پشاور میں نماز عید الفطر کی ادائیگی

سرپرائز عید الفطر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی :

” عید کا چاند نظر آگیا ہے۔“ طاہر صاحب اچانک اونچی آواز میں کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔
” کیا؟ “ نصیبہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
” سچ مچ ابو جان؟ “
” واقعی؟ “
بچے مارے خوشی کے کلکاریاں مارتے، چھلانگیں لگاتے اٹھ بیٹھے۔ اور یقین دہانی کے لیے پوچھنے لگے۔

انتیسویں روزے کو افطاری کے بعد چاند نظر آنے کی توقع ہوتی ہے مگر نصیبہ کا دل چاہتا تھا کہ تیس روزے پورے ہوں اور رمضان المبارک کے نیکیوں کے موسم بہار کا ایک مزید دن نصیب ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہو کر رہتا ہے۔

نصیبہ رات کو سحری کی ساری تیاری مکمل کرکے گیارہ بجے بچوں کے ساتھ سونے کے لیے لیٹی تو انہیں motivational سٹوری سنانے لگی۔ اچانک کمرے کے باہر سے طاہر صاحب کی پرجوش اور بلند آواز سنائی دی کہ ” عید کا چاند نظر آگیا ہے۔“

بچوں نے حسب توقع نہایت پرجوش ریسپانس دیا، سونا بھول کر بستروں سے نکل آئے اور اپنی عید کی چیزوں کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔ نصیبہ کچھ پریشان اور بےچین تھی۔

” ماما جان ! آپ پریشان کیوں ہیں؟ کیا آپ کو سرپرائز عید کی خوشی نہیں ہو رہی؟“ بڑی بیٹی امامہ نے پوچھا۔
” لگتا ہے اب ساری رات جاگ کر عید کی تیاریاں مکمل کرنی پڑیں گی۔ “ اس نے پریشانی کی وجہ بتائی۔
” ہم سب آپ کی مدد کریں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔“ امامہ نے ماں کو حوصلہ دلایا تو وہ کچھ ریلیکس ہوگئی۔

” ابو جان! ہم سعید بھائی کو جلدی سے گھر لے آئیں۔“ اسعد نے ابو جان کے پاس آکر آہستگی سے کہا۔ وہ اپنی طرف سے سعید بھائی کو اچانک سب کے سامنے لاکر سرپرائز دینا چاہتا تھا۔
” ٹھیک ہے بیٹے۔ آپ جلدی سے میرے ساتھ آجائیں۔ “ طاہر صاحب نے اسعد کو اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” آپ کدھر جارہے ہیں؟ “ نصیبہ نے انہیں گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر طاہر صاحب سے پوچھا۔
” سعید کو مسجد سے لینے جارہا ہوں۔“ طاہر صاحب نے اسعد کے سرپرائز پلان کا خیال کیے بغیر بیوی کو بتادیا۔
نصیبہ ضروری سامان کی لسٹ بنانے لگی۔ پھر وہ کاموں کی ترتیب سوچنے لگی۔

ان کا بڑا بیٹا سعید مقامی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد طاہر صاحب اور اسعد بغیر ہار پھولوں کے، بغیر تحفے تحائف کے، بغیر کسی پروٹوکول کے، سنت طریقہ کے مطابق اسے سادگی سے گھر لے کر آگئے۔

اسعد نے سعید کا بستر اور دیگر سامان مسجد سے گھر پہنچانے کی ڈیوٹی اچھے طریقے سے پوری کی۔
” ماشاءاللہ ! میرا بیٹا آگیا ہے۔“ نصیبہ سعید کو دیکھ کو بہت خوش ہوئی۔ اس نے بیٹے کا منہ ماتھا چوما، اسے گلے لگایا، پیار کیا، حال احوال پوچھا۔ اور کچھ دیر تک اس سے باتیں کرتی رہی۔ سب بہن بھائی سعید بھائی سے اعتکاف کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پوچھ رہے تھے۔

” کھیر بنانے کے لیے دودھ اور سالن اور بریانی پکانے کے لیے گوشت اور باقی سامان لا دیں یا منگوا دیں۔“ نصیبہ نے طاہر صاحب سے کہا۔

طاہر صاحب نے دونوں بیٹوں کو دیکھا۔
” جائیں اسعد بیٹے ! آپ بازار جا کر کھیر کے لیے دودھ لے آئیں۔ “
” اور سعید بیٹے! آپ امی جان سے سودے کی لسٹ لے کر بریانی کے لیے گوشت اور باقی چیزیں خرید لیں اور سالن پکانے کے لیے گھر کا پلا دیسی مرغ ذبح کروا لائیں۔ “

طاہر صاحب نے دونوں بیٹوں کو پیسے دے کر قریبی بازار سے ضروری خریداری کے لیے بھیج دیا۔ اور خود سونے کے لیے چلے گئے۔ وہ گزشتہ شب طاق رات ہونے کی وجہ سے جاگتے رہے تھے اور اتفاقاً دن میں بھی سو نہ سکے تھے تو انہیں نیند کی بہت کمی تھی۔ نصیبہ نے خود انہیں تاکید سے سونے کے لیے بھیج دیا۔ کیونکہ اب سعید نے ذمہ داری سے باہر کے کام سنبھال لینے تھے۔

اسعد قریبی دکان سے دودھ لینے کے لیے چلا گیا اور سعید دوسری خریداری کے لیے۔
لیکن کچھ دیر اسعد مایوس سا واپس آگیا۔
” بازار میں بہت زیادہ رش ہے۔ اتنی سی دیر میں ہی کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ صرف دو کلو دودھ ملا ہے۔ ابھی اس سے زیادہ نہیں مل سکتا۔“ اسعد نے بتایا۔
نصیبہ نے برنر جلا کر دودھ ابلنے کے لیے رکھ دیا۔

نصیبہ کو ” سرپرائز “ عید کی تیاریاں کافی مشکل لگ رہی تھیں۔ پھر اس نے دودھ کی کمی کی وجہ سے کھیر بنانے کا پروگرام کینسل کرکے کسٹرڈ بنانے کا ارادہ کر لیا۔ اتنی دیر میں سعید بھی بازار سے سودا سامان خرید لایا۔ وہ بھی چاند رات کی گہما گہمی اور بے تحاشا رش کے بارے میں بتا رہا تھا۔
نصیبہ نے سودا سمیٹا اور گوشت دھوتے ہوئے اس کی باتیں سننے لگی۔ کسٹرڈ بنانے کے پلان پر بعد میں بھی عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا۔

” سب کے کپڑے استری کرنا لمبا کام ہے اور خراب موسم کی وجہ سے بجلی تنگ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔“ امامہ نے بار بار لائٹ جانے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ چھوٹی بیٹی عفیرہ ماں کے ساتھ سب کے کپڑے، جوتے اور دیگر اشیاء پوری کرکے رکھ رہی تھی۔

نصیبہ اب پریشان ہورہی تھی کیونکہ بچے اسے اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے تنگ کررہے تھے۔ خصوصاً جن کی کوئی چیز ابھی بازار سے آنے والی تھی۔ یہ دیکھ کر سعید نے ذمہ داری سے باہر کے باقی چھوٹے موٹے کام جلدی کر دیے۔ اب رات کا ایک بج رہا تھا۔

” ہمارے تو کافی ارادے اور کام دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔“ اسعد پریشانی سے کہہ رہا تھا۔

” ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔“ نصیبہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

اس کے علاوہ گھر میں بچیوں کے مہندی لگانے، اور خود نصیبہ کے کچھ بلیچنگ اور وائٹننگ مراحل بھی حسب منشاء پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے تھے لیکن جیسے تیسے سب نے کچھ نہ کچھ کر ضرور لیا۔ نصیبہ نے سب کو زبردستی سونے کے لیے لٹایا۔ سوتے سوتے دو بج گئے۔

صبح فجر سے چند منٹ پہلے اس کی عادتاً آنکھ کھل گئی۔ اس نے وقت دیکھا اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ دل میں پہلا خیال یہ آیا۔
” ہائے اللہ! سحری میں اتنا کم وقت رہ گیا ہے ۔ “ لیکن فوراً ہی یاد آگیا کہ آج تو عید کا دن ہے۔ وہ ہمت کرکے اٹھ بیٹھی۔ واش روم سے فراغت اور وضو کے بعد دو رکعت نفل پڑھ کر ابھی تھوڑی سی دعا مانگی تھی کہ صبح کی اذان کی آواز سنائی دینے لگی۔
اس نے وقت میں برکت اور کام بروقت ہو جانے کی دعائیں خصوصاً مانگی تھیں۔

فجر کی نماز کی ادائیگی کرنے کے بعد نصیبہ نے نماز کے بعد کے اور صبح کے اذکار کیے، قرآن مجید کی تھوڑی سی تلاوت کی۔ پھر نیند سے بےحال ہو کر تھوڑی دیر کے لیے دوبارہ لیٹ گئی۔

کچھ دیر بعد طاہر صاحب نے اسے جگایا تو وہ اٹھ کر بھاگم بھاگ کام میں لگ گئی۔ بچوں کو طاہر صاحب پہلے ہی بیدار کر چکے تھے بلکہ بیٹوں کو وہ ساتھ لے کر نماز فجر کی باجماعت ادائیگی کے لیے گئے تھے۔

نصیبہ نے چھوٹے بچے کو نہلایا دھلایا، نئے کپڑے پہناکر اسے تیار کیا۔ باقی بچوں کی تیاری میں ان کی مدد کی۔ اسی اثنا میں بیٹیوں نے گھر کی کافی حدتک صفائی ستھرائی کرلی تھی اور پھرتی سے تیار بھی ہو گئی تھیں۔

موسم بے حد سہانا ہورہا تھا۔ صبح کی پاکیزہ اور صاف ستھری ہوا کے جھونکے جسم و جاں کو معطر کر رہے تھے۔ بارش ہونے کے مکمل آثار دکھائی دے رہے تھے۔ اور کالے سیاہ بادل برسنے کو بالکل تیار تھے۔

” ہماری تو کھیر بھی نہیں بن سکی تھی رات میں۔ کھیر کے لیے دودھ ابھی آنا تھا، اس لیے وہ بننی رہ گئی ہے۔ “ نصیبہ نے صبح ہمسائیوں کے گھر سے آئی ہوئی کھیر کی پلیٹیں خالی کرتے ہوئے کھیر لانے والی بچی کو بتایا۔ پھر اس نے پلیٹوں میں مٹھائی ڈال کر بچی کو پلیٹیں واپس پکڑا دیں۔

پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ نصیبہ عید پر کھیر تیار نہیں کر سکی تھی اور لگتا تھا کہ دیگر خواتین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کیونکہ صرف ایک گھر سے کھیر آئی تھی۔ پہلے نصیبہ لذیذ کھیر رات کو ہی تیار کرلیتی تھی اور صبح سویرے مختلف گھروں میں بھجوا دیتی تھی لیکن۔۔۔اس دفعہ معاملہ مختلف ہو گیا تھا۔

نصیبہ نے گوشت کی اچھی طرح بھنائی کرکے تھوڑا سا پانی ڈال کر پریشر ککر بند کیا اور اسے ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے رکھ دیا۔

عید کی نماز سے کچھ دیر پہلے بارش کی بوندیں ٹپا ٹپ برسنی شروع ہو گئیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے موسلادھار بارش کی شکل اختیار کر لی۔

گرجتے برستے موسم کی صورتحال دیکھ کر انتظامیہ نے کھلی عید گاہ میں عید نماز پڑھانے کا ارادہ کینسل کرکے جامع مسجد میں نماز عید پڑھانے کا اعلان کر دیا۔ جو کافی کشادہ تھی۔

نصیبہ نے جلدی جلدی نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر، وضو کیا اور پھر ہلکا پھلکا میک اپ کرکے گاؤن پہن کر، فل سائز سکارف سے پردہ کرکے جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
بچے ماں کی پھرتیاں دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔
” ہم سمجھ رہے تھے کہ آج ماما جان کی وجہ سے ہمیں ضرور دیر ہو جائے گی مگر ماما زندہ باد۔“ سعید نے اپنے تاثرات کو زبان دی۔
” واہ بھئی واہ۔ ہماری ماما زندہ باد۔“ اسعد نے بھی بھائی کا بھرپور ساتھ دیا۔

عید گاہ جانے کے لیے نکلنے سے پہلے نصیبہ نے احتیاطاً طاہر صاحب کو صدقہ فطر/ فطرانہ کی ادائیگی کی یاددہانی کروائی۔
” وہ تو میں نے کل صبح ہی ادا کردیا تھا۔“ طاہر صاحب نے بتایا۔

” سنت کے مطابق کھلی جگہ عید نماز پڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔“ طاہر صاحب نے کہا۔ یہ نصیبہ کے بھی دل کی آواز تھی۔

” شکر الحمدللہ کہ نماز کے ٹائم سے کچھ دیر پہلے بارش رک چکی ہے۔ مردو زن، بچے بڑے سب مسجد پہنچ رہے ہیں۔ ماشاءاللہ۔“ طاہر صاحب نے کہا۔

نماز کے لیے قریبی مسجد میں پیدل جاتے ہوئے راستے میں طاہر صاحب اور بچے تکبیرات پڑھتے رہے۔ بچے تکبیرات پڑھتے ہوئے نہایت پرجوش تھے۔ نصیبہ اور بچیاں بالکل آہستہ آواز میں تکبیرات پڑھ رہی تھیں۔ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا احساس نمایاں ہورہا تھا۔

بارش کی وجہ سے راستے میں جابجا کیچڑ تھا۔ پھر مسجد میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ پرابلم بھی رہی۔ سپیکر یو۔ پی۔ ایس پر ہونے کی وجہ سے نماز، خطبہ اور دعا بہت اچھی رہی۔

خواتین اور بچیوں نے عید کی دو رکعت نماز کی باجماعت ادائیگی تو جیسے تیسے کرلی، لیکن اس کے بعد ان کی گفتگو، میل ملاقات اور عید کی مبارکباد کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔

چنانچہ خواتین کی طرف کافی شور ہونے لگا اور خطبہ سننے والی خواتین کو کان لگا کر اور خوب توجہ سے سننا پڑا۔ نصیبہ نے سر جھکائے ہمہ تن گوش ہو کر خوب دل جمعی سے خطبہ سنا۔ جو فلسطینی مسلمانوں کے جہاد اور ان کی مظلومیت کا بھی تذکرہ کررہے تھے۔

” پتہ نہیں کیوں خواتین امام صاحب کی ہدایات کے باوجود خطبہ میں خاموشی اختیار نہیں کرتیں۔“ نصیبہ دل میں سوچ رہی تھی۔
” البتہ بعد میں دعا سکون سے مانگ لیتی ہیں۔ شاید وہ دعا کی اہمیت سے واقف ہیں لیکن خطبہ سننا اہم نہیں سمجھتیں۔ “ وہ سوچنے لگی۔
دعا شروع ہوئی تو خواتین توجہ سے دعا مانگنے لگیں لیکن چھوٹے بچوں کے رونے اور شور مچانے کی آوازیں توجہ منتشر کررہی تھیں۔
دعا کے بعد نصیبہ نے خود بھی مسجد میں کچھ پیسے فنڈ باکس میں ڈالے اور بیٹیوں سے بھی ڈلوائے۔

بعد میں وہ کس سے ملے، کس سے نہیں، کوئی پتہ نہیں چلا۔ البتہ جس سے ملاقات کی، سنت طریقہ کے مطابق انہیں یہ مسنون الفاظ کہتے رہے
” تقبل اللہ منا ومنکم “ کہ ” اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول کرے (اعمال صالحہ) “
یہ چھوٹی سی خوبصورت دعا بچوں کو بھی خوب یاد تھی۔

اب لوگ اپنے جوتے ڈھونڈ کر افراتفری میں مسجد سے باہر نکلنے میں مصروف تھے۔ باہر نکلتے ہوئے اتنا رش تھا کہ نصیبہ کو خانہ کعبہ کا طواف یاد آنے لگا۔ رفتہ رفتہ لوگوں کے ریلے میں بہتے بہتے بالآخر وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے او اپنے گھرکی راہ لی۔

” ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ہم خانہ کعبہ میں مطاف میں طواف میں مصروف ہیں۔ آہستہ آہستہ قطار در قطار چلتے رہے اور پھر بالآخر مسجد سے باہر آگئے۔ “ وہ گھر پہنچنے کے بعد طاہر صاحب کو بتارہی تھی ۔

بعد میں موبائل کالز اور نیوز وغیرہ سے اندازہ ہوا کہ اوکاڑہ کے علاوہ لاہور، قصور اور کئی دیگر شہروں میں بھی صبح بارش ہوئی تھی۔ ٹھنڈا میٹھا موسم بہت اچھا لگ رہا تھا۔ الحمد للّٰہ۔

گھر واپسی پر بچے بڑے خوش باش تھے۔ بچے عیدی لینے کے لیے پرجوش تھے۔ طاہر صاحب نے بچوں کو ان کے لیول اور عمر کے حساب سے عیدی دی۔ حافظ سعید بیٹے کو عیدی کے علاوہ نماز تراویح میں قرآن مجید سنانے اور اعتکاف بیٹھنے کے علیحدہ علیحدہ انعام بھی ملے۔ بڑی بیٹی حافظہ امامہ نے گھر میں نماز تراویح میں قرآن مجید سنایا تھا، اسے اس کا انعام ملا۔ طاہر صاحب نے بچوں کو عیدی میں سے کچھ پیسے صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ خصوصاً فلسطین فنڈ میں پیسے جمع کرنے کا شوق دلایا۔

بچے مارکیٹ سے اپنی من پسند اشیاء خرید کر کھاتے رہے اور ماں کو بھی کھلاتے رہے۔ طاہر صاحب البتہ کھانا کھانا چاہتے تھے۔ لہذا تھوڑی دیر بعد نصیبہ نے روٹیاں پکا کر، سلاد رائتہ تیار کرکے، شامی کباب فرائی کرکے، کھانا تیار کرکے سب اہل خانہ کو پیش کردیا۔ ساتھ گھر میں تیار کردہ لیمن منٹ ڈرنک ( پودینہ کا ہاضمے والا مشروب مع سیون اپ اور لیموں) اور دیگر کولڈ ڈرنکس وغیرہ رکھیں۔
طاہر صاحب نے صحیح طرح کھانا کھایا، باقی بچوں نے صرف خانہ پری کی۔

کچھ کھاتے ہوئے سب کی کبھی کبھی عجیب کنڈیشن ہوجاتی تھی۔ دراصل رمضان کے بعد عید کے دن جب وقت بے وقت کچھ کھانے لگتے ہیں تو عجیب عجیب لگتا ہے جیسے روزہ ہو۔ بعض اوقات چونک کر ہوشیار ہوتے ہیں کہ روزہ رکھا ہوا ہے اور شاید بھول کر کچھ کھانے لگے ہیں۔

پھر عید کے روز صبح پانچ چھ بجے ایسے لگتا ہے کہ شاید آج سورج بھی نیا نیا طلوع ہو رہا ہے اور ایک نیا دن نمودار ہو رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ آج شاید ساری دنیا بدل گئی ہے۔ اور ہمارے ساتھ خوشیوں میں شامل ہے۔

خصوصاً بچے عید والے دن عجیب سی خوشی محسوس کررہے ہوتے ہیں جیسے ہر چیز نئی نئی ہو، مختلف اور منفرد معاملات ہوں اور وہ رومزہ روٹین سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ پھر بڑوں کو انہیں کنٹرول کرنا پڑتا ہے کہ ” بیٹا جی! تربیتی سسٹم پرانا ہی ہے۔ اور اس کا خیال بھی رکھنا ہے۔“

دروازے پر دستک ہوئی اور ساتھ والے گھر سے چھوٹے دیور کی فیملی سمیت گھر میں آمد ہوئی۔ سب خوش ہوگئے۔ آدھے گھنٹے بعد ان کی روانگی ہوئی تو آگے پیچھے بیٹیوں کی سہیلیاں آگئیں۔
پھر کالونی کی چند خواتین آگئیں۔
مرد مہمان بھی آتے رہے۔

مہمان داری کا سلسلہ چلتا رہا لیکن اس دفعہ مہمانوں کے آنے کا سلسلہ پہلے کی نسبت کم تھا۔ اکثر لوگ نماز عید اور کھانا کھانے کے بعد اپنے گھروں میں لمبی تان کر سو رہے تھے۔ چاند رات جاگ کر جو تیاری کی تھی، تو اس کی کسر اب دن میں سو کر پوری کرنی تھی۔

پھر بچے اور طاہر صاحب تقریباً دس بجے سوگئے۔ نصیبہ جاگتی رہی، اس نے بریانی پکانے کا کام مکمل کیا، اور دیگر کام سمیٹتی رہی۔ پھر ساڑھے گیارہ بجے اس نے سب کو زبردستی اٹھادیا۔
” سب اٹھ جائیں۔ اب پھپھو کے گھر جانا ہے۔“ اس نے بار ہار ہلا جلاکر بچوں کو بڑی مشکل سے اٹھایا۔

بچے پھپھو کے گھر بڑی خوشی اور شوق سے جاتے تھے لیکن اس وقت نیند کی ماری اس ساری مخلوق نے اٹھنے، مکمل طور پر بیدار ہونے اور پھر دوبارہ تیار ہو کر جانے میں بڑا تنگ کیا۔

گھنٹے بھر کا سفر بڑا اچھا گزرا۔ طاہر صاحب اپنے بچپن اور جوانی کی مختلف کی عیدوں کے قصے سناتے رہے، بچے دلچسپی سے سن رہے تھے اور اپنے قصے کہانیاں بھی سنا رہے تھے۔
راستے سے چاکلیٹ کیک اور فروٹ وغیرہ خریدے۔ پھپھو کے گھر پہنچ کر سب ایک دوسرے سے ملے، عید کی مبارکباد دی۔ کھایا پیا اور نماز ظہر کی بمشکل قصر ادائیگی کرکے بچے پھر جہاں بیٹھے تھے، وہیں سونے کے لیےلڑھک گئے۔ بڑے بھی کچھ دیر کے لیے سوگئے۔

عصر کے وقت سب کو بیدار کرکے نصیبہ نے نماز عصر پڑھنے کے لیے کہا۔ نماز کے بعد سب لذیذ دعوت طعام سے لطف اندوز ہوئے۔ کھانے کے بعد سب لوگوں کی بھرپور مجلس جمی جس میں سب نے بڑا انجوائے کیا۔
مغرب سے کچھ دیر پہلے وہ اپنے گھر جانے کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں ایک جگہ ایک بیمار رشتہ دار کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے۔ کچھ دیر وہاں ٹھہرے، پھر سب کو عیدی دے دلا کر عشاء سے کچھ دیر پہلے وہاں سے روانہ ہوئے۔

گاڑی میں بچے حسب معمول باتوں میں مشغول رہے۔ ہنسی مذاق بھی ہوتا رہا، آج کے تاثرات اور واقعات بھی بچے بیان کرتے رہے۔ ساتھ ساتھ ان کی اصلاح کے ذریعے تربیت بھی ہوتی رہی۔
گھر پہنچے تو بچے تھکن سے چور ہوچکے تھے۔ نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد دس بجے سب سونے کے لیے لیٹ گئے۔
بلاشبہ ” سرپرائز “ عید کا یہ دن یادگار رہا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں