ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ میٹھے مشروبات اور سافٹ ڈرنکس کی بہتات بالخصوص خواتین میں آنتوں اور معدے کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے۔
اگر بالغ خواتین روزانہ ایک یا دو میٹھے مشروبات استعمال کریں تو اس سے کولوریکٹل یعنی آنتوں کا سرطان حملہ آور ہوسکتا ہے۔ اگر خواتین یہ عادت ترک کردیں اور کافی، کم چکنائی والے دودھ اور مکمل دودھ کا استعمال بڑھائیں تو اس سے سرطان کے خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین 13 سے 18 برس تک سافٹ ڈرنک کی رسیا ہوں ان میں آگے چل کر سرطان کا خطرہ 32 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اس طرح وہ 50 برس کی عمر تک پہنچ کرمعدے اورآنتوں کے کینسر میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔
لیکن ایک اور تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ 1990 کے عشرے میں پیدا ہونے والی خواتین میں اس کا خطرہ یوں بھی زیادہ ہے کہ کم ازکم امریکا میں سافٹ ڈرنک کا رحجان عروج پرتھا اور اب ایسی خواتین کینسر کی شکار بھی ہورہی ہیں۔ ماہرین نے اس ضمن میں انرجی ڈرنکس، فروٹ ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس اور اسپورٹس ڈرنکس سے بھی خبردار کیا ہے کیونکہ یہ امریکی اور مغربی کھانوں کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔
ماہرین نے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اس ضمن میں انرجی ڈرنکس نیا بھیس بدل کر سامنے آئی ہیں اور صرف امریکہ میں ہی 1997 سے 2001 کے درمیان انرجی ڈرنکس کے استعمال میں 135 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس اہم سروے میں 116,430 امریکی خواتین نرسوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی عمریں 25 سے 42 برس اس وقت تھیں جب انہیں 1989 میں پہلی مرتبہ رجسٹرکیا گیا تھا۔ ہر چار برس بعد تمام خواتین سے کھانے اور پینے کے معمولات پر سوالات کئے گئے تھے۔ 41 ہزار خواتین نے بتایا کہ جب ان کی عمریں 13 سے 18 برس تھیں تو انہوں نے روزانہ ایک سے دو مرتبہ میٹھے مشروبات نوش کئے تھے۔
24 سالہ سروے میں 109 خواتین کو آنتوں کا سرطان لاحق ہوگیا اور اس وقت تک وہ 50 برس تک نہیں پہنچی تھیں۔ اس کی شماریاتی تصدیق کرکے کہا جاسکتا ہے کہ اوائل عمری میں ہی میٹھے مشروبات آگے چل کر خواتین میں آنتوں اور معدے کے سرطان کی وجہ بن سکتےہیں۔
ایک تبصرہ برائے “خبردار ! سافٹ ڈرنکس کا نتیجہ ہوتا ہے معدے اور آنتوں کا سرطان ( کینسر )”
دوست
لوگ کہتے ہیں اکثر گُم سُم سی رہتی ہو کوئی بات نہیں کرتی، دوست نہیں ہیں کیا تمہارے؟
اب اِنہیں کیا بتاؤں میں کہ بہت دوست ہیں میرے اور بہت باتیں بھی کرتی ہوں اُن سے۔ یہ سورج، یہ روشنی، یہ راستے، یہ ہوائیں، اِنکی شراتیں، مستیاں، یہ شوخ چنچل جھونکے ہوا کے، یہ ہرے بھرے درخت، یہ کِھیلے ہوئے رَنگین پُھول، یہ بے پرواہ آزاد پنچھی تمام، یہ راوی، اِسکا یہ ٹھہرا ہوا پانی، اِس میں یہ روکی ہوئی ویران کشتیاں، یہ خاکروب، یہ تیز رفتار سے چلتا ہوا ہجوم، یہ ساکن خاموش عمارتیں اور اُن میں رواں دواں زندگی، یہ سڑکوں پے کھڑے محافظ اور اِنکے چہروں کی کبھی رونقیں کبھی اُداسیاں یہ ضعیف لوگ، یہ بُوجھ کّھندھوں پے اٹھائے لاچار اور بےبس لوگ، یہ کھلے آسماں تلے سوئے ہوئے غمزدہ لوگ، یہ سفر پے نکلے ہوئے چھوٹے چھوٹے ننھے معصوم علم کے متلاشی مسافر اور اِن کے چہرے کی مسکراہٹیں۔ یہ سب دوست ہی تو ہیں میرے اور خوب باتیں کرتے ہیں ہم، خوب ہنستے ہیں ہم۔ یہ نادان لوگ کیا جانیں کیا باتیں کرتے ہیں ہم، بہت باتیں کرتے ہیں ہم۔