، ہم ساکت و صامت کھڑے ہیں “۔

آئرن ڈوم ( لوہے کا گنبد ) حماس اور فلسطینیوں کے راکٹوں کے خلاف اسرائیل کا دفاعی نظام اس کا ایک ایک یونٹ مہنگا ہے اور اسے چلانا اس سے بھی مہنگا ہے۔ اسرائیل نے چار دانگ عالم میں اس کی تشہیر بھی خوب کر رکھی تھی۔ دعویٰ یہ تھا اس کی ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت 100 فیصد ہے لیکن مجاہدین فلسطین نے بیک وقت اور مختلف زاویوں سے سینکڑوں راکٹ داغنے کی حکمت عملی اختیار کی۔

ان راکٹوں نے عسقلان ،رامون ،ایٹمی ریکٹر دیمونہ کے بن گوریان ہوائی اڈہ ، اسرائیل کا قلب اس کا دارالحکومت ، تل ابیب بھی نشانہ بنا۔ ملک کے اسرائیل کے طول عرض میں لگی اس آگ نے آئرن ڈوم کی دفاعی صلاحیتوں پر سوالیہ نشانات لگا دیے ہیں ۔

یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ اسرائیل کے بن گوریون ائر پورٹ سے ساری فلائٹس کے رخ قبرص اور یونان کی طرف موڑ دئے گئے ، حالات و واقعات بتا رہے تھے کہ دیواروں کے محافظ اب اِن کی حفاظت سے عاجز ہیں۔

بایئڈن کا امتحان
اسرائیل کی مشرقی بیت المقدس میں من مانیاں اور ظلم و زیادتی کے سارے ہتھکنڈے ، امریکہ کی انسانی حقوق کی علم بردار نئی جوبائڈن حکومت کے لئے ٹیسٹ کیس بن گئے ۔ جوبائڈن کئی بار نہیں بار بار کہہ چکے ہیں کہ میری خارجہ پالیسی حقوق انسانی کے گرد گھومے گی لیکن اسرائیل کی جانب سے نہتے، محصور فلسطینی عوام پر بم باری اور اس کے نتیجے میں 230 افراد کی شہادت جس میں 69 بچے اور تین درجن خواتین بھی شامل ہیں امریکی سیاست دانوں اورقائدین کامنہ چڑارہی ہے ۔

بایئڈن نہ صرف اپنے قریبی ترین حلیف اسرائیل کو ظلم وتشدد سے روکنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ واضح الفاظ میں فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت تک نہیں کر سکے۔ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کے اراکین مطالبہ کر رہے ہیں کہ مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کے بارے میں سخت موقف اپنائیں اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدوں اور اسلحہ کی سپلائی کے امور پر نظر ثانی کریں ۔

سیف القدس
حماس کی قوت مزاحمت نے اسرائیلی فوج اور اس کی ہیبت و دبدبہ چکناچور کر دیا ہے ۔موجودہ مزاحمتی کردار سے حماس کو نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے اور اسرائیلی عرب باشندوں میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی فلسطینی قوم میں یکجہتی،ایک ہونے کا تصور بھی پختہ ہوا اور جہادو مزاحمت کا راستہ ہی کامیابی اور نصرت کا راستہ ہے اس پر یقین بھی پختہ ہوا ۔

فلسطینی راکٹوں کے بارے میں اسرایئلی فوجی تجزیہ کاروں اور پالیسی سازوں کا گمان تھا کہ پہلے کی طرح حماس کے یہ میزائل خالی میدانوں اور صحرائوں کی وسعتوں سے سر پھوڑکر تباہ ہوتے رہیں گے اور ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے لیکن اب کی بار حماس کے میزائلوں نے اسرائیل کے دوردراز علاقوں اور بڑے بڑے شہروں کو نشانہ بنایا تو اسے اندازہ ہوا کہ یہ میزائل نہایت تباہ کن ہوچکے ہیں ۔ پورے اسرائیل کی شہری زندگی دائو پر لگ چکی ہے ، ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہونے سے کروڑوں ، اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور جانی و مالی نقصان اس کے علاوہ ۔

پھر تحریک مزاحمت اسلامی حماس نے ٹف ٹائم دے کر ثابت کردیا ہے کہ غزہ کا جس قدر شدید محاصرہ بھی کر لیا جائے ،اسے دفاعی ساز و سامان کی تیاری ، اسے بہتر بنانے اور حاصل کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

سیف القدس آپریشن اور اس کے اہداف کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ کہتے ہیں اسرائیل کو ہی نہیں بلکہ اس کے ان ایجنٹوں کو بھی بریک لگی ہے جو ملت کے مفاد کو بھول کر اسرائیل کے ساتھ امن ، سلامتی اور نارمل تعلقات کی پینگیں بڑھارہے تھے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے ملت اسلامیہ کے اجتماعی شعور کو اتنا طاقت ور بنایا جائے کہ وہ اسرائیل کے یار اور وفادار ان کےاقتدار کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں