یورپی یونین اور پاکستان کے پرچم

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( چھٹی اور آخری قسط )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق :

پہلے یہ پڑھیے

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 1 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 2 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 3 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 4 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 5 )

یہ بھی واضح رہے کہ استطاعت اور قدرت کی یہ شرط صرف عام جہادی معرکوں کےلیے ہی نہیں بلکہ توہینِ رسالت کے معاملے میں بھی ہے۔ چنانچہ فقہائے کرام نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے کہ اگر کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف گستاخانہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا جائے تو کیا وہ مجبور کیا گیا شخص اس کام کے لیے ذمہ دار ٹھہرے گا ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

( جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کا کفر کیا ، سوائے اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے مگر وہ جس نے کفر کے لیے سینہ کھول دیا ، تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے بڑا عذاب ہے ۔ ( سورۃ النحل ، آیت 106 )

چونکہ ایمان دل کا معاملہ ہے جس سے وہ شخص واقف نہیں ہوسکتا جو کسی کو کلمۂ کفر بولنے پر مجبور کرتا ہے اس لیے بظاہر کلمۂ کفر بول کر جان بچانے کی اجازت دی گئی ہے ۔ تاہم عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی کفر کا کلمہ نہ کہے اور اگر اس کی موت واقع ہوئی تو وہ شہادت کا درجہ پائے گا ۔

چنانچہ سیدنا حبیب بن عدی رضی اللہ عنہ نے یہی عزیمت کی راہ اختیار کی اور رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے نہایت اعلیٰ مرتبے کی بشارت دی ۔ دوسری طرف سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے رخصت پر عمل کیا لیکن پھر انتہائی زیادہ غم زدہ ہوگئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں تسلی دی اور فرمایا :
و ان عادوا فعد ۔
( اگر وہ پھر ایسا کریں تو تم بھی ایسا ہی کرو ۔ )

کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں کلمۂ کفر بولنے کی تلقین کی ؟ امام سرخسی نے سختی سے اس کی تردید کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :

و بعض العلماء رحمھم اللہ یحملون قولہ ﷺ (و ان عادوا فعد ) علی ظاھرہ ، یعنی : ان عادوا الی الاکراہ فعد الی ما کان منک من النیل منی و ذکر آلھتھم بخیر ۔ و ھو غلط ، فانہ لا یظن برسول اللہ ﷺ أنہ یأمر أحداً بالتکلم بکلمۃ الشرک ، ولکن مرادہ ﷺ : فان عادوا الی الاکراہ فعد الی طمأنینۃ القلب بالایمان ۔ و ھذا لأن التکلم و ان کان یرخص لہ فیہ فالامتناع منہ أفضل ۔

( بعض علماء ، اللہ ان پر رحم کرے ، نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک (اگر وہ پھر ایسا کریں تو تم بھی ایسا ہی کرو) کا ظاہری مفہوم مراد لیا ہے یعنی اگر وہ تم پر دوبارہ اکراہ کریں تو تم بھی مجھے برا کہو اور ان کے خداؤں کا اچھا ذکر کرو۔ مگر یہ غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی کو شرک کا کلمہ بولنے کی ہدایت کریں گے ۔ آپ ﷺ کی مراد دراصل یہ تھی کہ اگر وہ اکراہ کی طرف لوٹیں تو تم پھر اطمینان قلب کی طرف لوٹ جاؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمۂ کفر کے کہنے کی اگرچہ رخصت ہے مگر اس سے باز رہنا افضل ہے ۔ )

یہ بات امام سرخسی اس صورت میں کہہ رہے ہیں جب کسی کو گستاخانہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا جائے۔ ہمارے سامنے موجود مسئلہ تو اس کی بہ نسبت کم شناعت کا ہے کیونکہ اس وقت سوال یہ نہیں کہ کسی کو گستاخانہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا جارہا ہو، بلکہ یہ ہے کہ گستاخانہ کلمہ کہنے والے کی پشت پناہی کرنے والی قوم کے ساتھ جنگ سے ہم مجبوراً گریز کی راہ اختیار کرسکتے ہیں یا نہیں؟

البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ گریز کی یہ راہ مجبوراً ہی اختیار کی جاسکتی ہے اور مجبوری کا لحاظ مجبوری کی حد تک ہی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جب نابینا اور دیگر افراد کو، جو جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ، رخصت دی گئی تو ساتھ ہی یہ قید بھی لگادی گئی کہ:
(جبکہ وہ خلوص دل سے اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں ۔) (سورۃ التوبۃ، آیت 91)

اس سے معلوم یہ ہوا کہ قتال سے رہ جانے والوں سے یہ مطالبہ برقرار رہے گا کہ ان کی ہمدردیاں جنگ میں حصہ لینے والوں کے ساتھ ہوں ۔ وہ جنگ میں عملی شرکت نہیں کرسکتے تو مالی امداد دے کر ہی حصہ ڈالیں ، مقاتلین کے اہل و عیال کا خیال رکھیں ، دعاؤں میں مجاہدین کو یاد رکھیں ، کم از کم دل میں تمنا رکھیں کہ کاش وہ بھی اس عظیم فریضے کے ادا کرنے کے اہل ہوتے اور اس فریضے کے ادا کرنے سے قاصر رہ جانے پر انہیں افسوس ہو ۔

( اور ان لوگوں پر بھی کوئی الزام نہیں جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں تو تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا ، پھر وہ واپس مجبورا لوٹے اس حال میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس رنج کی وجہ سے کہ وہ اپنے خرچ پر جہاد میں شرکت کی مقدرت نہیں رکھتے ۔ البتہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہوتے ہوئے بھی پیچھے رہ جانے کے لیے تم سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ وہ اس پر خوش ہوئے کہ گھر بیٹھنے والیوں کے ساتھ بیٹھ رہیں ، اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگادیا ، پس اب یہ اپنی شامت اعمال کے متعلق کچھ نہیں جانتے ۔ ) (سورۃ التوبۃ ، آیت 92 ، 93 )

پس مقدرت کی شرط کا یہ مطلب نہیں کہ عدم قدرت کا بہانہ بنا کر جہاد اور دفاع کے فریضے کی ادائیگی کی فکر ہی چھوڑ دیں بلکہ اس شرط کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان امت میں اجتماعی طور پر بھی اور ہر فرد کی سطح پر بھی اس فریضے کی ادائیگی کی کوششیں جاری رہیں ۔

اسی لیے پیچھے تفصیل سے واضح کیا گیا کہ توہین کے اس معاملے میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشترکہ موقف اپنانا چاہیے اور تنہا لڑنے کے بجائے ہمارا اصل فریضہ یہ ہے کہ ہم اس مشترکہ موقف کےلیے جدوجہد کریں۔

اس بڑی تصویر کو اس کے پورے پس منظر کے ساتھ دیکھنے کے بعد اب اس سامنے کے سوال کا جواب آسان ہوگیا ہےکہ یورپی یونین نے جب ہم سے توہینِ رسالت کے قانون کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے، اور اس مطالبے کے پورا نہ کرنے کی صورت میں جی ایس پی پلس واپس لینے کی بات کی ہے، تو اس صورت میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

کیا جی ایس پی پلس کی حیثیت ہمارے لیے اتنی اہم ہے، کیا یہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، کیا یہ اس قدر ضروری امر ہے کہ اس کےلیے ہمیں توہینِ رسالت کی سزا کو ختم کرنا پڑے تو مجبوری اور اضطرار کے نام پر ہم یہ کرگزریں گے؟

پچھلے سوال، کہ کیا فرانس اور یورپی یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرکے حالتِ جنگ میں چلے جائیں، کا جواب ہم نے نفی میں دیا تھا اور اس کی وجوہات تفصیل سے ذکر کردی ہیں، لیکن یہ معاملہ اس سے مختلف ہے۔

ہر سوال کو اس کے اپنے میرٹ پر دیکھا جاتا ہے۔ جی ایس پی پلس کی حیثیت کے خاتمے سے ہمارے لیے اس طرح کی مجبوری کا عالم پیدا نہیں ہوسکتا، جو اعلانِ جنگ سے وجود میں آسکتا ہے؛ اور جی ایس پی پلس کے حصول کےلیے جو مطالبہ ہم سے کیا جارہا ہے، کہ توہینِ رسالت کی سزا کا خاتمہ کیا جائے، وہ ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ پہلی صورت میں تو ہم اضطراراً، صرف مجبوری کی حد تک، توہینِ رسالت کے مرتکبین سے جنگ سے وقتی گریز اختیار کررہے ہیں، جبکہ اس صورت میں ہم سے یہ مطالبہ کیاجارہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ہی توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرائم کی فہرست سے نکال لیں۔

توہینِ رسالت کی سزا کے خاتمے کے بجائے ہمیں آگے بڑھ کر اس مسئلے پر، اور حقوقِ انسانی کے بڑے کینوس پر، اپنے موقف کو پوری قوت اور مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔
اس ضمن میں سب سے اہم ذمہ داری ہماری وزارتِ خارجہ کی ہے۔ دنیا کو ملک کے موقف سے مناسب انداز اور معقول دلائل کے ساتھ آگاہ کرنا اسی وزارت کا کام ہے۔

اسی طرح ملکی جامعات، بالخصوص سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات اور قانون کے شعبوں میں کی جانے والی تحقیق کا اس میں بہت اہم کردار ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی سے جب سے ڈاکٹر عطاء الرحمان کی پالیسیوں کو لے کر ایچ ای سی نے ملک میں اعلی تعلیم کی تنظیمِ نو کا بیڑا اٹھایا، تب سے تعلیم و تحقیق کا معیار ہی تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

ویسے بھی اس سکیم میں سوشل سائنسز ، قانون اور فنون کو غیراہم اور محض بھرتی کے مضامین کے طور پر دیکھا جاتا ہے، حالانکہ دنیا بھر میں پالیسی سازی میں انھی علوم کے ماہرین کا اصل کردار ہوتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے نام نہاد مجالس دانش (Think Tanks) کا ہے۔

ہمارے کتنے ادارے ایسے ہیں جو غیر ملکی فنڈز اور ایجنڈا پر ملکی مفاد، نظریے اور پالیسی کو قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں؟ نام نہاد غیرسرکاری تنظیموں کا کام بھی بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ جو لائن مغربی آقاؤں کی جانب سے مل جائے، بس اسی لائن کی سیدھ میں چلتے رہیں ۔

ان سب باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے ہاں سب اچھا ہے اور ہمیں اپنے نظام یا قانون کی بہتری کےلیے کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس ہماری اولین ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ خود اپنے اصولوں اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے قانون سے سقم دور کریں۔ توہینِ مذہب، بالخصوص توہینِ رسالت، کی سزا کا معاملہ ہمارے ہاں اتنی حساسیت اختیار کرگیا ہے کہ اس پر خالص علمی انداز میں گفتگو بھی مشکل ہوگئی ہے اور اس قانون میں بہتری کےلیے دی گئی تجاویز کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

اس معاملے میں سب سے بھاری ذمہ داری علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ یہ انھی کا کام ہے کہ وہ جذبات کے بجائے دلیل سے بات کریں اور دلیل کی رو سے ہی اس قانون کا تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کہاں کیا مسئلہ پایا جاتا ہے اور اسے کیسے دور کیا جائے؟ یاد رکھیے کہ اگر علمائے کرام یہ کام اب بھی نہیں کریں گے اور صرف جذباتی نعروں اور جلسے جلوسوں کو ہی کافی سمجھتے رہیں گے، تو جلد ہی معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر جس قسم کی تبدیلیاں لائی جائیں گی، ان کا راستہ روکنے کےلیے ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

اسی احساس کی بنا پر اب یہاں توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں موجود کچھ مسائل کی نشاندہی کرکے اس کی بہتری کےلیے تجاویز پیش کی جائیں گی۔

توہینِ رسالت کے قانون پر بات کرنے والوں میں کچھ وہ ہیں جو سرے سے اس قانون کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کے بالکل برعکس وہ ہیں جن کے نزدیک اس قانون میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
اول الذکر گروہ اس مضمون کا مخاطب نہیں ہے اور ویسے بھی پاکستان میں یہ گروہ اپنی انتہائی زیادہ قلت کے سبب سے ناقابلِ توجہ ہے ۔
البتہ وہ لوگ جو اس قانون کو بالکل درست مانتے ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اصولی لحاظ سے اس قانون میں کئی مسائل ہیں:

ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کی رو سے مسلمان اور غیرمسلم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا؛
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون میں ملزم کی نیت اور ارادے کو سرے سے غیرمتعلق قرار دیا گیا ہے؛
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون میں ملزم/مجرم کی جانب سے توبہ اور رجوع کےلیے، یا موت کے سوا کسی اور سزا کےلیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی؛

چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس قانون میں ، باوجود اس کے کہ اس جرم کو حدود میں شمار سمجھا گیا ہے، جرم کے ثابت کرنے کےلیے حدود کے معیارِ ثبوت کو مقرر نہیں کیا گیا، نہ ہی اسلامی قانون کے تصورِ ” شبہہ “ کا کچھ خیال رکھا گیا ہے حالانکہ حدود کی سزائیں ” شبہہ “ کی بنا پر ساقط ہوجاتی ہیں ۔ (یاد رکھیے کہ شبہہ سے یہاں مراد Benefit of the Doubt نہیں بلکہ Mistake of Law کی کچھ قسمیں ہیں۔)

ان چار بنیادی مسائل کی بنا پر یہ قانون انتہائی زیادہ سخت ہوگیا ہے اور اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کےلیے یہ ایک بڑا سبب ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علمائے کرام خود اس قانون کے جائزے اور ان مسائل کے حل کےلیے مل بیٹھ کر اس قانون میں بہتری کی تجاویز سامنے لے آئیں۔

اگر وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اس قانون کا سوء استعمال اس طور پر ہوتا رہے گا کہ فرقہ وارانہ اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہوگی لیکن اس کا عدم استعمال اس طور پر جاری رہے گا کہ عدالت کسی کو سزا نہیں دے سکے گی۔ یوں یہ مسئلہ جوں کا توں باقی رہے گا اور جب کبھی توہینِ رسالت کے کسی ملزم کا ماورائے عدالت قتل ہوگا تو قوم اسی طرح تقسیم ہوگی، اسی طرح چند دن بحث میں مبتلا رہے گی اور پھر کسی نئے ایشو کی طرف رخ کرلے گی۔

اس قانون کے سوء استعمال کو روکنے کی ایک کوشش جنرل مشرف کے دور میں ہوئی جب اس قانون کے بجائے اس پر عمل کے طریقِ کار ، یعنی Procedure، میں یہ تبدیلی کی گئی کہ اس قانون کے تحت ایف آئی آر کاٹنے سے قبل ایس پی کی سطح کے افسر کی جانب سے تفتیش کو ضروری قرار دیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی نے سوء استعمال کو تو نہیں روکا لیکن قانون کو غیرمؤثر ضرور کردیا ہے ۔

ہمارے نزدیک طریقِ کار کی یہ تبدیلی مسئلے کا حل نہیں ہے، بلکہ اصل حل یہ ہے کہ اس قانون میں موجود مذکورہ بالا چار مسائل دور کیے جائیں۔اس کے بعد اس قانون کا سوء استعمال بڑی حد تک رک جائے گا۔

باقی رہا اس کے مؤثر نفاذ کا مسئلہ، تو اس کےلیے ضرورت اس امر کی ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات کے فیصلے کےلیے خصوصی عدالتیں ہوں جہاں صرف انھی مقدمات کی سماعت ہو تاکہ یہ گلہ دور کیا جاسکے، جو بے بنیاد بالکل بھی نہیں ہے ، کہ صرف ماتحت عدالت میں ہی توہین رسالت کے ایک مقدمے کی سماعت میں سالہاسال لگ جاتے ہیں۔ ( ملتان میں جنید حفیظ کے خلاف مقدمہ 2013ء میں دائر کیا گیا لیکن ماتحت عدالت کی جانب سے فیصلہ 2019ء میں سنایا گیا، یعنی چھے سال بعد! )

سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کے مقدمات کےلیے خصوصی عدالتیں ہوسکتی ہیں، بینکوں کے تنازعات کےلیے خصوصی عدالتیں ہوسکتی ہیں، بلکہ نکاح و طلاق کے مقدمات کےلیے بھی خصوصی عدالتیں ہوسکتی ہیں، تو توہینِ رسالت کے مقدمات کےلیے خصوصی عدالتیں کیوں نہیں ہوسکتیں؟

توہینِ رسالت کی سزا کے قانون پر ایک عام تنقید یہ بھی کی جاتی ہے کہ توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام پر سزا نہیں ہے اور اس وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرتے ہیں۔ کئی لوگ یہ جذباتی تجویز بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ توہینِ رسالت کے ملزم کے بری ہوجانے کی صورت میں اس پر الزام لگانے والے کو توہینِ رسالت کی سزا دینی چاہیے۔

یہاں پہلی بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ الزام ثابت نہ کرسکنا اور الزام کا جھوٹا ثابت ہوجانا ، دو الگ باتیں ہیں۔ ملزم بری ہوجانے سے الزام لگانے والے کا جھوٹا ثابت ہونا ضروری نہیں ہے، بالخصوص جہاں ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کیا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے قانونی نظام کی رو سے الزام کا ثابت کرنا استغاثہ کا کام ہے، نہ کہ شکایت کنندہ کا۔ قانون کا مفروضہ یہ ہے کہ شکایت کنندہ نے تو جرم کے وقوع کی اطلاع دے کر ریاست کی مدد کی ہے۔ اب ریاستی اداروں، بالخصوص پولیس کے تفتیشی افسران، کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرم کے متعلق ثبوت اور شواہد اکٹھے کریں اور مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔ اگر پولیس اس معاملے میں کام چوری یا خیانت کرتی ہے تو اس کی ذمہ داری شکایت کنندہ پر عائد نہیں ہوسکتی۔

البتہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے خلاف جھوٹی شکایت کرے، جھوٹا مقدمہ دائر کرے یا جھوٹے گواہ بنائے یا شواہد گھڑے۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ انصاف کے نظام کو ظلم کےلیے استعمال کرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس کوشش کی مختلف قسموں پر اسے مختلف سزائیں دی جاسکتی ہیں اور اس کےلیے قانون میں پہلے ہی سے مناسب دفعات موجود ہیں۔

مثلاً مجموعۂ ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 250 میں عدالت کو اختیار دیا گیا ہےکہ اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ شکایت کنندہ نے جھوٹا مقدمہ دائر کیا تھا، تو وہ ملزم کو بری کرنے کے حکم کے ساتھ شکایت کنندہ کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دے سکتی ہے۔

پھر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 182 میں قرار دیا گیا ہے کہ پولیس یا دیگر حکام کو جرم کے متعلق جھوٹی اطلاع پہنچانے والے کو سات سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے، اگر اس نے ایسے جرم کے متعلق جھوٹی اطلاع دی ہو جس کے سچا ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت دی جاتی۔ چونکہ توہینِ رسالت کی سزا پاکستان میں موت ہے، اس لیے اس قانون کی رو سے اس شخص کو سات سال تک کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے جس نے کسی شخص کی جانب سے توہینِ رسالت کے ارتکاب کی جھوٹی اطلاع پولیس تک پہنچائی ہو۔

مزید دیکھیے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 211 کے تحت یہی سات سال تک قید کی سزا ایسا جھوٹا مقدمہ دائر کرنے پر بھی ہے جس کے سچا ثابت ہونے پر مجرم کو سزاے موت دی جاتی۔

مزید دیکھیے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 181 کے تحت جھوٹا بیانِ حلفی دینے والے کو تین سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔

کیا یہ سزائیں توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات کی روک تھام کےلیے کافی نہیں ہیں؟

ہاں، اگر عدالت میں یہ ثابت ہوجائے کہ شکایت کنندہ نے صرف جھوٹا مقدمہ ہی دائر نہیں کیا، یا صرف جھوٹی اطلاع ہی نہیں دی، یا صرف جھوٹا بیانِ حلفی ہی نہیں دیا، بلکہ اس نے ایسے الفاظ گھڑ کر، یا ثبوت گھڑ کر، ملزم کی طرف منسوب کیے ہیں جو توہینِ رسالت پر مبنی ہیں، تو اس صورت میں یقیناً کہا جاسکتا ہے کہ شکایت کنندہ نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے خلاف توہینِ رسالت کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

اس ایک صورت کے سوا، عام طور پر ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ دینا کہ جو توہین کا الزام ثابت نہ کرسکا، اسے توہین کی سزا دی جائے، انتہائی غلط ہے۔

بعض لوگوں نے یہ حوالہ بھی دیا ہے کہ شریعت نے زنا کا الزام ثابت نہ کرسکنے والوں کے لیے قذف کی سزا مقرر کی ہے لیکن وہ دو باتیں بھول جاتے ہیں:

ایک یہ کہ زنا کے الزام کے متعلق شریعت نے عام قواعد سے الگ خصوصی حکم دیا ہے کہ جس نے زنا کا الزام لگایا اور پھر اسے چار گواہوں کے ذریعے ثابت نہ کرسکا (اور ملزم انکاری ہو) ، تو الزام لگانے والے کو زنا کا جھوٹا الزام لگانے (قذف) پر اسی کوڑوں کی سزا دی جائے۔ چنانچہ یہاں صرف الزام ہی نہیں بلکہ اس کی گواہی کو بھی قذف ہی سمجھا جائے گا، جب تک چار گواہوں کی گواہی پوری نہ ہوجائے۔ چنانچہ اگر تین گواہوں نے زنا کی گواہی دی اور چوتھا پھر گیا، یا خاموش رہا، یا اس کی گواہی زنا کے بارے میں صریح نہ ہو، تو چوتھا گواہ تو بچ جائے گا لیکن پہلے تین گواہوں کو زنا کے جھوٹے الزام پر قذف کی سزا کے طور پر اسی کوڑے مارے جائیں گے۔ البتہ اگر چار گواہ پورے ہوجائیں تو ان کی گواہی مل کر زنا کے جرم کے اثبات کےلیے کافی ہوجائے گی۔ چنانچہ زنا کے ملزم کا جرم ثابت ہوجانے پر اسے زنا کی سزا دی جائے گی اور اس کے خلاف زنا کی گواہی دینے والے گواہ قذف کی سزا سے بچ جائیں گے ۔

دوسری یہ کہ شریعت نے زنا کی سزا اور اس کے جھوٹے الزام کی سزا میں فرق کیا ہے۔ زنا کی سزا غیر محصن کےلیے سو کوڑے اور محصن کےلیے رجم ہے، جبکہ زنا کے جھوٹے الزام پر اسی کوڑوں کی سزا ہے۔
آخری سوال یہ ہے کہ جب جھوٹی شکایت، جھوٹے مقدمے اور جھوٹے بیانِ حلفی پر سزائیں موجود ہیں، تو پھر لوگ جھوٹے مقدمات بنا کر بچ کیسے جاتے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ صرف توہینِ رسالت کے جرم کا نہیں، بلکہ دیگر جرائم کا بھی ہے۔ کیا قتل کے جھوٹے مقدمات نہیں بنائے جاتے؟ جھوٹی گواہیاں نہیں دی جاتیں؟ جھوٹی ایف آئی آرز کا اندراج نہیں کیا جاتا؟ اس سب کچھ کا سبب یہ نہیں کہ ان کو روکنے کےلیے قانون موجود نہیں، بلکہ سبب یہ ہے کہ قانون پر عمل نہیں ہوتا اور یہ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی عمومی لاقانونیت کا نتیجہ ہے۔ اس عمومی اخلاقی فساد کی موجودگی میں یہ توقع رکھنا کہ کوئی نیا قانون بنا کر آپ جرم کے سدّ باب میں کامیاب ہوجائیں گے، محض دیوانے کا خواب ہے۔

اب آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلاصۂ بحث چند نکات کی صورت میں پیش کروں:

1۔ یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کی حیثیت واپس لینے کا معاملہ ہو، یا ایف اے ٹی ایف کے مطالبے پر وقف اور دیگر قوانین میں تبدیلی کا سوال، یہ ایک بڑی تصویر کے چند حصے ہیں۔ جب تک بڑی تصویر پر نظر نہیں ہوگی، ان جزئیات کا درست فہم حاصل نہیں ہوسکتا۔

2۔ سوویت یونین کے بکھرنے اور بالخصوص نائن الیون کے بعد کے نئے عالمی نظام میں یورپی یونین اور ایف اے ٹی ایف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور کئی پہلوؤں سے انھوں نے اقوامِ متحدہ کی تنظیم کی جگہ لے لی ہے۔

3۔ اس نئے عالمی نظام میں کسی ملک کی شمولیت کی بنیادی شرائط میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ وہ تہذیب کی ایک خاص سطح تک ترقی حاصل کرچکا ہو۔ اس سطح کو ناپنے کا معیار وہ جسے آسان زبان میں ” انسانی حقوق “ کہا جاتا ہے۔ اسی لیے یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کی حیثیت کو انسانی حقوق کے 27 معاہدات کی توثیق کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے آپ تب تک نہیں نکل سکتے جب تک ان کے مطالبات کے مطابق اپنے قانونی و معاشرتی نظام کو تبدیل نہ کرلیں۔

4۔ انسانی حقوق کے ان معاہدات کے ذریعے مغربی اقدار کو ، جن کی تہہ میں رومی و یونانی بت پرستی اور مسیحی تصورات کے علاوہ جدید و مابعد جدید الحادی نظریات کارفرما ہیں، اخلاقیات کے عالمی و آفاقی معیارات کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور اخلاق یا حقوق کے کسی بھی متبادل تصور کو سرے سے پیش کرنے کی ہی اجازت نہیں دی جارہی۔

5۔ چنانچہ انسانی حقوق کے ان معاہدات کی توثیق کے بعد آپ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے ملکی قوانین کو ان سے ہم آہنگ بنائیں اور اس مقصد کےلیے ان قوانین میں تبدیلیاں کریں۔ ان تبدیلیوں سے انکار کی صورت میں یورپی یونین جی ایس پی پلس حیثیت بھی واپس لے سکتی ہے اور ایف اے ٹی ایف آپ کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں بھی دھکیل سکتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے آپ کی اقتصادی ناکہ بندی بھی کی جاسکتی ہے اور جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کی ترویج کےلیے آپ کے ملک پر حملہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

6۔ انسانی حقوق کے اس الحادی تصور کے مقابلے میں نہ ہی مستقل شکست خوردگی کا رویہ آپ کو نقصان سے بچا سکتا ہے،نہ ہی عذر خواہی کا رویہ کچھ مفید ثابت ہوا ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق اور تہذیبی و اخلاقی اقدار و معیارات کےلیے اسلامی تصور کو باقاعدہ ایک مستقل اور متبادل نظام کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہ کام کسی ایک ملک کے تنہا کرنے کا نہیں ہے، بلکہ اس کےلیے تمام مسلمان ممالک کو مل کر باہمی مشورے سے مشترکہ لائحۂ عمل بنانا ہوگا۔

7۔ توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے مسائل پر پاکستان، یا مسلمانوں، کا موقف یورپی یونین یا مغرب کے اس نام نہاد آفاقی انسانی حقوق کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا موقف دنیا کے سامنے مناسب انداز میں پیش کرنے کےلیے باقاعدہ لابنگ کرے ۔ ملکی جامعات کا اس سلسلے میں کردار نہایت اہم ہے لیکن بدقسمتی سے اس طرف بالکل ہی توجہ نہیں دی جارہی۔

8۔ دنیا کو اس سلسلے میں آگاہی دینے کےلیے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فورم کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کے ذریعے اس توہینِ مذہب اور اظہارِ رائے کی آزادی کے تعلق پر قانونی سوال کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ انفرادی سطح پر یہ سوال یورپ میں مقیم مسلمان یورپی عدالت برائے حقوقِ انسانی تک بھی لے جاسکتے ہیں۔ تاہم ان دونوں فورمز پر مقدمہ جیتنے کےلیے بہت زیادہ منصوبہ بندی، تحقیق اور محنت کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔

9۔ پاکستان یا کسی بھی مسلمان ملک کےلیے مناسب نہیں ہےکہ وہ فرانس یا کسی دوسرے یورپی ملک کے ساتھ سفارت تعلقات منقطع کرنے یا حالتِ جنگ میں چلے جانے کا فیصلہ تنہا کرے۔ پاکستان کی حکومت پر پاکستانی عوام کی حفاظت اور ان کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرنا لازم ہے اور اگر اس وجہ سے وہ مجبوراً جنگ میں جانے سے گریز کرے تو یہی اس کےلیے مناسب طرزِ عمل ہے کیونکہ شریعت نے جہاد کےلیے استطاعت کی شرط رکھی ہے اور جہاد میں بھی خودکشی سے روکا ہے۔

البتہ جی ایس پی پلس کی حیثیت کا حصول اتنا ضروری نہیں ہے ، نہ ہی یہ پاکستان کی اتنی بڑی مجبوری ہے کہ اس کےلیے پاکستان کو توہینِ مذہب کی سزا ختم کرنے کا اقدام اٹھانا پڑے۔ چنانچہ اس معاملے میں پاکستان کو بھرپور مزاحمت کرنی چاہیے۔

10۔ البتہ توہینِ مذہب کی سزا کے قانون پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ اس کا غلط استعمال بھی روکا جائے اور اس کے عدمِ نفاذ کی صورت بھی ختم ہوجائے۔ اس سلسلے میں خود علمائے کرام اور مذہبی طبقےکو آگے بڑھ کر فعال کردار ادا کرنا چاہیے قبل اس کے کہ معاملہ کسی اور کے ہاتھ میں چلا جائے اور پھر وہ سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر ہی پیٹتے رہیں۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس نوشت:

پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ایک اہم معاملہ اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے زیرِ التوا ہے جس میں شعیب سڈل کمیشن نے کچھ سفارشات بھی دی ہیں اور ان سفارشات سے وزارتِ مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے قائم کردہ کمیشن نے اختلاف بھی کیا ہے۔

شعیب سڈل کمیشن نے تعلیمی نصاب میں اسلامی مواد کو صرف اسلامیات تک محدود کرنے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس معاملے سے متعلق کئی اہم سوالات ہیں اور یہ سوالات بھی موجودہ بحث سے براہِ راست متعلق ہیں لیکن ان پر الگ سے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ اس لیے سرِ دست اس بحث کو یہیں تک محدود رکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں، کب اللہ ان باقی سوالات پر بھی بحث کی توفیق دیتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں