اسلم ملک :
ہمارے ہاں جیسے انتخابات میں کوئی اپنی شکست نہیں مانتا اور ہار کا الزام دھاندلی پر دھر دیتا ہے، اسی طرح سی ایس ایس میں ناکام ہونے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ جی ! صرف بیورو کریٹس کے بچے سلیکٹ ہوتے ہیں. ان کے گھر والے، دوست، پڑوسی سب یہ مان لیتے ہیں اور چونکہ کامیاب ہونے والے 200 ہوتے ہیں تو ناکام ہونے والے 20000، ان کا بیانیہ اتنا پھیل جاتا ہے کہ سب کو یقین آجاتا ہے.
اس عذر لنگ میں اس بات پر غور ہی نہیں کیا جاتا کہ ان سے اصل ہاتھ ہوتا کیا ہے.
ہم میں سے بیشتر لوگوں کو انگریزی بھی پنجابی، اردو، سندھی وغیرہ میں پڑھائی گئی ہوتی ہے. انگریزی کی اچھی فہم، بول چال اور تحریر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اس کمی کو پورا کرنے کیلئے بہت زیادہ زور لگانے کی ضرورت ہوتی ہے.
اب مقابلہ ان نوجوانوں سے ہوتا ہے جن میں انگریزی کی قابلیت پہلے سے ہوتی ہے. ان میں کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھروں کے بچے ہی زیادہ ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ بیورو کریٹ نہ صرف اچھے پڑھے لکھے ہوتے ہیں بلکہ انہیں ان سب چیزوں کا بھی اچھی طرح پتہ ہوتا ہے جو آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہیں.
پیسے والے، زمینوں والے بھی انتظام کرلیتے ہیں. وہ اپنے بچوں کو ان سکولوں میں پڑھاتے ہیں جہاں بس انگریزی بولی جاتی ہے. دیسی زبانیں ممنوع ہوتی ہیں.
اب عملاً یہ ہوتا ہے کہ 100 میٹر کی ریس میں کچھ مقابلہ کرنے والے سٹارٹنگ پوائنٹ سے 10 میٹر، 20 یا 30 میٹر آگے کھڑے ہوتے ہیں. یہ وہی انگلش میڈیم تعلیم والے، پڑھے لکھے گھروں کے اور مناسب رہنمائی رکھنے والے ہوتے ہیں. اسی فرق سے مقابلہ فئیر کیسے رہ سکتا ہے.
بھارت میں کوئی لائق نوجوان صرف انگریزی کی وجہ سے مار نہیں کھاتا. وہاں انڈین ایڈمنسٹریشن سروس IAS کا امتحان اردو، پنجابی سمیت ان 22 تسلیم شدہ زبانوں میں دیا جاسکتا ہے Assamese, Bengali, Gujarati, Hindi, Kannada, Kashmiri, Konkani, Malayalam, Manipuri, Marathi, Nepali, Oriya, Punjabi, Sanskrit, Sindhi, Tamil, Telugu, Urdu, Bodo, Santhali, Maithili and Dogri (آسام کے گورنر نے سرائیکی بھی ان زبانوں میں شامل کرنے کیلئے مرکز کو خط لکھ دیا ہے)
فائنل انٹرویو بھی انہی زبانوں میں دیا جاسکتا ہے.
اردو میں امتحان دینے والے بھی وہاں پوزیشنیں لیتے رہے ہیں.
ہمارے ہاں اس اصل مسئلے کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں.
ہمارے ہاں لائق ترین نوجوان بھی صرف رواں انگریزی لکھ یا بول نہ سکنے کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں. اسی وجہ سے صرف انگریزی اور انٹرویو کی تیاری کرانے والی اکیڈمیز کم از کم ایک لاکھ روپے فیس وصول کررہی ہیں.بڑے شہر آکر رہائش اور دوسرے اخراجات الگ.
اصل ضرورت ان امتحانات کیلئے انگریزی کی لازمی حیثیت ختم کرنا ہے. بھارت کے اس فیصلے سے وہاں کی IAS کا معیار قطعی کم نہیں ہوا.
جہاں تک بیورو کریٹس کے بچوں کو کسی فائدے کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ ہزار میں سے کسی ایک امیدوار کو اتفاق سے کچھ فیور مل جائے. مثلاً میری ایک عزیزہ ایک مشہور پروفیسر کی بیٹی ہیں. ایک انٹرویو میں ماہر مضمون نے نام پڑھ کر پوچھا آپ ان پروفیسر صاحب کی کیا لگتی ہیں؟ ان کے بتانے پر شاید انہوں نے ہمدردانہ نمبر ہی دئیے ہوں گے.
ایسے کسی بیوروکریٹ کا بیٹا انٹرویو میں جائے اور اتفاق سے ان کا کوئی سابق کولیگ بھی پینل میں ہوتو اس کا بھی معمولی فائدہ ہوسکتا ہے لیکن بعض صورتوں میں بھاری نقصان بھی ہوتا ہے. بیورو کریٹس کے ضروری نہیں کہ آپس میں اچھے تعلقات ہی رہے ہوں.
کوئی پینتیس سال پہلے کی بات ہے. سی ایس ایس کا نتیجہ آیا تو کامیاب ہونے والوں میں بیس پچیس ایسے تھے جن کے نام سے پہلے ڈاکٹر بھی تھا. اس پر اخبارات میں شور مچ گیا کہ ڈاکٹروں کی اتنی ضرورت ہے، اتنا ان پر خرچ آتا ہے اور وہ ڈاکٹری چھوڑ رہے ہیں. اب کسی قانون کے ذریعے تو ڈاکٹروں کے سی ایس ایس کے امتحان میں شرکت پر پابندی لگائی نہیں جاسکتی تھی. بس یہ ہوا کہ نتائج میں نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا بند کردیا گیا.
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ سیکریٹریٹ یا کسی اور دفتر جاتے ہیں تو گیٹ کیپر، چپڑاسی سے لیکر کلرک اور سیکشن افسر ان سے جو برتاؤ کرتے ہیں، اسی سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں. ڈاکٹر، انجنئیر اچھے طالب علم رہے ہوتے ہیں. سخت محنت اور مقابلے کے بعد بنے ہوتے ہیں. موٹی موٹی کتابیں رٹنے کا تجربہ ہوتا ہے. سی ایس ایس کا امتحان ان کیلئے کچھ مشکل نہیں ہوتا.
اسی سال کامیاب ہونے والوں میں ضلع شکار پور سندھ کی ڈاکٹر ثنا رام چند بھی کہتی ہیں کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال اور مریضوں کی حالت دیکھ کر دل شکستہ ہوگئیں اور اس نتیجے پر پہنچیں کہ بیوروکریسی ایسا پلیٹ فارم دیتی ہے جہاں آپ کچھ نہ کچھ تبدیلی لاسکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں میں نے اپنے موبائل سے تمام سوشل میڈیا ایپس ڈیلیٹ کردیں، سماجی رابطے منقطع کردیے اور آٹھ مہینہ دل و جان سے سی ایس ایس کی تیاری کی، بالآخر کامیاب ہوگئی. کووڈ وارڈ کی ڈیوٹی کے ساتھ انٹرویو کی تیاری کی۔
لیلیٰ ملک شیر، شیریں ملک شیر، سسی ملک شیر، ماروی ملک شیر ،ضحیٰ ملک شیر پانچ بہنیں ہیں جو باری باری سی ایس ایس کیلئے منتخب ہوئیں. بڑی بہن کو زیادہ محنت کرنا پڑی ہوگی، اس کے بعد تو سب کو گھر سے ہی کوچنگ ملتی رہی. وہ ہری پور ہزارہ کے ملک محمد رفیق اعوان کی بیٹیاں ہیں جو واپڈا سے ایس ڈی او ریٹائر ہوئے ہیں.
ظاہر ہے سب انجینئر سے ملازمت شروع کی ہوگی. انہیں بیورو کریٹ تو نہیں کہا جاسکتا. ان کی صرف بیٹیاں ہیں. ان کی معیاری تعلیم کیلئے انہوں نے راولپنڈی میں رہائش اختیار کی. کانونٹ میں پڑھایا. بیٹیوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرکے ان میں اعتماد بڑھایا. اب یہ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ قابل فخر ہیں.
چترال کے ایک دور افتادہ علاقے سے تعلق رکھنے والی شازیہ اسحاق پولیس سروس کیلئے منتخب ہوئی ہیں. وہ ایک ریٹائرڈ صوبیدار کی بیٹی ہیں. اس وقت ایک مڈل سکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں.
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی سونیا شمروز خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون ڈی پی او بنی ہیں۔ انہیں کسی اکیڈمی بھی نہیں جانا پڑا. ان کے شوہر سی ایس ایس آفیسر ہیں. انھوں نے ہی شادی کے بعد سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کرائی.
زوہیب قریشی لاڑکانہ کے موٹر مکینک عبداللطیف قریشی کے بیٹے ہیں. عبداللطیف قریشی کو شوق تھا کہ بیٹا افسر بنے. اپنی استطاعت سے بڑھ کر مہنگے ادارے میں تعلیم دلائی. ان کا انتقال ہوگیا تو سارا خاندان زوہیب کی پشت پر آگیا. مشکلات کے باوجود زوہیب مرحوم والد اور خاندان کی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے.
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی رابیل کینیڈی پاکستان فارن سروس کی پہلی خاتون افسر بنی ہیں.وہ ایک سرکاری محکمے کے ڈرائیور جان کینیڈی کی بیٹی ہیں. انہوں نے سکول میں پڑھاتے ہوئے شام کے اوقات میں تعلیم مکمل کی اور پھر سی ایس ایس کی تیاری بھی. انہیں ایک مخلص استاد کی رہنمائی میسر آگئی تھی.
پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم کہتی ہیں، میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ سی ایس ایس میں حتمی کامیابی کے لیے دو چار مہینے کا رٹا یا کسی اکیڈمی میں ڈھیروں پیسہ دے کر ٹیوشن پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا. اس کے لیے ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ ضروری ہے. جن امیدواروں کی سکولنگ اچھی ہے، انگریزی زبان پر اچھی دسترس ہے، گھر میں علمی ماحول ہے. سیاسی شعور اور سوجھ بوجھ ہے، نصابی معلومات سے ہٹ کر بھی دنیا کے بارے جاننے کا شوق رکھتے ہیں، ایسے لوگ کچھ اضافی وقت اور توجہ دے کر، ذرا منظم طریقے سے محنت کر لیں تو بہت اچھے نتائج مل سکتے ہیں.
میں پھر یہ کہوں گا کہ ذہانت، علم اور وسیع معلومات رکھنے والا کوئی نوجوان مرد یا خاتون صرف انگریزی میں ایک خاص معیار نہ ہونے کی وجہ سے اس سروس میں آنے سے کیوں محروم رہے. مدرسوں کے فاضلین کیلئے کیوں دروازہ بند رکھا جائے. ایسے علم والے بھی سروس میں موجود ہوں تو یہ تو نہ ہو جیسا پچھلے دنوں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے اکنامسٹ کو سیکریٹری اوقاف و مذہبی امور بناکر کیا گیا.
اردو میں امتحان شروع کریں، آپ کو صرف انگریزی دان نہیں، بہت لائق افسر ملیں گے.
ویسے اب امیر طبقے میں سی ایس ایس میں آنے کا رجحان کم ہوگیا ہے.
اب وہ خود مشقت کرنے کی بجائے کسی سی ایس ایس خاتون سے شادی کرلینے، کسی جاگیردار کے داماد بن کر مشترکہ اثر رسوخ سے بیوی کا نام ایم این ایز، ایم پی ایز کی فہرست میں شامل کرالینے، ایل ایل بی کرکے کچھ عرصہ بار کی سیاست، کسی اہم چیمبر سے تعلق یا دامادی کے ذریعے تین چار سال جج بن کر چیف سیکریٹری سے زیادہ ریٹائرمنٹ کے فوائد لینے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں.
جاگیردار اور بیوروکریٹ دونوں ایک دوسرے سے مرعوب ہوتے ہیں. باہمی رشتے داریاں سی ایس ایس سے بہت زیادہ منافع بخش ہوتی ہیں. بیوروکریٹس میں بیٹوں کو کوئی انڈسٹری لگواکر اپنے تعلقات سے پھلنے پھولنے کا بھی رجحان ہے. وہ بعض اوقات نقد رشوت لینے کی بجائے بچوں کو بڑے صنعتی، تجارتی اداروں، ملٹی نیشنلز، بنکوں کے ایگزیکٹوز بنوا لیتے ہیں. اور سب سے زیادہ تنخواہیں ایسے ہی اداروں میں ہیں.