عمران خان اور جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 11 واں اور آخری حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون :

پہلے یہ پڑھیے

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 4 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 5 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 6 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 7 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 8 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 9 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 10 )

اب پہلے تو اس پر با ت ہوجائے کہ اس مختصر حکم نامے کے بعد آگے اس مقدمے کے حوالے سے کیا رہتا ہے؟ اس بنچ کے فاضل جج صاحبان نے ابھی تین مزید کام کرنے ہیں۔
1۔ جب 22 فروری 2021ء کو 6 رکنی بنچ کا فیصلہ آیا تو ایک فاضل جج جسٹس منظور ملک نے اس فیصلے کے اس نکتے سے تو اتفاق کیا تھا کہ نظرِ ثانی بنچ میں جج صاحبان کی تعداد اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی اصل فیصلے کے بنچ میں تھی لیکن اگلی دو باتوں سے انھوں نے اختلاف کیا:

ان میں ایک بات یہ تھی کہ کیا نظرِ ثانی بنچ میں انھی جج صاحبان کا ہونا ضروری ہے جنھوں نے اصل کیس سنا تھا؟ جسٹس بندیال کی رائے یہ تھی، جس سے باقی 4 جج صاحبان نے اتفاق کیا تھا، کہ یہ ضروری نہیں ہے۔

دوسری بات یہ تھی کہ جسٹس بندیال نے یہ مان لینے کے بعد کہ اختلافی رائے رکھنے والے جج صاحبان بھی نظرِ ثانی کے بنچ میں بیٹھ سکتے ہیں، یہ قرار دیا تھا کہ نظرِ ثانی کی سماعت میں انھیں بہت زیاہ تحمل سے کام لینا ہوگا تاکہ وہ اکثریتی جج صاحبان کی رائے پر اثرانداز نہ ہوں۔

جسٹس منظور ملک نے ان دونوں نکات پر اپنے اختلاف کے اسباب بعد میں لکھنے تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نظرِ ثانی کی سماعت مکمل ہونے اور اس کا حکم سنانے تک انھوں نے یہ اسباب نہیں لکھے، یا لکھے بھی ہوں تو ان کا اعلان نہیں کیا۔ اس موضوع پر ان کا تفصیلی فیصلہ 28 اپریل 2021ء کو جاری کیا، یعنی نظرِ ثانی کے حکم نامے کے 2 دن بعد اور اپنی ریٹائرمنٹ سے 2 دن قبل۔

10 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ بہت اہم ہے اور اگر یہ پہلے جاری کیا جاتا تو شاید پہلے ہی سے واضح ہوچکا ہوتا کہ نظرِ ثانی کے فیصلے میں جسٹس منظور ملک کہاں کھڑے ہوں گے؟

انھوں نے نظرِ ثانی کے متعلق قواعد کا جائزہ لینے کے بعد ایک تو یہ نتیجہ نکالا کہ اس بنچ میں صرف ججز کی تعداد کا پورا کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہی ججز اس کی سماعت کریں جنھوں نے اصل فیصلہ سنایا تھا، الا یہ کہ ان کا سماعت میں شریک ہونا ممکن نہ رہے۔

انھوں نے جسٹس بندیال کی اس دلیل کو بھی مسترد کردیا کہ بھٹو نظرِ ثانی کیس میں وہی جج اس لیے بیٹھ گئے تھے کہ سپریم کورٹ میں کوئی اور جج تھے ہی نہیں۔ اس کے خلاف انھوں نے نظرِ ثانی کے متعلق کئی نظائر پیش کیے جن سے اس بات کی غلطی واضح ہوتی ہے۔

اس سے زیادہ اہم ان کے اس فیصلے کا وہ حصہ ہے جس میں وہ اختلافی رائے رکھنے والے ججز کو تحمل سے کام لینے کو ججز کی آزادی اور ان کے اختیارات کو محدود کرنے اور انھیں متاثر کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ جسٹس بندیال نے تحمل اور خاموشی کے لیے استدلال کرتے ہوئے بھٹو کیس سے جسٹس دوراب پٹیل کا اقتباس پیش کیا تھا۔ جواب میں جسٹس منظور ملک اسی فیصلے سے جسٹس دوراب پٹیل کی رائے نقل کرکے دکھاتے ہیں کہ جسٹس دوراب پٹیل اصل فیصلے میں اختلافی رائے رکھتے تھے اور پھر نظرِ ثانی میں بھی انھوں نے کیس پر باقاعدہ اپنی رائے دی ہے۔

میرے نزدیک جسٹس منظور ملک کے اس فیصلے کا آخری پیراگراف بہت اہم ہے۔ جسٹس بندیال نے اپنے فیصلے میں مسلسل اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے کیونکہ وہ ” ماسٹر آف روسٹر“ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جسٹس منظور ملک نے اس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ماسٹر آف روسٹر“ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ چیف جسٹس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اس کے برعکس انھوں نے قرار دیا کہ اس مرضی کو اصول اور قواعد کے مطابق ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یاد ہوگا کہ جب یہ فیصلہ آیا تھا تو اس پر تبصرے میں اس ناچیز نے بھی (23 فروری کو) اسی بات کی نشان دہی کی تھی۔

2۔ نظرِ ثانی کیس میں مزید یہ بھی رہتا ہے کہ مقدمے کی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کے مسئلے پر بنچ نے جو مختصر فیصلہ 13 اپریل کو سنایا تھا، ابھی اس کا تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے۔ اس کے بعد ہی اس مسئلے پر ججز کے فیصلے کا مناسب تجزیہ ممکن ہوسکے گا۔

یاد ہوگا کہ اس مسئلے پر بنچ میں تین آرا تھیں۔ ان تینوں آرا کےلیے کم از کم تین الگ تفصیلی فیصلے آئیں گے، جن میں ایک فیصلہ جسٹس منظور ملک کا بھی ہوگا ( یا وہ دوسرے کسی جج کے فیصلے سے اتفاق کریں گے)۔ واضح رہے کہ جسٹس منظور ملک 30 اپریل کو ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن چونکہ حکم نامہ پہلے ہی جاری ہوچکا تھا، اس لیے تفصیلی فیصلہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی لکھا جاسکتا ہے۔

3۔ اس کے علاوہ نظرِ ثانی کی درخواستوں پر جو حتمی حکم نامہ 26 اپریل کو جاری کیا گیا ہے، اس کے بھی تفصیلی فیصلے آنے باقی ہیں جن میں ججز اپنے اپنے موقف کے تفصیلی دلائل دیں گے۔

اب آئیے اس سوال پر کہ یہ سارا مقدمہ تھا کیا ، یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر الزام کیا تھا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب مقدمہ شروع ہوا اور صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا، تو اس وقت ریفرنس دائر کرنے والوں نے منی لانڈرنگ کا بھی الزام لگایا، زر مبادلہ کے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی بات بھی کی اور ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی بات بھی اٹھائی اور ان سب امور کو ملا کر سپریم جیوڈیشل کونسل سے مطالبہ یہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹادیا جائے۔

تاہم جب بات سپریم کورٹ کی طرف آئی اور دس رکنی بنچ نے پورے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا تو حکومت ایک ایک کرکے ان ساری باتوں سے پھر گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 19 جون 2020ء کے حکم نامے میں 10 جج صاحبان نے بالاتفاق صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی اور قطعی بے بنیاد قرار دیا ۔ اس حکم نامے کی تفصیلی وجوہات جب 23 اکتوبر 2020ء کو جاری کی گئیں تو ان میں جسٹس بندیال نے تفصیلی بحث کے بعد حکومتی ریفرنس میں قانون کی درج ذیل 11 خلاف ورزیوں کی فہرست دی:

1۔ ریفرنس دائر کرنے کےلیے صدر یا وزیراعظم کی جانب سے کوئی اختیار نہیں دیا گیا بلکہ ساری کارروائی وزیرِ قانون کی ایما پر ہوئی؛
2۔ ریفرنس دائر کرنے سے قبل مسز عیسیٰ کو ٹیکس کے قانون کے تحت کوئی نوٹس نہیں دیا گیا؛

3۔ یہ فرض کیا گیا کہ جسٹس صاحب اس کے پابند ہیں کہ وہ اپنے گوشواروں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کی جائیداد بھی دکھائیں حالانکہ وہ مالیاتی طور پر خودمختار ہیں ؛
4۔ منی لانڈرنگ کا الزام لگانے کےلیے کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور اس کے باوجود اس الزام کو شامل کیا گیا۔

5۔ اسی طرح زر مبادلہ کے متعلق قانون کی خلاف ورزی کا الزام بھی بغیر کسی ثبوت کے عائد کیا گیا؛
6۔ صدر نے ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے کے متعلق اٹارنی جنرل اور وزیرِ قانون کی رائے پر اعتماد کیا حالانکہ وہی تو اس ریفرنس کے اصل مؤلف تھے اور ان سے اس بابت مشورہ لینا غلط تھا ؛

7۔ صدر نے ریفرنس کے متعلق غیر جانبدارانہ اور آزادانہ مشورہ لینے کےلیے کسی غیر جانبدار فرد سے مشورہ نہیں لیا؛
8۔ صدر نے اس معاملے میں قانون اور ضابطے کی صریح خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کیا؛

9۔ صدر پر لازم تھا کہ وہ اس معاملے پر سوچی سمجھی راے قائم کرتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا؛
10۔ چونکہ اس معاملے میں کارروائی کا اختیار صدر کی جانب سے نہیں بلکہ وزیرِ قانون کی جانب سے دیا گیا، اس لیے جسٹس صاحب اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی غیرقانونی طریقے سے کی گئی؛

11- فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں جسٹس صاحب کے خلاف توہین آمیز جملے کہے۔

چنانچہ حکومتی وکیلوں کی جانب سے بھی عدالت میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی غلط ہے اور انھوں نے زر مبادلہ کے متعلق قانون کی خلاف ورزی بھی نہیں کی۔ تو پھر ریفرنس میں کیا بات رہ گئی؟

اس سوال کے جواب میں حکومت کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں لندن کی جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا سیدھا سادہ جواب یہ دیا گیا کہ وہ جائیدادیں ان کی اہلیہ اور عاقل بالغ و برسرِ روزگار بچوں کی ہیں تو ان پر اپنے ٹیکس گوشواروں میں ان جائیدادوں کا ذکر کرنا لازم نہیں تھا۔

جسٹس بندیال اور ان کے ساتھ اتفاق کرنے والے 6 ججز نے بھی یہ بات مان لی۔ باقی 3 ججز تو ویسے بھی اس کے قائل تھے۔ تاہم جسٹس بندیال نے اس کے بعد اچانک ٹرن لے کر یہ قرار دیا تھا کہ قانوناً لازم نہ سہی، لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے منصب کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے امور کے متعلق آگاہی رکھیں۔

اب یہ انتہائی عجیب بات تھی۔ اپنے اہلِ خانہ کے مالیاتی امور کے متعلق آگاہی رکھنے کی اخلاقی ذمہ داری الگ بات ہے اور ان کے جائیدادوں کی تفصیل اپنے ٹیکس گوشواروں میں نہ دینا ایک اس سے بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ اس اخلاقی ذمہ داری سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان کے جائیداد کی تفصیل اپنے ٹیکس گوشواروں میں نہ دے کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی؟

ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں تھا۔ اس وجہ سے جسٹس بندیال نے اس کے بجائے اپنے فیصلے میں اس بات پر انحصار کیا کہ سپریم جیوڈیشل کونسل نے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شو کاز نوٹس جاری کیا تھا تو اس میں ان سے تین سوالات پوچھے تھے:
ایک یہ کہ ان جائیدادوں کا مالک کون ہے؟
دوسرا یہ کہ اس کے لیے فنڈز کہاں سے آئے؟ اور
تیسرا یہ کہ یہ فنڈز لندن کیسے منتقل ہوئے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے سوال کا جواب یہ دیا تھا کہ یہ جائیدادیں ان کی اہلیہ اور اس اولاد کے نام ہیں جو عاقل بالغ، خود مختار اور اپنے مالیاتی امور کےلیے خود ذمہ دار ہیں۔ اس جواب کے بعد اگلے دو سوالات کے جواب ان سے طلب ہی نہیں کیے جاسکتے تھے ۔

مزید یہ کہ خود جسٹس بندیال اور ان کے ساتھ اتفاق کرنے والے ججز نے صدارتی ریفرنس کے ساتھ ساتھ اس شوکاز نوٹس کو بھی کالعدم کردیا تھا۔ اس کے بعد اسی شوکاز نوٹس پر انحصار کرکے یہ کیسے کہا جاسکتا تھا کہ دو سوالات کے جوابات تو رہ گئے ہیں، اس لیے ان سوالات کے جوابات ایف بی آر ان کی اہلیہ اور حاصل کرے؟

چنانچہ سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ اب نظرِ ثانی کے مرحلے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کا کوئی الزام نہیں تھا، نہ ہی زر مبادلہ کے قانون کی خلاف ورزی کا الزام تھا، نہ ہی ٹیکس چوری کا الزام تھا، نہ ہی کرپشن کا الزام تھا؛ یہ سارے بے ہودہ الزامات جو اب بھی سوشل میڈیا پر دہرائے جارہے ہیں، حکومت کب کے واپس لے چکی ہے۔ 10 رکنی بنچ بالاتفاق ان سارے الزامات سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی براءت کا اعلان جون 2020ء میں ہی کرچکا ہے اور پھر اس کی تفصیلی وجوہات اکتوبر 2020ء میں دے چکا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت نے نظرِ ثانی کی درخواست دائر نہیں کی جس کا مطلب قانون کی زبان میں یہ ہے کہ حکومت مان چکی کہ اس کی جانب سے لگائے گئے یہ سارے الزامات غلط تھے۔

نظرِ ثانی کی درخواستیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، ان کی اہلیہ ، سپریم کورٹ بار وغیرہ کی جانب سے دائرکی گئی تھیں اور ان میں یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ جب آپ نے ان سارے الزامات کو مسترد کردیا اور ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تو اس کے بعد ان کے اہلِ خانہ کی جائیداد کے کے متعلق ایف بی آر کو مخصوص مدت میں انکوائری کرکے رپورٹ سپریم جیوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا حکم کیسے دے سکتے تھے؟

سوشل میڈیا پرلندن فلیٹس کے بارے میں بھی بہت سی مبالغہ آرائیاں کی گئی ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ نیز مسز سرینا عیسیٰ کے متعلق بے ہودہ الزامات پھیلائے گئے ہیں۔ پچھلی تفصیل سے معلوم ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس قطعی طور پر بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ثابت ہوا اور اس پر 10 کے 10 ججز نے اتفاق کیا اور ان کے اس فیصلے سے حکومت نے بھی اختلاف نہیں کیا۔اس کے باوجود مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں اور لندن فلیٹس کی خریداری کے متعلق بے بنیاد افسانے پھیلائے گئے اور یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ گویا انھوں نے منی لانڈرنگ کی ہو، ٹیکس چوری کی ہو، یا ان جرائم میں اپنے شوہر کی مددگار رہی ہوں، حالانکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق یہ سارے الزامات جون 2020ء میں ہی بے بنیاد ثابت ہوچکے ہیں۔ تاہم جیسا کہ پشتو مقولہ ہے کہ سچ کے آتے آتے جھوٹ نے کئی گاؤں برباد کیے ہوتے ہیں، اس لیے لندن فلیٹس اور مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں کے متعلق چند حقائق ، جو نظرِ ثانی کے مرحلے پر عدالت میں کھل کر سامنے آئے، یہاں پیشِ خدمت ہیں۔

لندن میں مسز سرینا عیسیٰ نے ایک فلیٹ 2004ء میں خریدا جبکہ دو فلیٹس 2013ء میں انھوں نے اور ان کے بیٹے اور بیٹی نے مل کر خریدے۔ ان تینوں جائیدادوں کی کل مالیت تقریباً ساڑھے 7 لاکھ پاؤنڈز تھی جو اس وقت پاکستانی روپے میں تقریباً 14 کروڑ روپے بنتے تھے۔ (جی ہاں، 14 کروڑ ! اس کو سوشل میڈیا پر کتنے کروڑ اور کتنے ارب بنا کر پیش کیا گیا؟ خود سوچیے!)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 2009ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور اس سے قبل وہ کسی سرکاری یا عوامی عہدے پر فائز نہیں رہے۔ چنانچہ 2004ء میں خریدے گئے فلیٹ کے متعلق تو ان سے سوال کا ” اخلاقی جواز “ بھی نہیں ہے، قانونی تو ویسے بھی نہیں۔ تو بات صرف دو فلیٹس تک رہ گئی اور ان کی مالیت مزید کم ہوگئی؟ 1981ء سے وہ اپنی وکالت کی پریکٹس کرتے رہے اور چیف جسٹس بننے سے قبل ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً 30 لاکھ روپے تھی۔ ان کی آبائی جائیدادیں اور آمدنی اس کے علاوہ تھی۔

ان کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ کی آبائی زرعی جائیداد سندھ میں تقریباً 173 ایکڑ ہے اور بلوچستان میں اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی پراپرٹی بھی ہے اور امریکن سکول میں پڑھانے کی وجہ سے بہت ہی اچھی تنخواہ بھی ان کو ملتی تھی۔ (ان کے اثاثہ جات کی تفصیل سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔) واضح رہے کہ ان کی زرعی جائیدادیں ٹیکس سے مستثنی ہیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کی ان جائیدادوں، ان کے کرایوں، ان کی اپنی تنخواہ اور دیگر اثاثہ جات کی بنا پر 14 کروڑ کی جائیدادیں خریدنا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔

مزید یہ کہ ان جائیدادوں کی خرید کےلیے رقم انھی کے پاکستانی بینک اکاؤنٹ سے انھی کے لندن اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ ان دو سوالات کے جواب ہوگئے جو سپریم جیوڈیشل کونسل کے شو کاز نوٹس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھے گئے تھے، اور جو قانوناً ایک غلط اقدام تھا کیونکہ یہ جائیدادیں ان کی تھیں ہی نہیں تو ان سے ان کی خرید کےلیے فنڈ کے ذرائع اور ان فنڈز کی منتقلی کے متعلق پوچھا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ تاہم مسز سرینا عیسیٰ نے فنڈز کے قانونی ذرائع بھی بتادیے اور فنڈز کی منتقلی کا قانونی راستہ بھی دکھادیا اور یہ دونوں حقائق باقاعدہ دستاویزی ثبوتوں کی صورت میں موجود ہیں۔

ایف بی آر میں اپنی مرضی کے بندوں کی تعیناتی کے بعد حکومت نے جو رپورٹ بنوائی، اس کا بدنیتی پر مبنی ہونے کےلیے اس کے سوا کیا ثبوت چاہیے کہ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ مسز سرینا عیسیٰ کی ان زرعی زمینوں اور دیگر جائیدادوں سے کوئی آمدنی ہوئی ہی نہیں تھی!

اس انتہائی حیران کن دعوے کے لیے دلیل کیا دی گئی؟ یہ کہ انھوں نے اس کا ذکر اپنے ٹیکس گوشواروں میں نہیں کیا تھا، حالانکہ ایف بی آر یہ بات مانتا ہے کہ چونکہ یہ آمدنی ٹیکس سے مستثنی تھی تو اس وجہ سے ٹیکس گوشواروں میں ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں تھا!

بھئی، جب ضروری نہیں تھا اور اس وجہ سے انھوں نے ذکر نہیں کیا (اور واضح رہے کہ ایسا انھوں نے ٹیکس کے مشہور ماہر کے مشورے سے کیا تھا)، تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ سرے سے آمدنی ہی نہیں تھی؟ کیا یہ استدلال حماقت آمیز نہیں ہے؟ منطق کا بنیادی اصول یہاں یاد کیجیے جو اسلامی قانون کے ماہرین نے بھی اکثر استعمال کیا ہے کہ عدمِ ذکر سے عدمِ وجود ثابت نہیں ہوتا (بالخصوص جب ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی)!

ایک اور دلچسپ حماقت ایف بی آر کی رپورٹ میں یہ کی گئی کہ یہ مان چکنے کے بعد ساڑھے 7 لاکھ پاؤنڈز مسز سرینا عیسیٰ کے پاکستانی اکاؤنٹ سے مسز سرینا عیسیٰ ہی کے لندن اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے ہیں، قرار دیا گیا کہ منتقلی کے بینک فارم میں فنڈز کی منتقلی کا سبب فلیٹس کی خریداری کے بجائے بچوں کی مدد بتایا گیا تھا!

بھئی یہ کیا بات ہوئی! ایک تو ہم سب جانتے ہیں کہ بینک میں ایسے فارم کیسے بھرے جاتے ہیں اور جس نے کبھی آن لائن فنڈز منتقل کیے ہوں اس نے بھی کبھی شاید ہی اس بات کو سنجیدگی سے لیا ہو۔ دوسرے، جب رقم میری ہے اور میرے ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی ہے اور میں ہی اس کا مالک ہوں، تو خواہ منتقلی کے وقت میرے ذہن میں ایک سبب ہو لیکن منتقلی کے بعد میں اس سبب کے بجائے اسے کسی اور مقصد کےلیے بھی استعمال کرسکتا ہوں، آخر میرے ہی تو پیسے ہیں!

یاد ہوگا کہ جب کیس کی سماعت کے دوران میں جسٹس منیب اختر نے یہ اعتراض کیا تو یہی بات جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہی تھی اور اس کے بعد جسٹس بندیال کو بھی کہنا پڑا کہ یہ بات تو ختم ہوگئی!

یہ بھی واضح رہے کہ 2018ء سے قبل لندن کی ان جائیدادوں کا پاکستان میں ٹیکس گوشواروں میں ذکر قانوناً ضروری نہیں تھا۔ البتہ جب 2018ء میں انکم ٹیکس آرڈی نینس میں دفعہ 116۔الف کا اضافہ کیا گیا، تو اس کے بعد یہ ضروری قرار پایا کہ بیرون ملک جائیدادوں کا بھی ذکر ٹیکس گوشواروں میں کیا جائے۔ چنانچہ 2018ء کے بعد سے مسز سرینا عیسیٰ نے عین قانون کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ٹیکس گوشواروں میں ان جائیدادوں کا ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ یہ بات جسٹس بندیال اور ان کے ساتھ اتفاق کرنے والے 6 جج صاحبان نے اکتوبر 2020ء میں اپنے تفصیلی فیصلے میں مانی بھی ہےکہ اس اعتراض میں بھی کوئی وزن نہیں ہے کہ انھوں نے 2018ء سے قبل ان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لندن جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نہیں، بلکہ ان کی اہلیہ اور عاقل بالغ بچوں کی ہیں جو یہ جائیدادیں خریدنے کےلیے وسائل رکھتے بھی تھے اور ان کے خریدنے کےلیے انھوں نے پاکستان سے لندن رقم کی منتقلی بھی قانونی ذرائع سے کی۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے!

یہ بھی اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ سپریم کورٹ نے نظرِ ثانی کے فیصلے میں ہر گز یہ نہیں کہا (جی ہاں، ہر گز یہ نہیں کہا) کہ کیس اس وجہ سے خارج کیا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج یا ان کے اہلِ خانہ کے اثاثہ جات کے متعلق سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، یا یہ کہ ان کو استثنا حاصل ہے۔ یہ باتیں بھی محض پروپیگنڈا ہیں۔

اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس تو جون 2020ء میں 10 کے 10 جج صاحبان نے خارج کردیا تھا اور سب نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ یہ ریفرنس بے بنیاد الزامات پر مبنی تھا، سارے الزامات جھوٹے تھے اور اس سب کے پیچھے محض بدنیتی تھی۔ نظرِ ثانی کے مرحلے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا تو سوال ہی نہیں تھا۔

اس مرحلے پر سوال یہ تھا کہ جب یہ فیصلہ کرچکنے کے بعد 7 جج صاحبان نے ایف بی آر کو مسز سرینا کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے کر معاملہ سپریم جیوڈیشل کونسل کی طرف بھجوانے کا حکم دیا تھا ، تو کیا حکم درست تھا یا غلط؟

اس سوال پر 10 میں سے 6 جج صاحبان نے کہا کہ یہ حکم غلط تھا کیونکہ سارا معاملہ ہی بے بنیاد تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اس فیصلے کے لازمی نتیجے کے طور پر قرار دیا کہ جب درخت زہریلا تھا، تو اس کا پھل بھی زہریلا ہے۔ جب ایف بی آر کو معاملہ بھیجنا غلط تھا، تو ایف بی آر کی رپورٹ کو بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس نکتے کی تفصیلی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اگر کل کلاں ایف بی آر کو مسز سرینا کے خلاف اقدام کےلیے قانونی بنیاد ملے، تب بھی وہ کارروائی نہیں کرسکے گی۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ یا کسی اور جرم کا ثبوت ملے تو ان کے خلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں ریفرنس نہیں بھیجا جاسکے گا۔

ہم نے زہریلے درخت کے زہریلے پھل ( یا بناء الفاسد علی الفاسد ) کے جس اصول کا ذکر کیا ہے، اس سے ایک اہم استثنا یہ ہے کہ اگر کسی آزادانہ اور قانونی طور پر قابلِ قبول ذرائع سے وہی معلومات ملیں جو غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی تھیں، تو ان معلومات پر کارروائی کی جاسکتی ہے کیونکہ قانون نے اس وقت ان معلومات پر عمل سے صرف اس لیے روکا ہے کہ یہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی تھیں۔ اس لیے قانون اس مرحلے پر اس بحث میں جاتا ہی نہیں ہے کہ یہ معلومات درست ہیں یا غلط؟ اس استثنا کو independent discovery کہا جاتا ہے۔

چنانچہ اگر حکومت، یا اس کے حامیوں ، کی اب بھی خواہش ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا مسز سرینا عیسیٰ کے خلاف کارروائی کرے، تو وہ یہ شوق ضرور پورا کرسکتی ہے لیکن اس کےلیے اسے ساری کارروائی قانونی طریقے سے کرنی ہوگی۔

(ایک دفعہ پھر یاد کیجیے کہ جسٹس بندیال نے لکھا تھا اور 6 ججز نے ان کے ساتھ اتفاق کیا تھا کہ صدارتی ریفرنس اور اس کےلیے معلومات کے حصول میں 11 غیرقانونی افعال کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ باقی 3 ججز بھی اسی کے، بلکہ اس سے زیادہ کے، قائل تھے۔)

اب جب ان لوگوں کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا، تو یہ فرمانے لگے کہ یہ تو ” ٹیکنیکل جسٹس “ ہوا ! نہیں، حضور! یہ ٹیکنیکل جسٹس نہیں بلکہ عین لیگل جسٹس ہے۔ جب سارا معاملہ ہی بدنیتی پر مبنی تھا تو اس پر مزید کارروائی کرنا عین ناانصافی تھی۔ جب ثابت ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے منی لانڈرنگ نہیں کی، نہ ہی زرِ مبادلہ کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، نہ ہی اپنے ٹیکس کے گوشواروں میں کوئی غلطی کی ہے، نہ ہی ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے، تو اس کے باوجود ان کے خلاف مزید کارروائی کو ظلم نہیں تو اور کیا کہا جائے؟

اسی طرح جب ثابت ہوا کہ مسز سرینا عیسیٰ کے خلاف کارروائی کا حکم دے کر 7 ججز نے غلطی کی تھی اور یہ غلطی ان میں 2 نے صراحتاً مان لی، تیسرے کی جگہ نئے بٹھائے گئے جج پر بھی یہ غلطی واضح ہوگئی، اور 4 جج تو پہلے ہی اس غلطی کے قائل تھے، تو اس کے بعد اس حکم کو واپس کیوں نہ لیا جاتا؟ مکرر عرض ہے کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ کہیں کوئی گھپلا کیا گیا ہے، تو وہ اس کے متعلق قانونی حدود کے اندر رہ کر معلومات اکٹھی کرے اور کارروائی کرے۔

ہاں، البتہ ٹیکس دہندہ کا ریکارڈ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے، یا ٹیکس افسر یا ایف بی آر کے سربراہ کو تبدیل کرکے ، اور قانون کی دھجیاں اڑا کر، ٹیکس دہندہ کو سنے بغیر ، اپنی مرضی کی رپورٹ تیار کرے گی تو کوئی بھی عدالت اس کے ساتھ وہی حشر کرے گی۔

ظلم کی یہ داستان بہت طویل ہے اور آزمائش بہت کڑی تھی لیکن ہمارے لیے یہ بات خوشی کی ہے کہ ایک ایسے جج کو اللہ تعالیٰ نے سرخرو کردیا جو قانون اور اصول پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتا، جو انصاف کےلیے آخری حد تک جاسکتا ہے اور جو دل میں پاکستان کے مظلوم عوام کےلیے بے پناہ درد رکھتا ہے۔

اب میں آخر میں یہ بھی ضرور بتانا چاہوں گا کہ ” استثنا “ اور ” ٹیکنیکلیٹیز“ کا سہارا لے کر حکومت نے اب تک اس کیس میں اپنے مہروں کو کیسے بچایا ہے اور ” مکمل انصاف “ کےلیے عدالت پر کیا کچھ لازم ہے جو اس نے ابھی تک نہیں کیا؟

سب سے پہلے تو جسٹس بندیال کا تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ دیکھ لیجیے جو انھوں نے 23 اکتوبر 2020ء کو جاری کیا تھا اور جس سے 6 جج صاحبان نے اتفاق کیا تھا۔ اس فیصلے میں تفصیلی بحث کے بعد قرار دیا گیا تھا کہ صدارتی ریفرنس کی تیاری میں قانون کی 11 واشگاف خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ ان خلاف ورزیوں کےلیے کون کون ذمہ دار ہیں؟

سب سے پہلے جناب فروغ نسیم کا نام آتا ہے جو اس پورے فساد کےلیے بنیادی محرک تھے۔ یہ ریفرنس بنیادی طور پر انھی کے ذہن کی تخلیق تھا۔ ساری غیر قانونی کارروائیوں کےلیے وہی ذمہ دار تھے۔ تاہم وہ ابھی تک عدالت کی جانب سے بھی محفوظ ہیں اور حکومت بھی ان کے خلاف کچھ کرنے کا نہیں سوچ سکتی۔

اس کے بعد اس غیر قانونی ریفرنس اور اس سے جڑی ہوئی لاقانونیت کےلیے ذمہ دار جناب شہزاد اکبر ہیں جنھوں نے فروغ نسیم کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود وہ ابھی تک سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور ان کی لاقانونیت پر ابھی تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس کے علاوہ اہم کردار اٹارنی جنرل انور منصور کا تھا جنھوں نے نہ صرف صدر عارف علوی کو غلط مشورہ دیا بلکہ عدالت میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ دیگر جج صاحبان کے متعلق انتہائی توہین آمیز جملے کہہ کر ان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش ان کےلیے الٹا نقصان کا باعث بنی اور انھیں معذرت بھی کرنی پڑی اور استعفا بھی دینا پڑا، لیکن غیر قانونی ریفرنس کی تیاری میں ان کے کردار پر ان کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ جسٹس بندیال نے فروغ نسیم کے ساتھ انور منصور کو اس ریفرنس کا چیف آرکیٹیکٹ قرار دیا تھا۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے، جن کے مشورے پر صدر نے ریفرنس بھیجا، اس پورے معاملے میں انتہائی بے احتیاطی، لاپروائی، غفلت اور بدنیتی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کے خلاف بھی کسی قسم کا اقدام نہیں اٹھایا جاسکا۔

پھر صدر مملکت جناب عارف علوی کا کردار دیکھیے۔ جسٹس بندیال کے اس فیصلے میں تفصیل سے دکھایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے منصب کی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، نہ ہی تحقیق کی، نہ مناسب مشورہ کیا، نہ یہ سوچا کہ مشورہ کس سے لیا جائے، نہ اپنا ذہن استعمال کیا، نہ ہی وزارتِ قانون، اے آر یو اور اٹارنی جنرل کی پھرتیوں پر ان کو کوئی اعتراض ہوا، اور بس انھوں نے محض ڈاکیے کا کردار ادا کرکے فائل آگے کھسکادی!

اس سب کچھ کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ بحیثیتِ صدر ان کو استثنا حاصل ہے۔ ( جی ہاں، نوٹ کرلیں کہ استثنا کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے! )

جسٹس بندیال کے 23 اکتوبر 2020ء کے فیصلے میں یہ تصریح بھی کی گئی تھی کہ ریفرنس کے متعلق جب محترمہ فردوس عاشق اعوان نے 30 مئی 2019ء کو پریس کانفرنس کی تو اس میں انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توہین اور تضحیک کی کوشش کی اور نہایت بے ہودہ الفاظ اور رکیک جملے استعمال کیے۔ یوں انھوں نے توہینِ عدالت کا بھی ارتکاب کیا کیونکہ ان کی یہ حرکت سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج کے خلاف تھی۔ تاہم اس کے باوجود آج تک فردوس عاشق اعوان کے خلاف اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

پھر جب نظرِ ثانی کی کارروائی شروع ہوئی اور اس کی براہِ راست نشریات کا سوال عدالت میں زیرِ بحث آیا تو اس موقع پر مارچ 2021ء میں ایک اور منہ پھٹ وزیر فواد چودھری نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے صریح الفاظ میں توہینِ عدالت کا ارتکاب کیا۔ نہ صرف اس وزیر نے، بلکہ بول ٹی وی کے سمیع ابراہیم نے بھی اس بول و براز میں اضافے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ان دونوں کے خلاف مسز سرینا عیسیٰ نے دس رکنی بنچ کے سامنے توہینِ عدالت کے الزام میں کارروائی کی درخواست بھی دائر کردی لیکن سماعت کے دوران میں بار بار کی یاددہانی کے باوجود ان دونوں کے خلاف کسی قسم کا اقدام ابھی تک نہیں کیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سماعت کے دوران میں ایک موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بنچ سے پوچھا کہ ان دونوں کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست کی سماعت کیوں نہیں ہورہی، تو جسٹس بندیال نے جواب دیا کہ اس درخواست کو سماعت کےلیے مقرر نہیں کیا گیا ہے!

کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کا رجسٹرار اپنی مرضی سے اس درخواست کی سماعت کو مؤخر کرسکتا ہے؟ کیا اس کا مزید مطلب یہ ہوا کہ رجسٹرار، جو ایک سرکاری ملازم ہے اور ڈیپوٹیشن پر سپریم کورٹ میں تعینات ہے، دس ججز پر مشتمل بنچ کو ڈکٹیٹ کرسکتا ہے؟ یہ وہ سوالات تھے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹھائے اور جس کا کوئی جواب جسٹس بندیال کے پاس نہیں تھا! یوں یہ معاملہ اب بھی جوں کا توں ہے۔

اس تفصیل سے اندازہ لگائیے کہ ” ٹیکنیکل جسٹس “ اور ” استثنا “ کا فائدہ کس نے اٹھایا ہے!
واضح رہے کہ ایف بی آر میں حکومت کے مہروں کا، یا خفیہ ایجنسیوں کے ہرکاروں کا، میں ذکر ہی نہیں کررہا ہوں۔
بہرحال،
All is well that ends well

ان ساری سازشوں کے بعد بھی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا کی، تو اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ آزمائشیں تو آئیں گی لیکن جو لوگ حق پر ثابت قدم رہیں، تو اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے شاملِ حال رہتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں بھی قرآن و سنت سے استدلال ملتا ہے اور اس کیس میں ان کے دلائل میں بھی مسلسل قرآن وسنت سے استدلال شامل رہا اور سیرت النبی ﷺ اور سیرتِ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم سے نظائر پیش کیے گئے اور فقہائے کرام کے اصول عدالت کے سامنے لائے گئے۔ یہ سارے امور اس عدالت میں اس طرح بہت طویل عرصے بعد دیکھنے میں آئے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس مظلوم قوم کے ساتھ انصاف کی ، اور اس مملکتِ خداداد میں قرآن و سنت کی روشنی میں دستور اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین !

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: یہ بات رہ گئی تھی!

جی ہاں۔ یہ بات بہت اہم ہے اور اسے "پس نوشت” کے طور پر ہی سہی لیکن ملاحظہ ضرور کیجیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے جب 23 اکتوبر 2020ء کو اپنا تفصیلی فیصلہ سنایا تھا تو اس کے آخر میں ایک اہم بات یہ ذکر کی تھی کہ انھوں نے مسز سرینا عیسیٰ کے معاملے میں ٹیکس حکام کو حکم دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاملے میں کسی کو بدگمانی کا موقع نہ مل سکے۔

اس کے بعد کہا گیا ہے کہ بیرون ملک موجود اموال کا معاملہ خصوصاً پاناما لیکس کے بعد بہت حساس نوعیت اختیار کیا گیا ہے اور عدلیہ و مسلح افواج سمیت تمام سرکاری ملازمین پر اس بارے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جی ہاں، انھوں نے اعلی عدلی اور مسلح افواج کا خصوصاً ذکر کیا ہے۔

یہاں الفاظ بہت اہم ہیں۔ اس لیے میں انھیں جوں کا توں نقل کرنا چاہوں گا:
The matter of undeclared and unexplained foreign wealth of public office holders bears a stigma in Pakistan that these assets have been acquired unlawfully (a stigma which applies with even greater force since the PANAMA leaks on 03.04.2016). Therefore, every public office holder including Judges of the Superior Courts, officers of the armed forces, elected representatives and public servants are accountable under the law. Indeed, neither the institution of the judiciary nor the other institutions of Pakistan can tolerate a contrary perception. Consequently, all public office holders remain accountable under their applicable legislation on misconduct.

سوال یہ ہے کہ کیا اس اصول کی روشنی میں پاپا جونز کے پیزا کے متعلق خصوصی تفتیش اور کارروائی شروع نہیں کرنی چاہیے؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس اصول کی روشنی میں مسز سرینا عیسیٰ کا یہ مطالبہ درست نہیں تھا کہ جسٹس بندیال، جسٹس منیب اور دیگر جج صاحبان اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے اثاثہ جات کی تفصیل سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دے دیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: کھسیانی بلی کھمبا نوچے!

دو سال تک ایک بدنیتی پر مبنی کیس پر عوامی وسائل کے ضیاع کے بعد بدترین شکست ابھی تک بعض حلقوں سے ہضم نہیں ہورہی اور اب انھوں نے ایک دفعہ پھر پروپیگنڈا کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس پروپیگنڈا کا ایک جزو یہ ہے کہ دس رکنی بنچ کی کی تشکیل کو مشکوک بنا کر پیش کیا جائے اور دوسرا یہ کہ مسز سرینا عیسیٰ اور ان کے بچوں کی لندن جائیداد کے متعلق بے بنیاد افواہیں پھیلائیں۔

کوئی ان احمقوں سے یہ پوچھے کہ بنچ کی تشکیل پر اعتراض کا وقت تو وہ تھا جب بنچ تشکیل دیا گیا۔ اس بات پر باقاعدہ بحث اس وقت ہوئی جب پہلے سات رکنی بنچ بنایا گیا اور پھر وہ چھ رکنی بنچ رہ گیا کیونکہ جسٹس فیصل عرب ریٹائر ہوگئے تھے۔ تفصیلی بحث کے بعد باقاعدہ اس چھ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ بنچ دس رکنی ہی ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ کسی اور کا نہیں جسٹس عمر عطا بندیال کا لکھا ہوا ہے۔

اس کے بعد یہ سوال کہ بنچ دس رکنی ہو لیکن اس میں فلاں فلاں نہ ہو، محض ایک غیر ضروری پخ تھی کیونکہ عملاً یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ان ججز کے بغیر بنچ تشکیل دیا جائے۔ سپریم کورٹ میں اور جج تھے ہی نہیں! اور ہاں، اس چھ رکنی بنچ کے ایک جج جسٹس منظور ملک نے الگ سے فیصلہ لکھا اور واضح کیا کہ دس رکنی بنچ میں جج بھی وہی ہونے چاہئیں جنھوں نے اصل فیصلہ لکھا، الا یہ کہ ان کا بنچ میں شامل ہونا ممکن نہ ہو (جیسے جسٹس فیصل عرب اس دوران میں ریٹائر ہوگئے تھے)۔

جہاں تک لندن پراپرٹیز کے متعلق سابق اٹارنی جنرل انور منصور کی تازہ ہفوات کا تعلق ہے، تو اس بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اٹھائے گئے تمام سوالات / اعتراضات پر سپریم کورٹ میں تفصیلی بحث ہوئی اور اس کے بعد ان کو بے بنیاد قرار دیا گیا۔ اگر انور منصور صاحب کو اطمینان نہیں تھا، تو ان کو سپریم کورٹ میں آکر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے تھا۔

واضح رہے کہ مسز عیسیٰ نے اپنی درخواست میں انور منصور کو باقاعدہ فریق بنایا تھا اور ان کو عدالت کی جانب سے نوٹس بھی ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے عدالت میں نہ آنے کو ترجیح دی تو یہ ان کا اپنا فعل ہوا۔ اب عدالتی فیصلے کے بعد کیا باقی بچا ہے جس پر وہ اتنا تلملارہے ہیں؟

یہ بھی نوٹ کرلیں کہ انور منصور اور فروغ نسیم کو جسٹس بندیال سمیت چھ ججز نے اس بدنیتی پر مبنی ریفرنس کے بنیادی مصنفین میں شمار کیا ہے اور اصولاً ان کے خلاف باقاعدہ انضباطی اور تادیبی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔

یہ بھی یاد کریں کہ انور منصور کو توہینِ عدالت کے ارتکاب کی وجہ سے فوری طور معذرت بھی کرنی پڑی تھی اور پھر اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفا بھی دینا پڑ گیا تھا۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے کا مصداق اب سمجھ میں آگیا ہے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں