گفٹ پیک

تحفہ عید : رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عاصمہ غنی :

محبتوں کے اظہار اور تعلقات کے بناﺅ اور مضبوطی کے لئے ’ تحفہ عید ‘ کا لین دین ہمارے کلچر اور تہذیب کی اہم علامت ہے۔ خوشی کے اس تہوار (Event) پر اہل خانہ کی انفرادی تیاریوں کے ساتھ دوسروں کے لئے تحائف اور عیدی کا انتظام پیش نظر رہتا ہے۔گھریلو بجٹ میں اس کو اہم مدّ سمجھ کر شامل کیا جاتا ہے۔

والدین ، اولاد ، بہن بھائی ، عزیز و اقربا ، اہل ہمسائیہ و محلہ اور دوست احباب جن سے تعلقات کی استواری مطلوب ہوتی ہے، تحائف اور نقدی کی صورت اہتمام ہوتا نظر آتا ہے۔ خواتین کی شاپنگ کا اہم موضوع اور فکر عید کے لئے دیے جانے والے تحائف کا انتخاب ، فراہمی اور خرید ہوتا ہے۔

ایک گھریلوخاندانی عورت جسے ایک بہت بڑا حلقہ ، خاندان نبھانے کا طریقہ اور سلیقہ آتا تھا، اس کے بقول سارا سال شاپنگ کے دوران میں اس موقع کوپیش نظر رکھتے ہوئے بوڑھوں ، جوانوں اور بچوں کے لئے اشیا جمع کرتی رہتی تاکہ رمضان کی قیمتی ساعتیں اس مصروفیت کی نذر نہ ہوں اور یہ کام بھی بحسن و خوبی ہوجائے۔ مثلاً خوبصورت دوپٹے ، سکارف ، سوٹ ، ہینڈ بیگز ، گھریلو استعمال کی دیگر اشیاءاور بچوں کی گھر اور سکول کی ضروریات وغیرہ۔

عید پر تحائف کے لین دین کا یہ سلسلہ کلچر ہی کا حصہ نہیں تعلقات کی بہتری کی ہدایت کے لحاظ سے ہمارے دین کا بھی مطالبہ اور تقاضا ہے۔ معاشرتی تعلقات کے لئے قرآن پاک میں سورة النسا آیت نمبر86 میں ہدایت کی گئی کہ ’ جب کوئی احترام کے ساتھ تحفہ دے ( سلام یا دعا ) تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ تحفہ دو( سلام یا دعا ) یا کم از کم اسی طرح ، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔‘

رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو اپنے عملی طریقہ سے ہدایت کی کہ آپس میں تحائف کا لین دین کیا کرو۔ حقیقت ہے کہ مال و جان سے ایک دوسرے کی ایسی بے لوث خدمت ، اور محبت کو بڑھاتی اور باہم بغض ، عداوت اور رنجشوں کو دور کرنے کا باعث بنتی ہے۔ خوشی کے ان مواقع کو باہم محبت کو فروغ دینے کا موجب بنانا بہت اہم ہے۔ اسے محض رسم و رواج اور طور طریقہ بنالینا کافی نہیں۔اصل مقصد کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہیے۔

آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ خوشی کے مواقع اللہ کے لئے مل کر بہت زیادہ کرنے ، آپس میں میل جول بڑھانے اور مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پینے کے ہیں۔(شرح معنی الاثار)

رسول اللہ ﷺ حدیث قدسی میں ارشاد فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں سے لازماً محبت کرتا ہوں، جو میری وجہ سے باہم محبت کرتے ہیں، میرے لئے باہم مل بیٹھتے ہیں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔( موطا امام مالک)

گویا کھلانے پلانے کی صورت ہو ، تحائف اور اشیا کی شکل میں ہو ، نقدی اور مال کی صورت میں ہو یا اچھے الفاظ اور ملاقات کی شکل ہو، اللہ کے ہاں شرف قبولیت پاتے ہیں۔ معاشرے کے خستہ حال غریب لوگوں کے لئے عید کے موقع پر صدقہ فطر کی شکل طے کرکے ایک باعزت نظام بنایا گیا جو ایک جانب روزے میں ہونے والی کوتاہیوں کی معافی کا سبب بنتا ہے اور دوسری طرف مخلوق خدا کو خوشیوں کی فراہمی کا انتظام ، جس سے امرا اور غربا کے دل جڑتے ہیں۔

اہل مغرب یہود و نصاریٰ اس رابطے کو کارڈز اور مادی تحائف تک محدود کرتے ہیں جبکہ دین اسلام تعلقات کی استواری کا وسیع اجتماعی تصور امت میں بیدار کرتا ہے۔ یہ تعلق صرف قیمتی اشیا ہی سے نہیں ، مبارک باد دے کر کھانا کھلانے ، لباس پہنانے، کھجور کے آدھے ٹکڑے اور بکری کا کھر ، قول معروف کسی بھی کوتاہی سے چشم پوشی تک وسعت دے کر دوسروں کو نفع بخشی کا دائرہ بہت بڑا کردیتا ہے۔

محبت سے بولا ایک میٹھا بول ’ قولوا للناس حسنا‘ کی ہدایت دلوں کو ایک دوسرے کے ایسا قریب کرسکتی ہے جو روئے زمین کی ساری دولت دے کر بھی جوڑے نہیں جاسکتے۔ مخلوق خدا کو رضائے الہی کی طلب میں مسکراہٹ کا نذرانہ دے کر ، بڑھ کر سلام کرنے ، فون یا میسیج کرکے ، مجلس میں جگہ دے کر ، اپنے آپ کو سمیٹ کر ، مصافحہ یا معانقہ کرکے، شکریہ و جزاک اللہ کہہ کر ، حال پوچھ کر عیادت کی صورت حقوق کی ادائی آسان کردی۔

کسی دوسرے کے جسمانی ، اخلاقی عیب اور کمزوری سے چشم پوشی اور معافی باعث اجر ٹھہرتی ہے۔ خاندان ، سوسائٹی کے بڑے بزرگ اور عمر رسیدہ لوگوں سے مادی اشیا کی طلب اہم ایشو نہیں ہوتا ، جوانوں کی طرف سے محبت ، توجہ اور بدنی خدمت اہم ہوتی ہے۔

ایسے میں ان کے حال احوال اور صحت کے بارے میں پوچھنا ، ان کی غیرموجودگی میں ان کے لئے دعا اور ان سے اپنے لئے درخواست دعا ، زندگی کے سفر میں کامیابی کی چاہت کے لئے ان کے تجربات سے استفادہ کرنا اہم ہے۔ ان کی نصیحت ، قول ، اچھی عادات ، ٹپس ، کوئی ایک مثال ، کہانی پر شکرگزاری کا رویہ ان کے لئے خوشی کا باعث بنتا ہے۔

ادب ، طریقے اور اسلوب کا اعتراف سوٹوں ، جوتوں اور بیگز سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
’ میں نے آپ کو فلاں موقع پر یاد کیا ‘ ،
’ میرا آپ سے ملنے کو جی چاہ رہا تھا ‘ ،
’ ہمارے لئے آپ کا وجود باعث برکت ہے‘ ،
’ اللہ آپ کو صحت والی زندگی دے ۔‘

ایسے الفاظ وہ قیمتی تحائف ہیں جو ایک طرف بزرگوں کی قوت اور طاقت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں تو دوسری جانب ایسا کرنے والے نوجوانوں کے رویے ، حسن اخلاق، حسن گفتار ان کے علم حلم پر اختیار کی صورت ان کی جوانی کو حسن و زینت بخشتے ہیں اور ان مواقع کی خاموشی ، لاتعلقی اور بے نیازی انھیں اکڑفوں بنا کر عیب دار کردیتی ہے۔

’ واصلحوا ذات بینکم ‘ کی تاکیداً قرآنی ہدایت کی تکرار ہر سٹیج ، دور اور حالات میں تعلقات کو پہلے سے بہتر بنانے کی گردان اور پکار دیتی ہے۔ اپنے اخلاق اور رویے کی بہتری کے لئے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وما توفیقی الا باللہ ۔

خوشی کے ان قیمتی مواقع اور مجالس کو گلے شکووں، چبھتی ، تیکھی، تلخ گفتگو ، آنکھوں اور چہروں کے تاثرات سے بچا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ مادی اور مالی تحائف کے اچھا اور برا ، تھوڑا یا زیادہ ، اعلیٰ اور ادنیٰ ، بڑھیا یا گھٹیا اور کمتر یا برتر ثابت کرکے داغ دار نہ ہونے دیں۔ حال اور ماضی کی کمی کو حالات ، خشیت اور بہتری کے ساتھ آئندہ توہین و تحقیر پورا کیا جاسکتا ہے لیکن گلے شکوے بھولتے نہیں۔

ان پر درشت مزاجی، ترش روئی اور تلخ کلامی شامل نہ ہونے دیں۔ بلاشبہ جو کوئی دل کی تنگی سے بچا لیا گیا وہی کامیاب ہے۔ دار آخرت کی یاد اور اصل بدلے کی جگہ آخرت کو جاننے اور ماننے والا لین دین میں ان دنیا پرستانہ معیارات کو سٹینڈرڈ نہیں بننے دیتا۔ ایسی ملاقاتیں اور رسم و رواج خاندان میں جڑ پکڑنے لگیں تو لوگوں کے لئے میل جول نبھانا بوجھ اور پریشر بن جاتا ہے، رشتے کٹنے لگتے ہیں،

معاشرے میں تضاد اور تفریق بڑھ جاتی ہے، شیطان کو دل میلے کرنے کا موقع ملتا ہے، گفتگو اور تذکرے میں اہل خاندان، سسرال ، میکے ، اہل قرابت کو دئیے گئے تحائف اور ان کی قیمت گھریلو بجٹ پر آنے والے اثرات کا تذکرہ پورے شدّ و مد سے برملا کیا جانے لگتا ہے مگر ان کی طرف سے وصول فوائد اور اشیاءکا اظہار اور تذکرہ کہیں قابل ذکر نہیں سمجھا جاتا بلکہ اظہار نہایت ناگوار لگتا ہے۔

تحییہ یعنی تحفہ کی صحیح روح سمجھنے کے لئے رضائے الٰہی کے مقصد ، سنت رسول ﷺ ، جزا اور بدلے کی اصل جگہ آخرت پیش نظر رہے تو طرز عمل بدل سکتا ہے۔ تحفہ اور عیدی وصول کرنا اگر بچوں اور جوانوں کا حق اور حصہ ہے تو بڑوں اور بزرگوں کا احترام ، محبت اور ان کی بیماری اور محتاجی میں بدنی خدمت بچوں کی اخلاقی تربیت کا حصہ ہے ۔ گویا اس عمل میں اسلام بڑے چھوٹے اپنے پرائے سب کو شامل رکھتا ہے۔

مادہ و حال کے ساتھ زبان و جسم سے میٹھے بول اور خدمت انسانیت بھی ہماری روایت اور دستور ہے۔ ہمارا دین اور اخلاق و اطوار بھی اور اقدار بھی گویا یہ عادات بھی دراصل عبادت ہیں۔ خالق کی خوشنودی کے لئے ، اس کی رضا کے حصول کے لئے ، اس کی مخلوق کے لئے اپنی جان اور مال کو دل کی رغبت اور محبت سے مال خرچ کرنا ، اس کی خاطر اپنے آپ کو خرچ کرنا، خلق خدا سے محبت بھی اللہ کی بندگی ہے۔ دنیا میں سعادت مندی ہے اور آخر میں یہ عمل میزان عمل کی بھاری نیکی بن کر ترازو اور وزن کا پلڑا جھکا دے گا ۔ان شااللہ

وللہ الدین الخالص
اور اللہ کے لئے اپنی عبادت اور خدمت کو ) خالص کرو۔
اللہ کی عدالت میں تھوڑا عمل مگر اخلاص کا عمل ہی قابل قبول ہے۔

اللھم الف بین قلوبنا و اصلح ذات بیننا
اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑے رکھ، ہمارے آپس کے تعلقات کو درست رکھ

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں