پیاری بھانجی عفیفہ شمسی کی شادی جو ایک ماڈل شادی قرار پائی
ڈاکٹر خولہ علوی :
آج صبح سے گہما گہمی اپنے عروج پر تھی۔
کورونا بیماری کی تیسری لہر میں ، فیملی میں ہونے والی اس شادی کا سب کو بڑا انتظار تھا۔ بچیاں سوچتی اور ڈسکس کرتی رہتی تھیں کہ باجی عفیفہ کی شادی میں ہم یہ یہ کریں گی، یہ پہنیں گی اور رخصتی کے موقع پر یہ یہ نظمیں پڑھیں گی۔ ( لیکن افسوس کہ یہ نظمیں پڑھنے کا وقت اور موقع ہی نہیں مل سکا۔ )
بالآخر 22 مئی 2021ء کا دن آپہنچا۔
آج میری پیاری بھانجی عفیفہ شمسی ( مریم رابط ) کی شادی ہے جو معروف فیس بک رائٹر ہے اور محترمہ پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ اور مولانا عبد الوکیل علوی مرحوم کی نواسی ہے۔
اس کی بڑی بہن امل غازی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بےحال اور بڑی مصروف تھی۔ کبھی ماں کے ساتھ بڑی بڑی ذمہ داریوں میں مصروف، کبھی عفیفہ کی بہن اور سہیلی بن کر اس کی تیاریاں کروا رہی تھی۔
دوسری طرف خالہ مریم جمیلہ علوی بھی مدد اور تعاون کے لیے موجود ہوتی تھیں۔ دیگر رشتہ دار خواتین بھی حسب استطاعت ہاتھ بٹا رہی تھیں۔
سب بے چینی سے اس شادی کے منتظر تھے۔
ہم لوگ اس ولیمے میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر ایک دن پہلے اوکاڑہ سے لاہور آئے تھے۔
کل رات گھر میں بچیوں بالیوں اور خواتین نے مہندی لگائی۔ ایک واقف کار خاتون عفیفہ کے لیے مہندی کے فنکشن کے حساب سے مخصوص پیلے اور سبز رنگ کے کپڑے اور دیگر لوازمات گفٹ لے کر آئی تھیں لیکن والدہ اور ہم خالاؤں کے سمجھانے پر اس نے یہ کپڑے وغیرہ نہیں پہنے۔ بلکہ دوسرا سوٹ پہنا۔ اس موقع پر ہر قسم کے رسوم و رواج سے اجتناب کیا گیا۔ الحمد للّٰہ۔
آج لاہور کے ایک مقامی میرج ہال میں شادی کے لیے بکنگ کروائی گئی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے ایام میں میرج ہالز پر پابندی کی وجہ سے گھر کے قریب ایک کشادہ ہال نما جگہ پر فنکشن کا بندوست کیا گیا تھا۔
مردوں اور خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام کیا گیا تھا۔
ہال میں پاکیزہ، باپردہ اور صاف ستھرا ماحول تھا۔ کیٹرنگ کا اچھا بندوست کیا گیا تھا۔
دلہن اور مختصر سی باراتی خواتین کی ہال میں آمد تقریبًا ساتھ ساتھ ہوئی تھی۔
تمام باراتی خواتین اور بچیاں مہذب، پڑھی لکھی اور شائستہ اطوار تھیں۔ لوگوں پر ان کا بہت اچھا تاثر رہا تھا۔ الحمد للّٰہ۔
عفیفہ کی شدید خواہش تھی کہ میرا نکاح خالو جان ڈاکٹر عبید الرحمن محسن صاحب پڑھائیں ۔ چنانچہ نکاح ڈاکٹر صاحب ہی نے پڑھایا۔
نکاح کے وقت سپیکر کا بندوست کیا گیا تھا تاکہ اس مبارک موقع پر مسنون خطبہ سے خواتین بھی فیض یاب ہوسکیں۔ یہ بڑی عمدہ اور منفرد بات ہے جس سے ہمارے معاشرے کی عمومی خواتین ناآشنا ہوتی ہیں۔
ہال کی ڈیکوریشن سادہ لیکن اچھی لگ رہی تھی۔ جگ مگ کرتی لائٹس اچھا تاثر پیدا کر رہی تھی۔
لاک ڈاؤن کے ایام میں مہیا وسائل میں سارے فنکشن کو اچھے طریقے سے manage کیا گیا تھا۔
سٹیج پر موجود دلہن ہنستی مسکراتی خوش وخرم سب سے سلام دعا کرتی بہت فریش اور نائس لگ رہی تھی۔
ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ۔
دلہن سے انٹر نیٹ پر آن لائن موبائل کالز کرنے کا سلسلہ تقریباً جاری رہا۔ عصر حاضر میں دور بیٹھے لوگ بھی خوشی و غمی کے مواقع سے مستفید ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے موقع پر شرعی پردہ کرنے والی دلہن کے پردہ کی صورتحال
ہمارے خاندان میں مکمل شرعی پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ الحمدلله۔
اور رشتے ناتے کرتے ہوئے بھی شرعی پردہ کرنے والے لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ الحمدللہ۔
آج بھی مرد وزن کا علیحدہ علیحدہ انتظام تھا۔ الحمد للّٰہ۔
بارات میں آنے والی خواتین مکمل باپردہ تھیں۔ الحمد للّٰہ۔
عفیفہ کے پاس پردے والی چادر بھی موجود تھی۔ جب اور جہاں ضرورت ہوئی، پردے والی چادر استعمال کی جاتی رہی تاہم اس کی زیادہ ضرورت نہیں پڑی۔
پوری شادی میں پردے کے حوالے سے دلہن یا نک سک سے تیار کسی خاتون کو کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔
نکاح نامے پر دستخط کروانے، کھانا لگانے، کھلانے یا دیگر کسی کام کے لیے کوئی مرد اندر نہیں آیا۔ بلکہ موبائل فون پر رابطہ رہا۔ یا اینٹرینس پر موجود خاتون نے پیغام اندر سے باہر اور اندر سے باہر پہنچایا۔
اور ایک مرد بھی خواتین کے ہال میں اندر نہیں آیا۔
کھانا کھلانے کے لیے خواتین ویٹرز کے بندوبست کے ساتھ کیا گیا تھا۔ فیملی کی خواتین نے بھی تعاون کیا تھا۔
گرما گرم کھانا ماشاءاللہ بہترین، وافر اور مزے دار تھا جو بابرکت ثابت ہوا۔ الحمدلله۔
آتے جاتے ہوئے دلہن نے گاؤن اور بڑی چادر کا استعمال کیا تھا۔ حالانکہ گیٹ کے بالکل قریب دلہن والی گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔
الحمدلله ثم الحمدللہ۔
میں نے عفیفہ کے ساتھ سٹیج پر اول تا آخر مکمل ڈیوٹی دی تھی تاکہ اسے پردے کا یا کوئی اور پرابلم نہ بنے
لیکن میرے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں نے بھی پوری ” ڈیوٹی “ دی جو سٹیج چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اگر جاتے تھے تو تھوڑی دیر بعد دوبارہ لوٹ آتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خاص بات یہ ہوئی کہ نکاح کے بعد عفیفہ نے سر پر پہنا ہوا تاج، جو اس نے خصوصی طور پر شادی کے لیے بنوایا تھا، اتار کر اپنی امی جان کے سر پر پہنا دیا کہ وہ پہنیں۔
والدہ نے بارہا کہا کہ ” آپ کا فنکشن ہے، یہ آپ کو پہننا چاہیے۔“
پھر بھی عفیفہ اصرار کرتی رہی کہ ” آپ پہنیں “ پھر عفیفہ کی والدہ نے تاج پہن لیا۔
اچھی بات یہ لگی کہ عفیفہ نے سب کے سامنے اپنی والدہ کوکس طرح عزت دی!!!
دراصل عفیفہ کو تاج پہننے والا یہ شوق اپنی والدہ سے ہی جینز میں منتقل ہوا ہے!!!
ہمارے بچوں کو بھی یہ فیملی فنکشن بہت پسند آیا جو اس کے بڑے منتظر تھے اور اس کے لیے خصوصی تیاریاں کرتے رہے تھے ۔
رشتہ داروں کے علاوہ بھی جان پہچان والی بہت سی خواتین سے ملاقات ہوئی۔
خالاؤں اور ممانیوں کے علاوہ خالہ زاد بہنوں ماریہ انعام اور مہدیہ گل اور ماموں زاد بہن ڈاکٹر عائشہ صدیقہ سے ملاقات ہوئی۔
فیس بک ساتھی طوبیٰ للغرباء اور اس کی بھابھی سے بھی مختصر سی ملاقات اچھی رہی جو حافظ آباد سے خصوصی طور پر شادی میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔
ہماری فیملی کی شادیاں لوگوں کے لیے ماڈل ہوتی ہیں۔ آج بھی کئی مہمان بن بلائے موجود تھے۔
” صرف یہ دیکھنے کے لیے ہم نے شادی میں از خود شرکت کی ہے کہ کیا حقیقتاً آپ لوگوں کی شادیاں ویسی ہی ہوتی ہیں جس طرح آپ دوسرے لوگ بتاتے ہیں؟ “لوگ ہمیں کہتے ہیں۔
عفیفہ کی شادی ایک اور مثال ثابت ہوئی ہے۔ الحمد للّٰہ۔
نماز عشاء سے پہلے موسم نہایت خطرناک ہو گیا تھا۔ تیز رفتار آندھی چلنا شروع ہو گئی تھی۔ کالے سیاہ بادلوں سے بارش برسنے کو تیار تھی۔
چنانچہ جلدی سے آنسوؤں اور دعاؤں کے ہمراہ دلہن کی رخصتی کر دی گئی۔
دلہا میاں انجینئر سعد طاہر صاحب بھی باوقار، مہذب اور نرم مزاج دکھائی دے رہے تھے۔ الحمدللہ۔
ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ!
حسب رواج دلہن کے ہمراہ ایک خالہ اور خالو جان گئے ہیں۔
شادی میں کسی قسم کی کوئی رسم نہیں کی گئی اور حتی الامکان قرآن وسنت کے احکامات پر عمل درآمد کیا گیا۔ الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔
عفیفہ کے لیے ڈھیروں محبتیں اور دعائیں ہیں!!!
اللہ تعالیٰ اہل بارات کو خیریت سے گھر پہنچائے اور اس شادی کو اہل خانہ اور امت مسلمہ کے لیے بابرکت اور نافع بنائے!!!
اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے فضل وکرم سے جنت الفردوس میں بھی اکٹھا کردے!!!
آمین ثم آمین یا رب العالمین
ایک تبصرہ برائے “روداد ایک شادی خانہ آبادی کی”
ماشاء اللہ تبارك الله