نگہت حسین :
دعا کے لئے ہاتھ پھیلائے تو ذہن میں سوال آیا کہ یہ جو ہم ہر دعا میں نیک اولاد مانگتے ہیں ، کبھی اس دعا پر ہم نے غور بھی کیا ہے کہ کیا مانگتے ہیں ؟ کیا نیکی کے مفہوم سے ہماری آشنائی بھی ہے ؟ کیا ہم سمجھتے بھی ہیں کہ نیک ہونا کسے کہتے ہیں؟
اک لمحے کو اس سوال پر خود بھی حیرانی ہوئی ، کتنا عجیب سوال ہے ۔ آج تک کبھی یہ دعا اتنا سوچ کر بھی مانگی گئی ہے ؟
لیکن اک لمحے میں ہی اس دعا کی جامعیت کا احساس ہوگیا کہ یہ دعا کس قدر جامع ہے اور اس کا ماڈل کیسا ہوگا ؟ اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیج کر بتایا ، رہتی دنیا کے لئے اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ پیش کردیا ، ان کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی صورت سمجھا دیا کہ دیکھو نیکی کیا ہے ؟
ادراک ہوتے ہی ذہن پریشان سا ہوگیا کہ کیا واقعی ہم اپنی اولاد کو نیک بنانا چاہتے ہیں ؟ سمجھ نہیں آیا ، کیا کہوں کہ ذہن میں مختلف سوالات اٹھتے رہے ۔
کیا واقعی میرے اندر اتنی ہمت ہے کہ اپنی اولاد کو مکمل صالحیت کے روپ میں دیکھ سکوں ۔۔۔۔؟
کیا واقعی میں اللہ تعالی سے اولاد کو متقیین کا امام بنادے ۔۔۔۔۔ مانگتی ہوں ؟
دعا میں نیک اولاد مانگی ہے یا نیکی و صالحیت کے من پسند پیکچ کے مطابق اپنی مرضی کے خاکے جیسا کچھ ؟
کہیں ہم 9 سے 5 والی جاب جیسا نیک اولاد کا کوئی پیکج تو نہیں چاہتے ہیں بے ضرر سا ؟
شاید دعا میں ہمارے ذہنوں میں نیک اولاد کے مختلف پیکجز ہیں ، ہم اسی طرح کے کسی ایک نیکی و صالحیت کے سانچے میں اپنی اولادوں کو فٹ کرنا چاہتے ہیں ۔
کبھی جو اولاد اس سانچے سے ہٹ کر مکمل صالحیت اور رب کی رضا کے لئے تیار ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے ہماری اپنی ہی جان پر بن آتی ہے ۔
ہم تو قرآن کا ماڈل نیک انسان نہیں مانگتے بلکہ ہم تو اپنے ذہنوں کے مطابق نیک مانگتے ہیں ، جس میں ہماری اپنی کچھ خواہشات آرزوں اور فرمان برداری کی تکمیل ہوتی ہے ۔
چلیں اس نیکی کے ماڈل کو ایک آسان سی آنکھوں دیکھی مثال سے سمجھتے ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ ہم الفاظ کیا کہتے ہیں اور ذہن میں کیا خاکہ رکھتے ہیں ۔
آپ نے ارطغرل ڈرامہ دیکھا ہے تو آلیار سے ضرور واقف ہوں گے ۔ یہ ڈرامے کا ایک منفرد کردار ہے ۔ آپ کو اس کردار پر غور کرنے کا موقع ملا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ آلیار اپنے والدین کی ایک بہت ہی نیک اولاد تھا۔علم و عمل سے مالا مال آلیار کا کردار نیک تو تھا لیکن ( ہمارے ذہنوں میں موجود خاکے کے مطابق ) والدین کا فرماں بردار نہ تھا ۔
حتی کہ جب باپ پر نزع کا عالم طاری تھا ،تب بھی آلیار پر اس کی ناراضی کا اظہار جاری تھا ۔
خاندان میں تنہا رہ جانے والا آلیار ، وہ بے چارہ تھا جس سے سب ناراض تھے لیکن اس کی جرات ، بہادری ، سچائی ااور باطل کے لیے ڈٹ جانے کی صفات ایسی تھیں کہ وہ اللہ کا ایک نیک بندہ ثابت ہوا۔
وہ حق وباطل کی پہچان رکھتا تھا ، اس نے اندھی تقلید نہ کی تھی ، وہ حق پر ڈٹ گیا تھا، اس کے سبب اسے اپنے ماں باپ بہن بھائی سب کی مخالفت و نفرت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس کے باوجود وہ والد کی عزت کرتا رہا ، انھیں سمجھاتا رہا لیکن ان کے کسی بھی غلط مطالبے پر ساتھ نہ دیا ۔ بظاہر والدین کی نہ ماننے والا آلیار ہی اصل میں ان کی سب سے زیادہ فرماں بردار نیک اولاد تھا جو کہ صدقہ جاریہ تھا ۔
نیک اولاد کا جو تصور ہمارے ذہن میں ہوتا ہے ، اس کے مطابق نمازروزے کی پابندی کے بعد ” یس ماما “ اور ” اوکے بابا “ کہنے والا نیک بچے کا خاکہ سامنے آتا ہے ۔
اس سے زیادہ نیک بچے کا تصور ہوگا تو ہم بچے کو حافظ قرآن بنادیں گے لیکن اس کے خیالات ونظریات کو مسلمان کرنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔اس کو حق و باطل کی پہچان کا موقع دیں گے نہ کوشش کریں گے ، کیوں کہ ہماری ترجیحات مختلف ہیں ۔ زندگی کی جس آسودگی کا تصور ہم رکھتے ہیں اس کے مطابق اسی طرح کا ایک نیک بچہ ہمیں چاہیے ہوتا ہے ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہم نیک صالح فرماں بردار اور نیک اولاد کا تصور قائم کرتے ہیں تو اپنی ذات سے بڑھ کر نہیں سوچتے ، ہماری ماننے والا ، ہماری سننے والا ، چپ رہنے والا ، دوسروں کے معاملے میں نہ پڑنے والا ، اپنی جان بچانے والا خود غرض سا ، سنہری مواقع کا متلاشی ۔
اس کے ساتھ جب بھی کس وقت ہم کہیں تو وہ پروفیشنل سا نیک بن جائے اور جس جگہ کسی دوسرے کردار میں ڈھالنا ہو وہاں اسی کے مطابق ہوجایے، ایک کٹھ پتلی سا نیک بچہ ۔
ہمارا یہ بقدر ضرورت ، حسب ذائقہ والا نیک اولاد کا پیکیج کتنا انوکھا ہوتا ہے ۔
نیکی کا تصور لامحدود ہے ، فرماں برداری اپنی نہیں اللہ کی مطلوب ہے ۔
نیکی اور فرماں برداری کو اپنی ذات سے نکال کر اسی رب کے حوالے کر دیجیے جو آپ کو اپنی کتاب میں جگہ جگہ نیک لوگوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ وہ کیسے ہوتے ہیں ۔
اسی لئے نیک اولاد ، جب بھی اطاعت والدین کو حکم ربی سے ٹکراتا دیکھتی ہے تو بہت ادب سے آپ کی اطاعت سے انکار کی جرات کرے گی ، اس انکار کو سہنے کا حوصلہ پیدا کر لیجیے ۔
اور ان سارے مروجہ روایتی تصورات کے باوجود اگر آپ کی دعاؤں کے طفیل اللہ آپ کو نیک اولاد سے نواز دے ( جو کہ ظاہر ہے اللہ ربی کے معیار کے مطابق ہی نیک ہوگی ) تو اس کی حق و باطل کی تمیز ، سچائی کی حمایت ، رخصت کے بجائے عزیمت کے سفر کو ترجیح دینے کی سعی ،
وراثت کے معاملے میں شریعت کے مطابق چلنے کی خواہش ،
شرعی حدود کے مطابق پسند کے نکاح کا اظہار ،
خواتین کے معاملات میں خدا خوفی اور مروجہ معاشرے کے اصولوں سے انکار ،
نکاح و طلاق کے اسلامی معیار پر اصرار ،
بے حیائی کے مظاہر سے اجتناب ،
محرم ۔۔۔ نا محرم کی حدود کے خیال
اور دیگر بہت سے روزمرہ کے معاملات میں اپ کے اصولوں کے بجائے آپ کے خلاف لگنے والے اصول و ضوابط ( لیکن اللہ و رسول کے مطابق اصول و ضوابط ) پر اصرار ہو تو ذرا کوشش کر کے ایسے اصرار پر توجہ دے دیجیے گا ۔
ان خواہشات ، مطالبات اور اظہار پر ان کو تنہا نہ کر دیجیے گا ، ان کو دعائیں دے کر دنیا و آخرت تنگ کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا یہی آپ کے اصل صدقہ جاریہ ہیں ۔