تزئین حسن :
یہاں ہمیں تھوڑا سا ٹھنڈے دل و دماغ سے اس بات کا بھی تجزیہ کرنا ہو گا کہ کیا یہود دنیا کے لاڈلے ہیں یا تھے کہ دنیا نے انہیں پلیٹ میں رکھ کر فلسطین پیش کر دیا ؟ یا انہوں نےخود کوشش کر کے اپنے بل بوتے پر طاقت پکڑی اور دنیا میں ایک حیثیت حاصل کی اور اپنی ڈپلومیسی کے بل بوتے پر دنیا کو جھکایا ؟ دنیا کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کا ساتھ دے ۔
کیا اس منظر نامے میں ہمارے سیکھنے کے لئے کچھ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جس یورپ کو صیہونیوں نے اسرائیل کے قیام کے لئے استعمال کیا وہاں ان کے ساتھ بد ترین زیادتیاں ہوتی تھیں۔ ان ممالک میں جرمنی اور روس سر فہرست ہیں لیکن برطانیہ اور فرانس میں بھی ان کے خلاف تعصب بلکہ شدید نسل پرستی کے جذبات تھے۔ شاید ویسے ہی جیسے آج مسلمانوں کے لئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مسلمان اب دنیا کے نئے ولن بن گئے ہیں لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس سے قبل کمیونسٹ عالمی ولن تھے، اس سے قبل جرمن، اور اس سے قبل شاید خود یہود ۔
پچھلے دنوں ٹویٹر پر یہ ہیش ٹیگ بہت مقبول ہوا کہ
Muslims Are The New Jews
یعنی آج کی دنیا کے ولن اب یہود نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ مسلمان اپنی ایک سو اسی کروڑ آبادی اور دنیا کے ہر خطے میں موجودگی کے باوجود جس صورت حال کا شکار ہیں، اس سے نکلنے کی اسٹرٹیجی بنانے کے لئے، ہمیں ان قوموں سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک دور میں عالمی ولن رہی ہیں۔ یہود کا نمبر ان قوموں میں سب سے آگے آتا ہے۔
گو مسلم دنیا میں کبھی یہود کو نسل پرستی یا مظالم کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن یورپ میں ان کے خلاف قرون وسطیٰ سے ہی شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ نشاۃ ثانیہ کے ادوار میں بھی ان میں کمی نہیں آئی ۔ ان کے خلاف وقفے وقفے سے پوگروم یعنی یہود کش فسادات ہوتے جیسے آج برما اور انڈیا کے مسلمانوں کے خلاف ہوتے ہیں۔
انہیں فسادات سے بچنے کے لئے اس قوم کی قیادت کرنے والوں نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں نہیں آتا، یہودی قوم کو ان مظالم سے نجات نہیں ملے گی۔
لیکن اس ریاست کے قیام کے لئے اس قوم نے ڈپلومیسی کی طاقت استعمال کر کے دنیا کو کس طرح جھکایا، یہ بڑی دلچسپ داستان ہے۔
آج کل جان کویگلی کی میرے مطالعہ ہے۔ کتاب میں مصنف کویگلی، صیہونی رہنمائوں کی اس ڈپلومیسی پر بحث کرتے ہیں جس کے ذریعے اسرائیلی ریاست کا خواب دیکھنے والے یورپ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں خود یورپ کا فائدہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت خود یہود کے مختلف فرقوں میں اس کے قیام سے پیشتر موجود تھی۔ خود فلسطین میں رہنے والے عرب یہودیوں بلکہ مذہبی جذبات کی وجہ سے وہاں منتقل ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی مخا لفت کی۔
خود یورپی یہودی بھی فلسطین جیسی غیر ترقی یافتہ خطے میں منتقل ہونے کے بجائے یورپ میں ہی حقوق چاہتے تھے اور اگر انھیں کہیں منتقل ہونا تھا تو امریکا ان کے لئے بہترین انتخاب تھا جس نے روس سے بھاگے ہوئے دو ملین یہود میں سے لاکھوں کوپناہ ہی نہیں شہریت بھی دی تھی۔
لیکن اس کے باوجود اسرائیل کا خواب دیکھنے والے مغربی حکمرانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ دنیا کے تمام یہودیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور یورپی یہودیوں کے مسئلے کا حل فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے۔ کویگلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا قیام دراصل ڈپلومیسی کی جیت ہے۔
ڈپلومیسی کی اس جیت نے یورپ میں مبغوض اشکنازی یہودیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو جو خود یہود کی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہے، کے لئے ایک ناممکن امر کو ممکن کر دیا، تو کیا ہم مسلمانوں کو ڈپلومیسی کے اس محاذ کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کرنا چاہیے؟ یہ بھی یاد رہے کہ ڈپلومیسی کی اہلیت صرف فلسطین کے معاملے میں نہیں بلکہ امت کو در پیش لاتعداد پیچیدہ مسائل اور تنازعات کے حل کے لئے اہم ہے کہ یہ بھی دنیا میں بقا کی ایک اہم ضرورت رہی ہے۔
اقبال سو سال پہلے کہہ گئے
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
اب اپنی سادگی اور بھول پن کو چھوڑ کر ڈپلومیسی سیکھنے کا وقت ہے۔