نگہت حسین :
سلائی کڑھائی ، سوئیٹر بننا ، کروشیہ بنانا ، اسی جیسے دوسرے ہنر پہلے ہمارے بزرگ نسل کو خوب آتے تھے۔ اسی طرح اپنے بچپن میں مردوں کو قربانی کے جانور ذبح کرتے، گھر کے بنیادی الیکٹرک کے کام ، پلمبری کے مسائل خود ہی حل کر تے دیکھا ۔
جیسے جیسے اسکولوں کالج کی تعلیم کا رحجان بڑھا نئی نسل کو خاص طور پر خواتین کو یہ وقت کا ضیاع اور لاحاصل سی چیزیں لگنا شروع ہوگئی۔
تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز دینے والے یہ سارے ہنر نہ صرف بچوں کو ارتکاز قائم کرنے ، ایک جگہ جم کر بیٹھنے کی تربیت دیتے تھے۔ ساتھ ساتھ رنگوں کے ساتھ نت نئے مزید تجربات کرنا ، ڈیزائن بنانا ، پھر مکمل کرنے کی محنت اور انتظار ، ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ شخصیت میں صبر و تحمل ، سنجیدگی ، غلطیوں سے سبق سیکھنا اور کسی کام کو ٹھیک کرنے کے لئے بار بار کوشش کرنا جیسے صفات بھی پیدا کرتے تھے ۔
کچھ عرصے تک اسکولوں میں یہ چیزیں ہوم اکنامکس کے نام پر پڑھائی جاتی رہیں لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بے کار چیزیں تھیں جو پڑھائے جانے کے قابل نہیں تھیں ۔
کسی خاتون نے اپنا تجربہ بیان کیا کہ ہماری نانی نے ترپائی سکھائی کہ بس ! یہ میرا دوپٹہ ہے اور اس کا ایک پلو ترپائی کرو۔ نانی جہاں جہاں ہوتی ، ساتھ ساتھ نواسی ۔ یعنی بچہ ہمہ وقت کسی بڑے کی نگرانی اور صحبت میں۔
جدید اسکرین اور اس کے تیزی سے بدلتے مناظر ارتکاز کے دشمن ہیں۔ بچوں کا کسی بھی کام میں ایک سکینڈ کے لئے جم کر بیٹھنے کا دل نہیں کرتا ۔
اسکرین نے پرائیویسی کا عجیب تصور دیا ہے ۔
مطالعے کے بعد ہنر سے متعلق ساری سرگرمیاں ذہن ، جسم اور شخصیت میں بہتر اوصاف اور صلاحیت پیدا کرتی ہیں ۔
جدید ڈگری ہولڈر لڑکی ، بینک میں ڈائریکٹر لڑکی کو شادی کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ کپڑوں میں استری کرنا اور کھانا گرم کرنا بھی کوئی کام ہے تو وہ شور مچا دیتی ہے۔ نسوانیت اور اس کی توہین کے نعرے لگ جاتے ہیں جب کہ ڈگری کے بعد کوئی ایک ایسی اسکل ہم نے نہیں سیکھی ہوتی کہ جس میں زندگی سے متعلق کسی ایسی بات کا علم دیا گیا ہو جس سے گھر بنتے ہوں ۔
خواتین کے یہ ہنر حقیقت میں اور بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ گھر کی خوب صورتی میں بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔
اسی طرح لڑکوں کے بھی بنیادی نوعیت کے بہت سے ہنر ہیں جو بعد میں روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں لیکن ہماری جان تو تختہ سیاہ اور چار دیواری میں گھس کر ہوم ورک کلاس ورک سے ہی نہیں چھٹتی ۔
شوقین والدین علیحدہ سے پیسے دے کر مختلف کورسز کے لئے دوڑتے رہتے ہیں کیوں کہ یوٹیوب کے باوجود استاد کی اہمیت کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے ۔
اور نہیں تو کچھ انگریزوں سے ہی سیکھ لیں کس قدر خوبصورت چیزوں کے ذریعے اپنے ہنر کو پیش کرتی ہیں ان کو تو کبھی یہ کام نسوانیت کی توہین اور کمتر نہیں لگے ؟ ہماری خواتین ان چیزوں کے معاملے میں اتنی حساس کیوں ہوگئی ہیں ؟
ایک تبصرہ برائے “ہنر : ذہنی ، جسمانی اور شخصی بہتری کے لیے کیسے ضروری ہوتے ہیں؟”
بہت اچھی تحریر ھے،لیکن مختصر ھے کچھ طویل ھونی چاہئے تھی۔ یہ بہت اہم موضوع ھے۔ بلکہ عصر حاضر کا المیہ ھے۔