یورپی یونین ، پاکستان

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 5 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق :

پہلے یہ پڑھیے
یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 1 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 2 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 3 )

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 4 )

کیا توہینِ رسالت کو بین الاقوامی قانون کی رو سے قابلِ سزا جرم قرار دیا جاسکتا ہے؟
یہ سوال کئی لوگوں نے مختلف انداز میں اٹھایا ہے۔ اس کے جواب کےلیے پہلے تو یہ نوٹ کرلیں کہ اس وقت رائج نظام میں بین الاقوامی قانون کے تین بڑے مآخذ ہیں: بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی عرف اور قانون کے قواعدِ عامہ جو مہذب اقوام نے تسلیم کیے ہوں۔ آخر الذکر ماخذ پر پیچھے بحث ہوچکی۔ اب پہلے دو مآخذ پر بھی مختصر بات کرلیتے ہیں۔

جہاں تک بین الاقوامی عرف کا تعلق ہے، اس سے مراد ریاستوں کا تعامل ہے جو ایک طویل عرصے تک یکساں طریقے سے رائج رہے اور اس کے رائج ہونے کا سبب یہ ہے کہ ریاستیں اس طرزِ عمل کو اپنے اوپر قانوناً لازم سمجھتی ہیں۔ ریاستوں کے تعامل کے ثبوت کےلیے ریاستوں کے قوانین، ان کے عدالتی نظائر، ان کے حکومتی اقدامات اور اس طرح کے دیگر عوامل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ بین الاقوامی عرف کے لحاظ سے توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرم ثابت کرنا ممکن نہیں ہے۔ غیرمسلم ریاستیں تو ایک طرف، 57 مسلمان ریاستوں میں کتنی ایسی ہیں جہاں قانوناً توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا ہو؟ ایسی صورت میں اسے بین الاقوامی عرف سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ توہینِ رسالت کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کےلیے کوئی بین الاقوامی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ حقوقِ انسانی کے معاہدات میں اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کی بات ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کچھ قیود کی بات بھی ہوتی ہے جن کو بنیاد بنا کر یہ نظریہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی میں توہینِ رسالت شامل نہیں ہے لیکن ، جیسا کہ تفصیل سے واضح کیا گیا، یہ کوئی مسلمہ نظریہ نہیں ہے اور مغربی ریاستیں اسے نہیں مانتیں۔

اسی طرح بین الاقوامی فوجداری قانون کے جتنے معاہدات ہیں، جن میں بعض افعال کو جرم قرار دے کر ان کے مرتکبین پر مقدمہ چلانے کا طریقہ وضع کیا گیا ہے، جیسے بین الاقوامی فوجداری عدالت کا منشور، تو اس میں بھی ” توہینِ رسالت “ یا ” توہینِ مذہب “ کا جرم موجود نہیں ہے۔

تو کیا مسلمان ریاستیں اس ضمن میں آپس میں معاہدہ کرسکتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ کرسکتی ہیں اور ایسا کوئی معاہدہ کرنے سے انھیں قانوناً کوئی نہیں روک سکتا۔ آخر جن افعال کو اب ” انسانیت کے خلاف جرائم “ قرار دیا جاتا ہے ، کسی دور میں انھیں ” مسیحیت کے خلاف جرائم “ کا عنوان دیا گیا تھا اور یورپی ریاستوں نے آپس میں ان کے متعلق سمجھوتے کیے تھے۔

اسی نہج پر مسلمان ریاستیں اگر توہینِ رسالت کے مسئلے سے واقعی نمٹنا چاہتی ہیں، تو ان کے لیے سب سے مناسب اور سب سے مؤثر راستہ یہی ہے کہ وہ آپس میں معاہدہ کرکے اسے قابلِ سزا جرم قرار دیں۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر وہ اسے مسلمانوں کے خلاف جنگی اقدام اقدام بھی قرار دیں، تو یقین کیجیے کہ عالمی سطح پر اس سلسلے کو روکنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوجائیں گی۔

اس ضمن میں مسلمان ریاستوں کی تنظیم ، یعنی اسلامی تعاون کی تنظیم (Organization of Islamic Cooperation/OIC) کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ مگر بین الاقوامی سطح پر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل کر معاہدہ کرنے میں رکاوٹ ہے، مثلاً کیا آپ مرزا غلام احمد قادیانی کی ” شان میں گستاخی “ کو بھی قابلِ سزا جرم قرار دیں گے، تو کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ مسلمان آپس میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی کی حد تک ایسا کوئی معاہدہ کرلیں؟

اگر اس فورم پر واقعی ایسا کوئی معاہدہ طے پاتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی اور دوررس تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا مسلمان ریاستیں یہ کرسکیں گی؟ یا یہ کرنا چاہتی بھی ہیں؟ شاید ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور اس کی کچھ وجوہات خارجی اور کچھ داخلی ہیں۔

مثلاً مسلمان ریاستیں عموماً ضعف کا، اور اس سے زیادہ وہن کا ، یعنی موت کے خوف کا شکار ہیں۔ وہ یہ خطرہ مول لینے کےلیے تیار ہی نہیں ہیں کہ یورپ و امریکا ان سے ناراض ہوں۔ پھر یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ ان ریاستوں کی آپس میں چپقلش اور کشمکش کی عجیب صورتیں پائی جاتی ہیں (مثلاً ایران/سعودی، سعودی/ترکی، ترکی/ایران) جن کی موجودگی میں کسی بامعنی نتیجے تک پہنچنا انتہائی حد تک مشکل کام ہے۔ مشکل ہی سہی، لیکن اگر مسلمان اس معاملے میں بین الاقوامی سطح پر کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا راستہ او آئی سی سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔

یہ عالمی منظرنامہ اس لیے تفصیل سے پیش کیا گیا کہ یہ بات واضح ہو کہ یہ مسئلہ تنہا پاکستان کا نہیں ہے، نہ ہی پاکستان تنہا اس کےلیے کوئی بہت بڑا اقدام کرسکتا ہے۔ یہ کام مسلمان ریاستوں نے مل کر ہی کرنا ہے اور مل کر کوشش کیے بغیر یہ ممکن بھی نہیں ہوگا۔ دردِ دل رکھنے والے اور سوچنے سمجھنے والے مسلمانوں کو اگر اس مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈنا ہے تو انھیں اسی زاویے سے کام کرنا ہوگا کہ کیسے مسلمان ریاستیں مل کر اس معاملے پر کوئی مشترکہ موقف اختیار کرلیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جب تک مسلمان ریاستیں آپس میں مل کر کوئی لائحۂ عمل طے نہیں کرلیتیں اور کوئی مشترکہ اقدام اٹھا نہیں لیتیں، پاکستان جیسے ملک کے پاس کیا آپشن باقی ہیں؟

مثلاً کیا فرانس کے سفیر کو واپس بھجوانا اس مسئلے کا حل ہے؟ کیا آپ صرف اسی سفیر کو واپس بھجوانا چاہتے ہیں اور اس فرانس نے پھر کوئی اور سفیر بھجوادیا تو آپ کو اعتراض نہیں ہوگا؟ یا آپ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہی ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ آخر الذکر آپشن ہے، تو کیا اس اقدام سے صرف فرانس کے ساتھ تعلقات ختم ہوجائیں گے، یا یورپ اور اس کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بھی توڑنے پڑیں گے؟

یہ سوال بھی اہم ہے کہ جس طرح کا اتحاد یورپی یونین نے اس معاملے پر دکھایا ہے، اس طرح کا اتحاد مسلمان ممالک کی جانب سے دکھائے بغیر کسی ایک ملک کےلیے تنہا یہ پوزیشن لینا ممکن ہے یا مناسب ہے؟ قرآنِ کریم نے غزوۂ بدر کے بعد کے حالات میں مسلمانوں کو آگاہ کیا تھا:

” اور جنھوں نے کفر کیا وہ آپس میں ایک دوسرے کے حامی و مددگار ہیں ، تو اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں ظلم اور بڑا فساد ہو گا۔“ (سورۃ الانفال، آیت 73)

اس لیے سابقہ سطور میں تفصیل سے بتایا گیا کہ اس موضوع پر اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک اس پر مشترکہ موقف اپنائیں۔ اس کے بغیر تنہا پاکستان کےلیے یہ آپشن ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلے۔

سفارتی تعلقات منقطع نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ فرانس میں بہت سے پاکستانیوں کی زندگی، تجارت اور دیگر حقوق داؤ پر لگ جائیں گے۔ کسی بھی مسلمان کی ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اس نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے۔

فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ اگر دشمن کی قید میں موجود مسلمانوں پر شدید ظلم کیا جارہا ہو اور ان سے سخت مشقت لی جارہی ہو، اور ان میں کچھ مسلمان دشمن پر حملہ کرنے کا سوچیں تو حملہ کرنے سے قبل انھیں لازماً یہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں ان کا یہ اقدام خودکشی تو نہیں ہے، اور اسی طرح انھیں یہ بھی لازماً دیکھنا ہوگا کہ کہیں ان کے اس اقدام کی وجہ سے باقی مسلمانوں کو زیادہ بڑی مصیبت کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا؟

جہاد اور قتال میں ہر اقدام کے وقت مجاہد اور مقاتل کے سامنے یہ دو سوالات رہنے چاہئیں۔ شرح السیر الکبیر سے امام محمد کے متن اور امام سرخسی کی شرح کے ساتھ یہ جزئیات دیکھ لیجیے:

و ان کانوا یستعملونہ فی الأعمال الشاقۃ فاشتد ذلک علیہ ، فشد علی بعضھم لیقتلہ ، فان کان فعلہ ینکیء فیھم فلا بأس بذلک ۔ و ان کان یعلم أنہ لا ینکیء فیھم فالأولی ألا یفعلہ ، الا أن یکونوا کلفوہ من العمل ما لا یطیق فظن أن لہ فیما یصنع نجاۃ أو ترفھاً ، فحینئذٍ لا بأس بذلک لطلب النجاۃ ۔

( اگر وہ اس سے سخت مشقت کے کام لیں اور اس پر وہ بہت بھاری گزرے جس کی وجہ سے وہ ان میں سے کسی کو قتل کرنے کے لیے اس پر حملہ کردے تو اگر اس کا یہ فعل ان کو دہشت زدہ کرنے کا باعث بنے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اگر وہ جانتا ہو کہ اس طرح وہ انھیں دہشت زدہ نہیں کرسکے گا تو بہتر یہی ہے کہ وہ ایسا نہ کرے ، سوائے اس حالت کے جب وہ اس سے ایسا کام لیتے ہوں جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو ( جس سے مقصود اسے سسکا سسکا کر مارنا ہو) اور اس کا گمان ہو کہاس طرح حملہ کرکے اسے نجات اور راحت ملے گی تو ایسی صورت میں نجات حاصل کرنے کی خاطر اس حملے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ )

وإن كان يعلم أن فعله هذا يضر بغيره من الأسراء في أيديهم فالأفضل ألا يفعل خصوصاً إذا كان نكايته فيهم لا تبلغ بعض ما يجب لأنہ مندوب الی النظر للمسلمین و دفع الشر العدو عنھم ۔ ألا تری أن المجاھد لھذا یقاتل المشرکین ؟ فان کان فعلہ ھذا یصیر سبب الاضرار بالمسلمین بأن یقتلوا أو یعذبوا فالأفضل لہ ألا یفعل ۔

( اور اگر وہ جانتا ہو کہ اس کے اس فعل سے ان کے قبضے میں موجود دیگر قیدیوں کو نقصان پہنچے گا تو بہتر یہ ہے کہ وہ ایسا نہ کرے، بالخصوص جبکہ وہ دشمن کو اتنا دہشت زدہ بھی نہیں کرسکتا جتنا ضروری ہے، کیونکہ مسلمانوں کے مصالح کا خیال رکھنا اور ان سے دشمن کے شر کو دور رکھنا اس کے لیے مندوب ہے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ مجاہد اسی مقصد کے لیے تو لڑتا ہے ؟ پس جب اس کا یہ فعل مسلمانوں کے لیے ضررکا باعث بنے گا کہ اس کی وجہ سے انھیں قتل کیا جائے گا یا سخت سزائیں دی جائیں گی تو بہتر یہی ہے کہ وہ ایسا نہ کرے ۔)

واضح رہے کہ فرد کو ایسی صورت میں پھر بھی کسی نہ کسی حد اقدام کی رخصت مل سکتی ہے لیکن حکمران کا معاملہ زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کا تحفظ کرے اور انھیں نقصان نہ پہنچنے دے۔

کیا اس کے جواب میں صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ اس حساس ترین مسئلے پر ہمیں ہر طرح کی قربانی دینی چاہیے اور کسی کے ساتھ تعلقات کی پروا نہیں کرنی چاہیے؟ کیا واقعی ہماری قوم ایسی قربانی کےلیے تیار ہے؟ کیا واقعی ہماری قوم اس جذبۂ ایمانی سے سرشار ہے؟

اگر ان سوالات کے جوابات اثبات میں بھی ہوں، تو سوال یہ ہے کہ کیا جہاد کےلیے صرف جذبۂ ایمانی سے سرشار ہونا کافی ہے یا شریعت نے اس سلسلے میں استطاعت کی بھی شرط رکھی ہے ؟ جنگ کے دوران میں کسی وقت بے تیغ بھی لڑنے کا موقع مل سکتا ہے، کسی وقت تنہا دشمن کی صفوں کو چیر کر اندر تک گھسنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے، لیکن مجاہد کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شریعت نے خودکشی حرام کی ہے۔

چنانچہ فقہائے کرام نے تو یہاں تک تصریح کی ہے کہ اگر دشمن کسی مجاہد کے سینے میں نیزہ گھونپے تو اس وقت مجاہد کو آگے بڑھ کر جوابی حملہ کرنے سے قبل سوچنا چاہیے کہ اس کا یہ اقدام خودکشی تو نہیں کہلائے گا؟ ذرا امام محمد کے متن اور امام سرخسی کی شرح میں یہ مقام تو دیکھ لیجیے۔

امام محمد فرماتے ہیں :
و لو ان مشرکا طعن مسلما برمح ، فانفذہ ، فاراد ان یمشی فی الرمح الیہ لیضربہ بالسیف : فان کان یخاف الھلاک ان فعل ذلک ، و یرجو النجاۃ ان خرج من الرمح ؛ فعلیہ ان یخرج ۔

( اگر کسی مشرک نے کسی مسلمان کو نیزے سے زخمی کرکے نیزہ اس کے بدن میں گھونپ دیا اور پھر وہ مجروح مسلمان اس حملہ آور مشرک کو تلوار سے زخمی کرنے کے لیے اس کی طرف چلے جبکہ یوں وہ نیزہ مزید اپنے بدن میں گھونپ رہا ہوتا ہے تو: اگر اسے ایسا کرنے میں اپنی موت کا اندیشہ ہو اور نیزہ بدن سے نکل جانے کی صورت میں اسے زندگی بچ جانے کی امید ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ نیزہ سے نجات حاصل کرلے ۔ )

امام سرخسی قانونی اصول ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں :
لان المشی الیہ فی الرمح اعانۃ علی قتل نفسہ ؛ و الواجب علی کل الدفع عن نفسہ بجھدہ اولاً ، ثم النیل من عدوہ ۔
( کیونکہ اس کی طرف حرکت کی کوشش میں وہ نیزہ مزید اپنے بدن میں گھونپ کر اپنے قتل میں اعانت کرتا ہے اور ہر شخص پر لازم ہے کہ پہلے اپنی جان بچائے اور اس کے بعد اپنے دشمن کو نقصان پہنچائے ۔)

امام محمد آگے اس مسئلے کے دیگر پہلووں کی وضاحت کے لیے مزید فرماتے ہیں :
و ان استوی الجانبان عندہ فی التیقن بالھلاک فیھما ، او رجاء النجاۃ فیھما۔

( اگر اس (مجروح مسلمان ) کے خیال میں دونوں صورتیں ( دشمن پر حملہ اور بدن سے نیزہ نکالنا ) اس لحاظ سے برابر ہوں کہ دونوں میں موت یقینی ہو ، یا دونوں میں بچ جانے کی یکساں امید ہو ۔)
امام سرخسی وضاحت فرماتے ہیں :
من حیث انہ لا یزید فی جراحتہ ۔
( کہ دونوں صورتوں میں وہ اپنے زخم میں اضافہ نہیں کرے گا ۔)

تو اس صورت میں امام محمد حکم کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں :
فلا باس بان یمشی الیہ فی الرمح حتی یضربہ بالسیف ؛ و ان شاء خرج من الرمح ۔
( تو اس حالت میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بدن میں پیوست نیزے سمیت دشمن پر حملہ کرکے اس پر تلوار سے ضرب لگائے ؛ اور اگر وہ چاہے تو نیزے سے نجات حاصل کرلے ۔)
امام سرخسی فرماتے ہیں :
لانہ لابد من ان یخرج الرمح من ای الجانبین شاء ۔
( کیونکہ اس کے پاس کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ نیزہ بدن سے نکالے خواہ آگے سے ہو یا پیچھے سے ۔ )
آگے امام سرخسی مزید واضح کرتے ہیں کہ اس صورت میں اور پہلی صورت میں فرق ہے اور اس فرق کو وہ امام محمد کے الفاظ میں ہی نقل کرتے ہیں :
و فرق محمد رحمہ اللہ بین ھذا و بین ما سبق ، و قال : لیس ھناک فی القاء نفسہ معنی النیل من العدو ، و ھا ھنا فی المشی الیہ فی الرمح معنی النیل من العدو ؛ و ھذا القصد یبیح لہ الاقدام ۔

( اور امام محمد رحمہ اللہ نے اس میں اور پچھلے مسئلے میں فرق کرتے ہوئے کہا: وہاں وہ اپنی جان کھوکر دشمن کو کوئی نقصان نہیں پہنچارہا ، جبکہ یہاں نیزے میں آگے حرکت کرنے سے وہ دشمن کو نقصان پہنچاسکتا ہے ۔ اس لیے یہاں اس کے لیے اقدام جائز ہوجاتا ہے ۔)

ان جزئیات اور ان کے پیچھے موجود اصولوں کا یہ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ جب فرد کےلیے بھی شریعت نے اتنی کڑی پابندیاں لگائی ہیں، تو نظمِ اجتماعی کو کیسے یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی استطاعت کا جائزہ لیے بغیر ایک بھاری ذمہ داری اپنے اوپر اٹھائے اور نتیجے میں مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنے؟

جہاد کو ہماری رزمیہ شاعری کی وجہ سے صرف ایک جذباتی عمل سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ فقہائے کرام نے جس طرح اسلام کا تصورِ جہاد واضح کیا ہے، اس کی رو سے اس میں ہر ہر قدم پر عقل و منطق کا استعمال ضروری ہے۔ ہاں، جذبۂ ایمانی کے بغیر محض عقلی استدلال کسی کام کا نہیں ہے، لیکن عقلی تجزیے کے بغیر محض جذبۂ ایمانی کی بنیاد پر جہاد کی خواہش خودکشی کا باعث بن سکتی ہے۔

چنانچہ فقہائے کرام نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کسی بھی فعل کی طرح جہاد کےلیے بھی استطاعت کی شرط ہے۔ چنانچہ مثلاً عدمِ استطاعت ہی کی وجہ سے نابینا اور دوسرے معذور افراد پر قتال کا فریضہ عائد نہیں ہوتا ۔ البتہ عدم قدرت کے لیے کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے کیونکہ حالات میں تبدیلی کے ساتھ حکم بھی تبدیل ہوتا ہے ، نیز مختلف زمانوں میں جنگ کے طریقے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور آلات حرب اور ہتھیاروں کی نوعیت بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے ۔

اس لیے عین ممکن ہے کہ ایک زمانے میں ایک شخص قتال کے نااہل سمجھا گیا ہو اور دوسرے زمانے میں وہی شخص قتال کی قدرت رکھتا ہو ، اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔ سورۃ الانفال کی آیت 66 سے بعض اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب تک مسلمان فوج کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم از کم دوگنا نہ ہو اس وقت تک ان پر جہاد فرض نہیں ہوتا۔ یہ رائے کئی وجوہ سے صحیح معلوم نہیں ہوتی ۔

مثلاً عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جاسکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی ۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کردیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایاجائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟

امام سمرقندی نے کئی سو سال پہلے اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے :
و لا ینبغی للغزاۃ أن یفر واحد من اثنین منھم ۔ و الحاصل أن الأمر مبنی علی غالب الظن ۔ فان غلب فی ظن المقاتل أنہ یغلب و یقتل فلا بأس بأن یفر منھم۔ و لا عبرۃ بالعدد ، حتی ان الواحد اذا لم یکن معہ سلاح فلا بأس بأن یفر من اثنین معھما السلاح ، أو من الواحد الذی معہ السلاح ۔

( مجاہدین کے لیے یہ مناسب نہیں کہ دو دشمنوں کے مقابلے سے ایک مجاہد فرارہو جائے ۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاملہ غالب گمان پر مبنی ہے ۔ پس اگر مجاہد کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ مغلوب ہوجائے گا اور قتل کردیا جائے گا تو فرار ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں عدد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک نہتا مجاہد اگر دو مسلح دشمنوں یا ایک ہی مسلح دشمن سے فرار ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی )

ابن رشد نے تصریح کی ہے کہ امام مالک سے بھی اس طرح کی روایت کی گئی ہے :
و ذھب ابن الماجشون ، و رواہ عن مالک ، أن الضعف انما یعتبر فی القوۃ ، لا فی العدد ، و أنہ یجوز أن یفر الواحد عن واحد اذا کان أعتق جواداً منہ و أجود سلاحاً و أشد قوۃً ۔

( ابن ماجشون کی رائے یہ ہے ، اور وہ اسے امام مالک سے روایت کرتے ہیں ، کہ دوگنے کا معیار قوت ہے نہ کہ عدد ، اور اسی وجہ سے جائز ہے کہ تنہا شخص کسی ایک شخص کے مقابلے سے فرار ہوجائے اگر وہ اسے بہتر گھوڑا ، اچھی تلوار یا زیادہ قوت رکھتا ہو ۔)

امام سرخسی نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ یقینا قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے :

ان کان عدد المسلمین مثل نصف عدد المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ و ھذا اذا کان بھم قوۃ القتال بأن کانت معھم الأسلحۃ فأما من لا سلاح لہ فلا بأس بأن یفر ممن معہ سلاح ۔ و کذلک لا بأس بأن یفر ممن یرمی اذا لم یکن معہ آلۃ الرمی ۔ ألا تری أن لہ أن یفر من باب الحصن ، و من الموضع الذی یرمی فیہ بالمنجنیق ، لعجزہ عن المقام فی ذلک الموضع ۔

( اگر مسلمانوں کی تعداد مشرکین کے نصف کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ فرار اختیار کریں ۔۔۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب ان میں جنگ کی قوت ہو ، یعنی ان کے پاس اسلحہ ہو ۔ پس جس کے پاس اسلحہ نہ ہو اس کے لیے اسلحہ رکھنے والے کے مقابلے سے فرار اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔

اسی طرح اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس رمی کا آلہ نہ ہو تو وہ رمی کرنے والے سے فرار اختیار کرلے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ قلعے کے دروازے سے اور اس جگہ سے جہاں منجنیق سے گولے پھینکے جارہے ہوں فرار ہوجائے کیونکہ وہ اس جگہ ٹھہرنے سے عاجز ہوتا ہے ؟ )
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں