ڈاکٹر خولہ علوی :
لیس العید لمن لبس الجدید
ولکن العید لمن خاف الوعید
ترجمہ: ” عید اس شخص کی نہیں جس نے نیا لباس پہنا بلکہ عید اس شخص کی ہے جو وعید (عذاب) سے ڈر گیا۔“
عادتاً اوربار بار لوٹ آنے والی چیز کو عید کا نام دیا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے لیے دو عیدوں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے علاوہ کوئی اور عید نہیں ہے۔
دراصل یہ انسانوں کی فطرت ہے کہ وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی تہوار ہو جس میں وہ سب جمع ہو کر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کریں۔ عید الفطر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کے بعد ساری امت کے لیے۔
اس انعام کی شکر گزاری کے لیے مرد و زن اور بچوں کو عید گاہ میں جانے اور اجتماعی عبادت ( نماز، خطبہ اور دعا ) میں شرکت کرنے کا حکم ہے تاکہ اس اجتماعیت کے ذریعے مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہو۔
عید گاہ جانے سے پہلے مسلمانوں کو صدقہ فطر/ فطرانہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ترجمہ: ” صدقہ فطر روزہ دار کی بے کار باتوں اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ “(ابو داؤد، 1696؛ ابن ماجہ، 1872)
صدقۂ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، روزہ دار ہو یا روزہ نہ رکھنے والا۔ حتیٰ کہ چاند رات پیدا ہونے والے بچے کا بھی فطرانہ ادا کرنا چاہیے۔
عید الفطر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں یہ تکبیرات پڑھنی چاہیے۔
دور نبوی ﷺ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تکبیرات گلیوں، کوچوں، اور بازاروں میں باآواز پڑھتے تھے۔
اگر آج بھی یہ سنت زندہ کی جائے تو عالم کفر پر ہیبت طاری ہو جائے۔ امت مسلمہ کے لوگ خصوصاً نوجوان طبقہ تکبیرات کی اہمیت سے ناآشنا ہو کر خسارے میں ہے۔ ان میں تکبیرات رغبت اور کثرت سے پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین تکبیرات پڑھتے ہوئے اپنی آواز بالکل پست رکھیں۔
1۔ اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر ، وللہ الحمد
2۔ اللہ اکبر کبیرا والحمد للّٰہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ و اصیلا۔
یہ بہت خوب صورت تکبیرات ہیں اور پڑھتے ہوئے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی و عظمت کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔
حضرت اُمِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمیں دربارِ نبوی ﷺ سے حکم ہوا کہ ہم حائضہ اور پردہ نشین مستورات کو بھی عیدین میں (اپنے ہمراہ ) نکالیں تاکہ وہ مسلمانوں کی دُعا اور جماعت میں شامل ہو جائیں، لیکن حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔ ایک خاتون نے عرض کیا۔ ” اے رسول اللہ! بعض دفعہ کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی۔“ فرمایا کہ ” اس کی سہیلی اپنی چادر میں اسے چھپا کر لے آئے۔“
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” نبی اکرم ﷺ اپنی بیٹیوں اور ازواجِ مطہرات کو عید کی نماز میں لے جایا کرتے تھے۔“
عورتوں کو عید کی نماز کے لیے ضرور جانا چاہیے۔ لیکن شوہرکی اجازت کے ساتھ اور باپردہ ہو کر۔ مکمل طور پر احکام ستر و حجاب کا خیال رکھتے ہوئے بغیر زیب و زینت کا اظہار کیے وہ عید گاہ جائے۔
اگر عورت شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عید گاہ جائے تواس کے شوہر کو حق حاصل ہے کہ وہ اسے عیدگاہ جانے کی اجازت ہی نہ دے بلکہ اسے جانے سے روک دے۔
نمازِ عید خطبہ سے پہلے صرف دو رکعت ہوتی ہے۔ نماز عید سے پہلے نہ اذان ہوتی ہے نہ اقامت ( تکبیر)۔ عید الفطر کے روز عید گاہ میں نماز عید سے قبل نمازِاشراق یا کوئی بھی نفل نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔ ( صحیح بخاری و صحیح مسلم) اسی طرح عید گاہ میں منبر لے جانا یا بنانا خلافِ سنت ہے۔ ( سنن ترمذی)
نماز جمعہ کے برعکس عید الفطر کی نماز میں دو رکعت نماز کی ادائیگی پہلے ہوتی ہے جس کے بعد خطبہ اور دعا بھی مانگی جاتی ہے۔ خطبہ بھی اتنی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جتنی کہ نماز اور دعا۔
خواتین اور بچیاں دو رکعت نماز کی باجماعت ادائیگی تو جیسے تیسے کرلیتی ہیں، لیکن عموماً خطبہ میں خاموشی اختیار نہیں کرتیں۔ البتہ بعد میں دعا سکون سے مانگ لیتی ہیں۔
عید گاہ میں جہاں مردوں کی طرف pin drop silence چھائی ہوتی ہے اور وہ پوری توجہ اور خشوع وخضوع سے خطبہ سن رہے ہوتے ہیں, وہیں بسا اوقات دوسری طرف سے خواتین اور بچوں کا اتنا شور ہوتا ہے کہ بسا اوقات ممبر سے امام صاحب کو گزارش کرنی پڑتی ہے کہ ” براہ کرم خواتین خاموشی اختیار کریں۔“
تو خاموشی سے خطبہ سنیں اور اجتماعی دعا مانگنے کے بعد پھر دیگر خواتین اور بچیوں، بزرگوں سے ملاقات کریں۔
اس موقع پر یہ مسنون الفاظ کہنے چاہیئں۔
تقبل اللہ منا ومنکم
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول کرے (یعنی نیک اعمال)
یہ مسنون الفاظ چھوٹی سی خوبصورت دعا ہے جو آپ دوسرے کو دیتے ہیں۔
باقی ” عید مبارک “ کے الفاظ بھی کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں۔ یہ الفاظ کہنا ہماری معاشرتی رسم ہے۔
اسی طرح عیدی دینا بھی ہماری معاشرتی رسم ہے جس سے خوشی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
چاند رات اور عید الفطر کے موقع پر شرعی احکام کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ چھوٹی بڑی سنتوں کی ادائیگی کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان المبارک سے حاصل شدہ تربیت کو سال کے باقی ایام میں برقرار رکھنا نہایت اہم ہے۔ اور یہی ہمارا اصل امتحان ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کی نمازیں، روزے، تراویح، دورہ ترجمہ وتفسیر القرآن، تلاوت قرآن پاک، سحریاں، افطاریاں اور صدقہ و خیرات قبول فرمائے اور ہمیں لیلتہ القدر نصیب کرے اور جہنم سے نجات کا پروانہ عطا فرمائے۔
آج ” لیلتہ الجائزہ “ ہے، چاند رات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہماری مزدوری کا بھرپور صلہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بعد میں بھی تمام عبادات پر رمضان کی طرح ہی عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
تقبل اللہ منا ومنکم۔
سب کو ” عید مبارک “ ہو۔