حکیم نیاز احمد ڈیال
[email protected]
عید نہ صرف ایک اسلامی تہوار ہے بلکہ ہماری ثقافت، معاشرت، اقدار اور روایات کا لازمی حصہ بھی ہے۔ حسب روایت امسال بھی رمضان کے بعد عید کاتہوار آرہا ہے لیکن ہماری معاشرتی سرگرمیاں محدود ہونے کے باعث عید کی خوشیاں اپنا رنگ جمانے میں شاید کامیاب نہ ہوسکیں۔ کورونا وائرس کی سنگینی اور تباہ کن صورتحال کے باعث انسانی زندگیاں موت کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ آئے روز درجنوں انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ملک کے ان علاقوں میں جہاں کورونا کی شدت ہے، سخت لاک ڈاؤن لگایاجا چکا ہے۔”محدود رہو، محفوظ رہو“کے فارمولے کو اپنا کر کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
عید کی خوشیاں اگرچہ سماجی میل جول اور میل ملاپ سے ہی دوبالا ہوتی ہیں لیکن ماحولیاتی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ دریں حالات سماجی فاصلہ رکھیں اور عید صرف اپنے گھروں میں رہ کر ہی منائیں۔ رنگا رنگ کھانے، مختلف پکوان اور گھر میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو خوشیوں سے بھرپورکریں۔
سماجی فاصلوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دلوں میں دوریاں اور فاصلے پیدا کرلیے جائیں، صرف وجود میں فاصلہ رکھنا ہے دلوں میں محبتیں، خلوص اور اپنائیت میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ باہمی اخوت ورواداری اور خلوص و وفاداری بڑھانی ہے۔ ایک دوسرے کے لیے دعائیں کرنی ہیں اور اللہ سے عافیت مانگنی ہے۔ چند روزہ دوری اور احتیاط سے اگر ہماری اور ہمارے پیاروں کی زندگیاں محفوظ ہوسکتی ہیں تو ہمیں اپنے طرز عمل کو بدل کر اس پر فخر کرنا چاہیے۔
عید کے موقع پر تمام ایسے خاندان اورگھروں میں جہاں کورونا وائرس کا حملہ ہوچکا ہے یا کسی گھر میں کورونا کے مریض ہیں تو ان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل پیراہوں۔ پورا خاندان محدود رہے،رشتے داروں کو کھل کر بتائے کہ ان کے گھر میں کورونا وائرس کی موجودگی ہے، اس لیے کسی بھی رشتے دار، دوست، عزیز واقربا ء سے نہیں مل سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر لوگ کورونا وائرس کی موجودگی کو چھپاتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے میل جول بھی رکھتے ہیں جس سے کئی دوسرے لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔
کورونا متاثرین کو چاہیے کہ اپنی تنہائی کو مختلف دلچسپ سرگرمیوں سے پرلطف بنانے کی کوشش کریں۔ عید کے خوشیوں بھرے تہوار پر اپنے من پسند لیکن صحت افزا کھانوں اور پکوانوں سے لطف اندوز ہوں۔اپنی غذاکو اپنے معالجین کی ہدایات کی روشنی میں پرہیزی طرز پر اختیار کریں۔ کسی بھی بیماری میں دوا اور غذاکے ساتھ ساتھ پرہیز کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کے حملہ آور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا نخواستہ زندگی کا اختتام ہے،اسے بھی ایک بیماری سمجھیں اور اپنے روز مرہ معمولات،غذائی عادات اور ادویات تراکیب و حفاظتی تدابیر سے شکست دینے کی کوشش کریں۔
گلے میں خشکی کا احساس ہونے کی صورت میں نیم گرم پانی تھوڑا تھوڑا وقفے قفے سے پیتے رہیں۔ حلق میں خراش اور سوجن کی کیفیت میں نیم گرم پانی میں نمک ملا کر دن میں دو سے تین بار غرارے کیے جائیں۔
خوراک میں توانائی سے بھرپور اور بدنی دفاعی نظام کو مضبوط کرنے والی غذائیں استعمال کریں۔ دیسی مرغ کی یخنی، مٹن پائے کا شوربہ، کالے اور سفید چنے، تمام موسمی پھل، دیسی انڈوں کی سفیدی، دودھ میں روغن بادام یا روغن زیتون کے تین چار چمچ ملا کر دن میں ایک بار لازمی پیئں۔
کورونا کے مریض ناشتے میں پانی سے تیارکردہ دلیے میں مٹن پائے کا شوربہ ملا کر صحت اور لذت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ناشتے میں ایک گرام ادرک دودھ میں پکا کر بطور چائے پینا بھی صحت کی حفاظت کے لیے بہترین ہے۔ دوپہر میں پھلوں کے جوسز اور پھل کھانا مفید ثابت ہوتا ہے۔ دوپہر کے کھانے میں سیاہ یا سفید چنوں کے شوربے میں چپاتی سے ثرید بنا کر کھانا بے حد مفید ثابت ہوگا۔ بعد از دوپہر سونف ایک گرام، زیرہ سفید ایک گرام، چھوٹی الائچی ایک عدد اور الائچی کلاں کے چند دانے ایک کپ پانی میں پکا کر قہوہ پینا صحت کی حفاظت کے لیے شاندار طبی ترکیب ہے۔
قبل از مغرب بادام، کشمش، انجیر وغیرہ کی حسب ضرورت مقداریں استعمال کرنا مرض سے حفاظت کا بہترین سبب ثابت ہوسکتی ہیں۔رات کا کھانا سادہ ہلکا پھلکا ہونا چاہیے اور رات سونے سے پہلے نیم گرم دودھ میں تین چار چمچ بادام روغن ملا کر لازمی پینا چاہیے۔ بادام میں شامل وٹامن ای، وٹامن ڈی، وٹامن اے اور دوسرے غذائی عناصر بدن کی قوت مدافعت میں بھرپور اضافے کا سبب بن کر مرض کے خلاف اینٹی باڈیز کو بڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ طبیعت کو نرم وملائم بنا کر قبض اور بدن کی خشکی سے نجات دلانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
خالص شہد بھی قدرتی توانائی کی فراہمی کا قدرتی طریقہ ہے۔ نیم گرم دودھ میں خالص شہد کا ایک چمچ ملا کر پینا فوری توائی کی بحالی کا بہترین ذریعہ ہے۔ اگر چہ کھجور بھی توانائی بحال کرنے کا فوری اور بہترین سبب ہے لیکن بلغمی امراض میں کھجور کا استعمال بعض اوقات نقصان کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق انجیر اور کھجور توانائی کے لحاظ سے تقریباً ایک ہی طرح کے فوائد کی حامل ہیں لیکن کھجور خشکی کے مسائل دور کرتی ہے جبکہ انجیر بدن سے بلغم سمیت فاسد رطوبتوں کے اخراج کا بہترین قدرتی ذریعہ بنتی ہے۔
یاد رکھیں! کورونا وائرس کے مریض کو قبض نہ ہونے دیں،اس حوالے سے ریشے دار غذائی اجزاء،موسمی پھل،سبزیاں اور دیگر طبی تراکیب کا لازمی استعمال کروائیں۔ کورونا مریض چاہیں تو دوران علاج بازار میں دستیاب معیاری فوڈسپلیمنٹ اور طبی خمیرہ جات کا باقاعدہ استعمال کرسکتے ہیں۔
بدن میں قوت مدافعت اور دل ودماغ کو فرحت وتازگی دینے والے طبی مرکبات میں خمیرہ مروارید، خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا۔ خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر والا،خمیرہ گاؤزبان عود صلیب والا،دوا ء المسک معتدل سادہ، دواء المسک جواہر دار،مفرح بارد، مفرح شیخ الرئیس، معجون نجاح اور ماء الحم وغیرہ کسی بھی معیاری دواساز ادارے کے استعمال کرنے سے مرض سے چھٹکاراپانے اور اس کے اثرات سے مکمل طور پر بچنے کا بہترین قدرتی ذریعہ ہیں۔
دھیان رہے کہ زیادہ ترشی اور ترشے پھل یا جوسز سانس کی نالیوں کے مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں، لہٰذا زیادہ ترشی سے بچا جانا چاہیے۔ دہی وغیرہ کے استعمال سے پرہیز ہی مفید ہے۔ چکنائیوں، بازاری مٹھائیوں، اچار، کولڈ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز،تیز مسالے والے چاول، بیکری مصنوعات، بازاری پکوان،مرغن، بادی اور ثقیل غذاؤں سے مکمل پرہیز کرنے میں ہی عافیت ہے۔
اسی طرح دل کی فرحت وتازگی کے لیے مربہ بہی، مربہ گاجر، مربہ آملہ اور مربہ ہرڈ ہم وزن گرائینڈ کرکے حسب ذائقہ چھوٹی الائچی اور چاندی کے ورق ملا کر دن میں دو سے تین بار 100 گرام تک کھائیں۔ اس کے استعمال سے نہ صرف بیماریوں کے خلاف بدن کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوگا بلکہ دل ودماغ بھی طاقت ور ہوں گے۔ دماغ غیر ضروری سوچوں، وہم، وسواس اور انجانے خوف سے بھی محفوظ رہے گا۔
کسی بھی بیماری کی موجودگی میں دل ودماغ میں انجانے خوف اور اندیشے پیدا ہوکر مریض کے حوصلے وہمت میں کمی کا سبب بنتے ہیں،بلا وجہ کے خوف اور اندیشوں سے بچنے کے لیے خمیرہ گاؤزبان اور معجون نجاح کی ایک ایک چمچی خالی پیٹ کھانے کا معمول بنانے سے دل ودماغ میں ہمت وحوصلہ اور کسی بھی نازک صورتحال کا مقابلہ کرنے کی سکت موجود رہتی ہے۔
انجانا خوف، وسوے اور اندیشے بھی قوت مدافعت بدن میں کمی کا باعث بن کر بدن پر امراض مسلط کرنے کا سبب بنتے ہیں۔انجانے خوف،وہم، وسوسوں اور اندیشوں سے بچنے کی کوشش کریں۔”خالی دماغ شیطانی سوچوں کا گھر ہوتا ہے“کے مصداق الٹی پلٹی سوچیں دماغ خراب کرتی رہتی ہیں لہٰذا خالی ذہن نہ رہیں بلکہ خود کو مشغول رکھیں۔ دماغ شیطانی سوچوں سے بھی محفوظ رہے گا اور اللہ کے ذکر کی برکت اور ثواب کا حصول بھی ممکن ہوجائے گا۔
اسی طرح انسانی بدن کی صحت مندی کے لیے بھرپور نیند کا بھی بنیادی کردارمانا جاتا ہے۔ایک عام صحت مند آدمی کو روزانہ کم از کم آٹھ گھنٹے سونا چاہیے اور بیمار فرد کے لیے بھی بھرپور نیند مرض بھگانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کو زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آرام بدنی راحت اور ذہنی سکون ہر دو طرح سے ہونا چاہیے۔
عید ایک ایسا مذہبی، روایتی اور معاشرتی تہوار ہے جس پر روٹھوں کو منانے اور بچھڑوں کو ملانے کا رواج عام ہے۔ یوں تو ہر عید کے موقع پر ہی باہمی بدگمانیوں،غلط فہمیوں اور رنجشوں کو بھلا کر خلوص ووفا اور محبت واپنائیت کے سدا بہار تعلق کی تجدید کی جاتی ہے۔ اس عید پر معمول سے ہٹ کر ہمیں وسعت قلبی اور اخلاقی جرات و حوصلے کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سماج میں بڑھتی ہوئی جسمانی اور روحانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی عدم برداشت، باہمی، حسد، جلن، بخل،نفرت، انتقام، غصہ،جھوٹ،فریب، مکاری، عیاری،مطلب پرستی،خود پسندی، اور احساس برتری کے بڑھتے ہوئے جذبات بھی ہیں۔ حسد،کڑھن، جلن، غصہ اور نفرت کرنے والے انسان کا چہرہ عجیب طرح کے اضطراب اور بے چینی کا مظہر ہوتا ہے۔ غصہ نفرت اور حسد کرنے والوں کے چہروں پربارہ بجنے کی سی کیفیت بہ آسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔
غصہ عقل کو کھاجاتا ہے اور حسد ایمان کا دشمن ہے۔سارا دن بھوکا پیاسا رہنے اور رات بھر عبادات مشغول رہنے کو اللہ کے ہاں مقبول بنانے اور یوم آخرت اجر پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حسد، نفرت، غصے،جھوٹ، فریب اور انتقام کے جذبوں کو دل سے نکال پھینکیں۔ایک دوسرے کی خیر خواہی، ہمدردی، محبت، عاجزی، معافی،برداشت اور دوسروں کے کام آنے کے جذبات اور رویوں کو فروغ دے کر بھی ہم معاشرے کے بڑھتے ہوئے امراض پرقابو پاسکتے ہیں۔
آئیے! اس عید سعید کے موقع پر عہد کریں کہ ہم باہمی رواداری،اخوت، بھائی چارے،محبت،وفا، خلوص، ہمدردی،ایثار،خیر خواہی، برداشت اور معافی کے جذبات کو سدا بہار فروغ دیں گے۔ محسن کائنات حضرت محمدﷺ کے فرمان”تم میں سے بہترین وہ ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہے“ پر پورا اترنے کی پوری کوشش کریں۔ ہماری ان معروضات پر عمل پیرا ہوکر دیکھیں انشا ء اللہ ہمارا معاشرہ جنت نظیر کا ماحول پیش کرے گا۔