جویریہ خان :
اسرائیل نے فلسطین پر جارحیت کی، ایسے میں دیگراقوام کی طرح پاکستانی قوم کے پرجوش لوگوں نے اس کی مذمت کی، فیس بک پر پوسٹس لگائیں۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ ہر مذمتی پوسٹ فیس بک ڈیلیٹ کردیتا، اگر کوئی فیس بک یوزر مذمتی پوسٹس شائع کرنے سے باز نہ آتا تو اس کا اکائونٹ بند کردیا جاتا۔۔۔۔ اور جذباتی پاکستانیوں میں بعض مرد و زن بلند آہنگ کے ساتھ نعرہ زن ہوتے کہ میرے پانچ اکائونٹ بند ہوچکے، کوئی کہتی کہ میرے چار اکائونٹ بند ہوچکے۔
ایسے میں آصفہ عنبرین قاضی کی یہ تحریر سامنے آئی:
”بعض معاملات میں جوش کی بجائے ہوش زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے، بات حکمت عملی کی ہے. یہی وجہ ہے کہ تاریخ نے ہزاروں کا لشکر سینکڑوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے دیکھا ہے۔ کئی لوگوں کے اکائونٹ بند کر دیئے گئے۔ نیا اکائونٹ بنانا مشکل کام نہیں لیکن اس کو موثر بنانے میں وقت لگتا ہے ۔
جوش یہ کہتا ہے کہ ہزاروں اکائونٹ بھی بلاک ہو جائیں لیکن آواز اٹھاتے رہیں گے۔
ہوش کہتا ہے کہ ایسی آواز کا کیا فائدہ جو ہزاروں لوگوں سے پچاس پر آ جائے ۔
۔ Hard work اور Smart work میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
ہمارا اپنا نہ تو کوئی سرچ انجن ہے نہ نیٹ ورک اور نہ انٹر نیشنل سوشل میڈیا ، حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف صارف ہیں اور فیس بک جب چاہے ہمیں اپنی سہولت دینے سے انکار کر دے ۔
اب اپنی ترجیحات کا تعین کیجیے۔ مظلوم کی مدد نہیں کر سکتے تو ظالم کے ہاتھ کمزور کیجیے۔ مقابلہ دشمن کی چال سے ہو تو چال چلنی پڑتی ہے۔
پیجز کو بلاک کرنے کی بجائے مصنوعات کو بلاک کیجیے۔
آپ بڑے سٹور مالکان سے بات کیجیے، آپ خود تاجر ہیں تو یہ قدم اٹھائیے ۔ مجھے معلوم ہے لوکل لبرل فرمائیں گے کہ ان جیسی کوالٹی لا کر دکھائیں۔ تو بات اتنی سی ہے کہ مظلوم کے خون پر ہمیں دشمنوں کی کوالٹی نہیں چاہیے ، پیٹ کے لیے خون مسلم پر کوئی سمجھوتہ نہیں، اس بار کوکا کولا کی بجائے جام شیریں پی لیجیے پیٹ میں جاکر دونوں کا معیار ایک ہی ہوجاتا ہے ۔
بقول اقبال
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
ہر وہ چیز خریدنا چھوڑ دیں جس کا ” بار کوڈ “ …..GS1__729 سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر آپ ہیڈ اینڈ شولڈر ہی خریدنا بند کرکے متبادل شیمپو خریدتے ہیں تو P& G کو سالانہ ” آٹھ ہزار “ کا نقصان پہنچے گا، اگر دو ہزار گھرانے اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو سالانہ صرف شیمپو کی سوا کروڑ کی خریداری کم ہو جائے گی۔
پلے سٹور پر فیس بک کے ریووز میں ان کی پالیسی کو نشانہ بنائیے، ریٹنگ کم کیجیے ، کمیونٹی سٹینڈرڈز اور مظلوم کی بات کیجیے ۔ لاکھوں Reviews پر کوئی تو ایکشن ہوگا۔ چند لاکھ صارف اس جن کو گرا سکتے ہیں۔
مسئلہ قادیانیت کا ہو ، گستاخانہ خاکوں کا ، یا موجودہ ( اسرائیلی ) بربریت کا ۔۔۔۔ ہم صرف گفتار کے غازی ثابت ہوتے ہیں۔ اس بار عمل کرکے دکھائیے، دشمن کو نقصان نہ بھی پہنچا آپ کا ضمیر مطمئن ہوگا۔
آستینوں کے بتوں کی منطق اور فلسفہ جاری ہے اور جاری رہے گا ۔ جب انسان مر جاتا ہے تو جسم ڈی کمپوز ہونے لگتا ہے لیکن بعض اقات ضمیر بھی ڈی کمپوزیشن کے عمل سے گزرتے ہیں۔
اب کے مقابلہ انسان کا انسان سے نہیں مردہ ضمیر کا زندہ سے ہے، اب فیصلہ آپ کا ہے کہ ڈٹ جانا ہے یا ہٹ جانا ہے ۔ “
آصفہ عنبرین قاضی نے یہ تحریر لکھی ، سینکڑوں لوگوں نے اسے پسند کیا۔ بہت سوں نے اسے اپنی فیس بک وال پر شئیر کیا ۔ آصفہ عنبرین قاضی کی اس بات کو لوگوں نے اپنے پلے سے باندھ لیا اور ایک مہم کی صورت میں اس آئیڈیا پر عمل شروع کردیا کہ
” پلے سٹور پر فیس بک کے ریووز میں ان کی پالیسی کو نشانہ بنائیے، ریٹنگ کم کیجیے ، کمیونٹی سٹینڈرڈز اور مظلوم کی بات کیجیے ۔ لاکھوں Reviews پر کوئی تو ایکشن ہوگا۔ چند لاکھ صارف اس جن کو گرا سکتے ہیں۔ “
اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیس بک کے شیرز اوپن مارکیٹ میں ایک دن میں 6 ڈالر گرگئے، جس کی وجہ سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ ہر گھنٹے بعد گرنے والے گراف کو دیکھیے ۔ آخری اطلاعات کے مطابق 2.6 والی ریٹنگ بھی 2.5 پہ آچکی ہے، ملنےوالے مختلف Ads کے سلسلے میں بہت بڑا ٹیکہ لگ گیا ہے، آصفہ عنبرین قاضی نے کہا: ” تھوڑی سی ہمت سب کریں تو 2 تک تو پہنچا ہی دیں گے۔ “
یہ ان لوگوں کو ایک بہترین اور موثر ترین جواب تھا ، جو کہتے تھے کم ریٹنگ سے فیس بک کو کیا نقصان ہوگا؟
آصفہ عنبرین قاضی کا کہناتھا کہ ” مسلمانوں نے تو فیس بک کی ریٹنگ کو رُلا ہی دیا ۔ ایک دن میں ریٹنگ 4.2 سے 2.6 پہ آگئی۔ “ وہ لوگوں کو مسلسل دعوت دے رہی تھیں کہ آپ بھی پلے سٹور میں FB کھولیں اور جہاں ریٹنگ لکھی ہے وہاں کلک کر کے، ایک سٹار کے ساتھ ریویو میں اس جانب دار ایپ کو دو جوتے بھی مار کے آئیں۔ سمارٹ ورک کیجیے، ایسے ہی ان کی مصنوعات کی ریٹنگ بھی صفر کیجیے۔۔۔ ترک کیجیے!
یہی بہترین حکمت عملی ہے۔ یہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے!
اور پھرفیس بک حکام نے وضاحتیں دینا شروع کردیں کہ مسلمانوں کی جو پوسٹیں ڈیلیٹ ہوئیں وہ ٹیکنیکل پرابلم تھی، ہم نہیں کر رہے تھے۔
اب ایک بہترین ہتھیار پاکستانیوںکے ہاتھ لگ چکا ہے، وہ مسلسل فیس بک کی ریٹنگ کم کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ریویوز کی صورت میں فیس بک کی جانبدارانہ اور متعصبانہ پالیسی پر کڑی تنقید بھی کررہے ہیں۔ اگر یہی کام باقی اقوام بھی شروع کردیں تو سوچیے کہ فیس بک جیسی کمپنی کو صرف دھول ہی چاٹنا پڑے اور وہ بھی مسلسل۔ حتیٰ کہ وہ اپنی غلط روش سے باز نہ آجائے۔
آصفہ عنبرین قاضی کا آئیڈیا اور اس پر تشکیل پانے والی کہانی ، کامیابی کی ایک شاندار داستان ہے۔ یہ ان مایوس لوگوں کے لئے خاص ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیںکرسکتے، دشمن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہ صرف ایک پراڈکٹ کو بے قدر کرنے کی کہانی ہے، اگر دشمن کی طرف داری کرنے والوں کی تمام پراڈکٹس کا بائیکاٹ ، ان کی سٹار ریٹنگ کم کرنے کی کوشش کی جائے، ریویوز کے ذریعے انھیں بدنام کردیا جائے تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔